ارسلان حسن عطّاری (درجۂ ثالثہ جامعۃ المدینہ فیضان
فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
اسلام نے حقوق
کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے ایک کو ہم حقوق اللہ کہتے اور دوسرے کو حقوق العباد۔
ان دونوں کی اسلام میں بہت اہمیت ہے حقوق اللہ، اللہ کے حقوق یعنی اس کی فرمانبرداری
کرنا اور حقوق العباد سے مراد لوگوں کے حقوق ۔ اسلام نے ایک مسلمان کو دوسرے
مسلمان کا بھائی قرار دیا ہے جس طرح سے ایک حقیقی بھائی اپنے بھائی کی جان ومال
اور اس کی عزت کی حفاظت کرتا ہے اس کی ہر ضرورت کا خیال رکھتا ہے۔ اسی طرح اپنے
مسلمان بھائی کی ہر ضرورت کو پورا کرنےکی کوشش کرنی چاہئے جس طرح سے خونی رشتے
مضبوط ہوتے ہیں اسی طرح ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان سے جو ایمانی رشتہ ہے اسے بھی
مضبوط بنانا چاہیے۔ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے ۔انَّمَا
الْمُؤْمِنُونَ اخْوَةٌ (الحجرات 10) ترجمہ کنز العرفان۔ مسلمان بھائی
بھائی ہیں۔ مسلمانوں کو آپس میں بھائی قرار دیا: ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر جو
حقوق ہیں ان میں سے چند پیش کرتا ہوں:
(1)
اچھی گفتگو کرنا : ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان سے اچھی گفتگو کرنی
چاہیے آپس میں ایسی گفتگو سے پر ہیز کرنا چاہیے۔ جس سے مسلمان بھائی کی دل آزاری
ہو اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے وَ قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا ترجمہ
کنز الایمان: اور لوگوں سے اچھی بات کہو۔ (پ1، البقرۃ: 83) اس کی تفسیر کے تحت
صراط الجنان میں ہے اچھی بات سے مراد نیکی کی دعوت دینا اور برائیوں سے روکنا ہے۔
حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شان اور اولیاء کرام رحمۃ اللہ علیہم کے
مقام و مرتبہ کا بیان اور نیکیوں اور برائیوں کے متعلق سمجھانا شامل ہے۔
(2)
ایک دوسرے کی خیر خواہی کرنا: حضرت جریر بن عبد الله رضی اللہ عنہ
بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے بیعت کی کہ
ہمیشہ نماز پڑھتا رہوں گا زکوة دیتا رہوں گا اور ہر مسلمان کی خیر خواہی کروں گا۔
اور خیر خواہی کا تقاضا یہ ہے کہ اپنے بھائی کے لیے ہر وہ چیز پسند کرے جو اپنے
لیے پسند کرتا ہے اور ہر وہ چیز ناپسند کرے جو اپنے لیے نا پسند کرتا ہے ۔
(3)
مظلوم کی مدد کرنا: حضرت سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے
کہ حضور سرور کونین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ہمیں مظلوم کی مدد کرنے کا
حکم دیا (ترمذی جلد 4 ص 369)
(4)
چغلی نہ کرنا:چاہئے
کہ ایک دوسرے کے خلاف باتیں نہ سنے اور نہ ہی کسی کی بات سن کر دوسروں تک پہنچائے
حضور سید عالم نور مجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشاد معظم ہے لا يَدخُلُ الْجَنَّةَ
قتات
یعنی چغل خور جنت میں داخل نہیں ہوگا۔(بخاری حدیث 605)
خلیل بن احمد
نحوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جو شخص تیرے پاس کسی کی چغلی کرے گا وہ دوسروں کے
پاس تیری چغلی بھی کرے گا اور جو تجھے کسی کے بارے خبر دے گا وہ تیری خبر بھی
دوسروں تک پہنچائے گا۔
(5)
صلح کرانا:الله
تعالی ارشاد فرماتا ہے: وَ اِنْ طَآىٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ
اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَهُمَاۚ۔ترجمہ کنز العرفان: اور اگر
مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑیں تو ان میں صلح کراؤ۔(پ26، الحجرات:9)
اس کی تفسیر
میں مفتی صاحب صراط الجنان میں فرماتے ہیں۔ مسلمانوں میں صلح کرانا حضور اقدس
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنت اور اعلی درجہ کی عبادت ہے البتہ مسلمانوں
میں وہی صلح کروانا جائز ہے جو شریعت کے دائرے میں ہو جبکہ ایسی صلح جو حرام کو
حلال اور حلال کو حرام کر دے وہ جائز نہیں (صراط الجنان جلد 9 ص 315٫316)
اللہ عزوجل سے
دعا ہے کہ وہ ہمیں حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد بھی پورے کرنے کی توفیق عطا
فرمائے: آمین
یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و
تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔