آج 18 محرم الحرام مطابق 18 ستمبر 2019ء بروز
بدھ دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلس ِ شوریٰ کے رکن الحافظ القاری المفتی محمد فاروق
عطاری مدنی رحمۃ
اللہ علیہ کا یومِ وصال
ہے۔
آپ ایک صالح ومتقی عالمِ دین اوردعوتِ اسلامی کی
مرکزی مجلس ِ شوریٰ کے رکن ہونے سمیت حافظ
،قاری اورمفتی بھی تھے ۔آپ کی ولادت 26 اگست 1976ء ماہِ رمضان المبارک میں
پاکستان کے شہر لاڑکانہ میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم وحفظ حیدرآبادسندھ سے کیا، دعوتِ
اسلامی کے ہفتہ وار سنّتوں بھرے اجتماع میں شرکت اور وہاں کی جانے والی اِختتامی
رقّت انگیز دُعاآپ کی مدنی ماحول سے وابستگی کا سبب بنی۔
محمد فاروق عطاری مدنی صاحب 1989ءمیں کراچی
منتقل ہو گئے۔ آپ پہلے پہلے کنزالایمان مسجد کے قریبی علاقے پٹیل پاڑا میں رہائش
پذیر رہے، دعوتِ اسلا می کے جامعۃ المدینہ میں1995ء میں داخلہ لیا ، آپ اپنی
عادات واطوار میں دیگر طَلَبہ سے ممتاز حیثیت کے حامل تھے۔
آپ کے تلاوتِ قراٰن پاک کے ذوق کا اندازہ اس
بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ "دورانِ طا لب العلمی جب پڑھائی کے درمیان وقفہ
ہوتا تو اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قراٰنِ
مجید کی تلاوت شروع کر دیتے ۔ ہم درجہ کے پوچھنے پر خودفرمایا :کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ میں روزانہ قراٰن
پاک کے ایک منزِل کی تلاوت کرتا ہوں۔(قراٰنِ
پاک کی سات منزِلیں ہیں اس طرح آپ سات دن میں قراٰنِ مجید ختم کرلیا کرتے تھے )، آپ کا حفظ اتنا مضبوط تھاکہ تمام اساتذہ
دورانِ سبق آیت آجانے پر آپ ہی سے اس کے بارے میں پوچھا کرتے تھے۔"
آپ خودداری، ملنساری، عاجزی وانکساری کے پیکر
تھے اور اِیثار کا جذبہ آپ میں نمایاں
تھا۔ آپ کی نگاہیں اکثر جھکی رہتی، آپ
نے اپنی موٹر سائیکل اس لئے بیچ دی کہ چلاتے ہوئے غیر محرم عورَت آڑے آجانے کی
صورت میں نظر کی حفاظت بے حد کٹھن ہے۔
آپ بہت کم گفتگو فرماتے تھے،اکثر خاموش ہی رہتے،بعض
اوقات گھر والوں سے بھی لکھ کر بات چیت کرتے تھے،کبھی نفس کے خاطر غصّہ نہ کرتے،
اکثر باوضو رہا کرتے تھے ، اپنی الماری میں صرف چار جوڑے رکھتے آپ مطالعہ کے شائق
تھے اور فتاویٰ رضویہ شریف اور بہار شریعت کا بالاستیعاب مکمل مطالعہ کر چکے تھے،کثرت
سے تلاوت قراٰنِ پاک اورتہجدآپ کامعمول تھا،ترجمہ کنزالایمان مع تفسیر خزائن
العرفان کا کئی مرتبہ مکمل مطالعہ کرچکے تھے۔
آپ مصنف بھی تھےاورتفسیرِ جلالین کاتقریباً
1200صفحات پر مشتمل عربی حاشیہ لکھا اور تفسیرِ قراٰن ’’صِراطُ الجنان ‘‘
کے چھ پاروں پر بھی کام مکمل کرچکے تھے،اپنے گھر میں آپ کا یہ کردار تھا کہ گھر
وا لےآپ سے دم کرواتے، آپ کا بچا ہواپانی سنبھال کر رکھتے اور بطور تبرک استعمال
کیا کرتے۔
آپ کی انفرادی کوشش سے نا صرف کئی اسلامی بھائی
نمازی بنے ، اپنے چہرے پر داڑھیاں سجالیں اور مدنی ماحول سے وابَستہ ہوگئے ۔ بلکہ
کئی غیر مسلم آپ کے ہاتھ پر مسلمان بھی ہوئے۔
مدنی کاموں میں بھی آپ کا جذبہ بے مثال تھا، جب آپ عَلاقائی نگران تھے تو آپ کی کارکردگی تنظیمی کاموں میں بھی باقی سب نگران
اسلامی بھائیوں سے بہتر تھی۔ آپ کا کاردگی
فارم بِن مانگے سب سے پہلے مل جاتاتھا، آپ بلاناغہ صدائے مدینہ لگایا کرتے تھے، علاقائی
دورہ برائے نیکی کی دعوت میں شرکت فرماتے، مدرسۃُالمدینہ برائے بالِغان پڑھاتے تھے،
ہفتہ وار اجتماع میں شرکت فرماتے یہاں تک کے اپنی زندگی کی آخری جمعرات بھی
اجتماع میں شرکت کی اور ساری رات فیضان ِ مدینہ ہی میں رہے ، باپندی سے قافلوں میں
سفر فرماتے اور 72 نیک کام پر خود بھی عمل
فرماتے اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دلاتے۔
یو ں آپ ترقی کرتے کرتے 2000ء میں دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ
کے رکن بنے ، اس کے ساتھ ساتھ آپ دعوت ِ
اسلامی کی مجلس تحقیقاتِ شرعیہ ، مجلس ِ اِفتاء ، مجلسِ جامعات المدینہ، مجلس ِ
اِجارہ ، مجلس مَدَنی مذاکرہ کے نگران اور
مجلس مالیات ،مجلس مکتبۃ المدینہ، پاکستان
انتظامی کابینہ ،باب المدینہ مشاورت کے رکن اور تخصص فی الفقہ(مفتی کورس) کے استاذ بھی تھے۔
آپ نے پہلافتویٰ ۱۵ شعبان،۱۴۲۱ھ
بمطابق13 نومبر2001ء کوتحریر فرمایا۔
تقریباًایک
سال دارُ الافتاء اہلسنت ’’جامع مسجد کنزُ الایمان‘‘بابری چوک کراچی میں
رہے اور تقریباً 500 فتاویٰ لکھے، اس کے بعد تقریباًتین سال دارالافتاء نورالعرفان
جامع مسجد بخاری کھارادر کراچی میں رہے اور تقریباً2000 فتاویٰ لکھے۔ پھر تقریباً 11ماہ ، مکتب مجلسِ افتاء عالمی مدنی مرکزفیضانِ مدینہ کرا
چی میں رہے ،یہاں آپ کے فتاوٰی کی تعداد 1500 ہے۔ اس طرح آپ کے فتاوٰی کی تعداد
تقریباً 4000ہے ۔
7فروری 2002ء میں اپنے مرشد ِ کامل شیخ ِطریقت
امیرِ اہلِ سنّت علامہ محمدالیاس عطاؔر
قادری دَامَتْ
بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے
ہمراہ حج و زِیارتِ مدینۂ منوّرہ کی
سعادت سے مُشَرَّف ہوئے ۔
18محرم الحرام 1427ھ
بمطابق 17 فروری 2006ءکو نمازِ جُمُعَہ کی ادائیگی کے بعد آپ نے کھانا تناول فرمایا،
اس کے بعد کچھ دیر گھر والوں سے گفتگو کی پھر دینی کُتُب کے مُطَالَعَہ میں مصروف
ہوگئے ۔ دوپہر تقریبا ساڑھے تین بجے آرام کرنے کے لئے لیٹ گئے ،نمازکا وَقْتْ
ہونے پر ان کی والدہ مُحتَرمَہ نے انہیں پُکارا مگران کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا
اور دیکھا کہ آپ بے حِس وحرکت پڑے ہوئے ہیں ، آپ کے بڑے بھائی آپ کو لے کر ہسپتال
کی طرف روانہ ہوگئے ، وہاں پہنچنے پر ڈاکٹروں نے آپ کا طبی معائنہ کرنے کے بعد بتایا کہ آپ توحرکتِ
قَلْب بند ہونے کی وجہ سے تقریباً دوگھنٹے پہلے ہی داعیٔ اجل کو لَبَّیْک کہہ چکے
ہیں ۔ ‘‘
یوں آپ تقریباً 30 برس کی عمر جوانی کے عالم میں
انتقال فرماگئے۔
رات تقریباً 10:00بجے آپ کو غُسل دیا گیا ۔ آپ
کوغُسل دینے والے اسلامی بھائیوں کا بیان ہے کہ ہم نے جاگتی آنکھوں سے دیکھا کہ
مفتی ٔ صاحب دورانِ غسل مسکرا رہے تھے،ہرمرید کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ مرشد میری
نمازِجنازہ پڑھائے۔ آپ کے پیرومرشد امیراہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ تحریری
کام کے سلسلے میں ملک سے باہر تھےلیکن اپنے مدَنی بیٹے کی دنیا سے رخصتی کی خبر سن
کر بذریعۂ ہوائی جہاز رات تقریباً
3:15بجے کراچی پہنچے اور عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ کراچی تشریف لے آئے جہاں مفتی صاحب کا آخری دیدار کروایا
جا رہا تھا۔
مفتی محمد فاروق عطاری مدنیرحمۃ اللہ علیہ کی نماز جنازہ امیر اہلِ سنّت
علامہ محمد الیاس عطار قادری نے عالمی مدنی
مرکز فیضان مدینہ کراچی میں ہفتہ کی صبح
تقریبا 10:30بجے پڑھائی ، اور آپ کی تدفین
بھی آپ کے پیرومرشد امیراہلِ سنّتدَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی موجودگی میں مرحوم نگرانِ شوریٰ حاجی محمد مشتاق عطاریرحمۃ اللہ علیہ کےپہلومیں صحرائےمدینہ، ٹول پلازہ، کراچی میں
ہوئی۔
آپ کے وِصال شریف کے تقریباً3سال 7مہینے 10دن
بعدیعنی 25رجب المرجَّب ۱۴۳۰ھ
بمطابق
18جولائی 2009ء بروزہفتہ اور اتوار کی درمیانی رات کراچی میں کئی گھنٹے تک
موسلادھار بارش ہوئی جس کی وجہ سے مفتیِٔ دعوتِ اسلامی کی قبر درمیان سے کُھل گئی ، وہاں موجود اسلامی بھائیوں نے صبح کے وقت دیکھا
کہ قبر سے سبز رنگ کی روشنی نکل رہی ہے ، اسلامی بھائیوں کا حلفیہ بیان ہے کہ ہم
نے دیکھا کہ تدفین کے تقریبًا ساڑھے تین سال بعد بھی مفتی صاحب کی مبارَک لاش اور
کفن اِس طرح سلامت تھے کہ گویا ابھی ابھی انتقال ہوا ہو ، تدفین کے وقت سر پر رکھا
جانے والا سبز سبز عمامہ شریف آپ کے سرِمبارک پر اپنے جلوے لٹا رہا تھا ،عمامے شریف
کی سیدھی جانب کان کے نزدیک آپ کی زلفوں کا کچھ حصہ اپنی بہاریں دکھا رہا تھا، پیشانی
نُورانی تھی اور چہرہ مبارک بھی قبلہ رُخ تھا ، مفتیِ دعوتِ اسلامی کی قبر مبارک
سے خوشبوکی ایسی لَپٹیں آرہی تھیں کہ مشامِ جاں مُعَطَّر ہوگئے ۔