پچھلے دنوں صوبۂ پنجاب پاکستان کے شہر  فاروق آباد ضلع شیخوپورہ میں دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے رکن حاجی یعفور رضا عطاری نے زیرِ تعمیر جامعۃ المدینہ و مدرسۃ المدینہ بوائز کا وزٹ کیا۔

اس دوران رکنِ شوریٰ نے تعمیراتی کاموں کا جائزہ لیتے ہوئے وہاں موجود ذمہ دار اسلامی بھائیوں کی حوصلہ افزائی کی اور انہیں دعوتِ اسلامی کے دینی کاموں کو کرنے کے حوالے سے مدنی پھول دیئے جس پر ذمہ داران نے اچھی اچھی نیتوں کا اظہار کیا۔(رپورٹ:محمد ابوبکر عطاری معاون رکن شوری حاجی یعفور رضا عطاری، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


27جون 2022ء کو  دعوت اسلامی کے تحت اسلامی بہنوں کے مدنی مرکز فیضان صحابیا ت کراچی میں مدنی مشورہ کا انعقاد ہوا جس میں اراکین عالمی مجلس اور مجلس بین الاقوامی امور کی اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔

بیرون شہر یعنی اسلام آباد ،گجرات،پنڈی،واہ کینٹ اور بیرون ملک سے ہند ،بنگلہ دیش ،یوکے،یورپ،آسٹریلیا،ساؤتھ افریقہ،امریکہ اور کوریا کی اسلامی بہنوں نے بذریعہ انٹر نیٹ شرکت کی۔

مدنی مشورے میں نگران عالمی مجلس مشاورت اسلامی بہن نے امیر اہل سنت دامت برکاتھم العالیہ کے مسلمانوں کے لئے جذبہ ایثار اور ہمدردی کے بارے میں بتاتے ہوئے نگران اسلامی بہن نے تمام اراکین کو اپنے اندر مسلمانوں کی خیر خواہی کا جذبہ رکھنے پرتربیت کی۔

٭دوسری جانب نگران عالمی مجلس مشاورت اسلامی بہن نے اس مشورے میں ماہانہ کارکردگی کا فالواپ کیا اور جن ممالک میں دعوت اسلامی کا دینی کام جاری ہے ان ممالک کے نام بتائے۔ان میں سے بعض یہ ہیں:(عرب شریف،بحرین ،کویت،قطر،عمان،اُردن،آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، چائنہ، ہانگ کانگ،ساؤتھ کوریا،جاپان،تھائی لینڈ، ہند،نیپال،ملائیشیا،انڈونیشیا،برونائی،سری لنکا،سنگاپور،تنزانیہ،کینیا، یوگنڈا ملاوی۔ موریشس، موزمبیق، بوٹسوانا، زمباوے،زمبیا،مصر،سوڈان،یوکے،ترکی،کرغستان،بنگلہ دیش،ساؤتھ افریقہ، لیسوتھو، ایران، نائجیریا، اٹلی، اسپین، جرمنی، ناروے، فرانس، سوئیڈن، آسٹریا، ہالینڈ، ڈنمارک، بیلجیم، پرتگال، امریکہ، کینیڈا، سرنیم، چلی اور یوروگوئے)۔ اس کے علاوی دنیا کے دیگر ممالک میں بھی دینی کام بڑھانے کی کوشش جاری ہے۔


دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے رکن حاجی  یعفور رضا عطاری نے پچھلے دنوں نگرانِ تحصیل صفدرہ آباد مشاورت محمد مشتاق عطاری کی والدہ کے انتقال پر اُن سے تعزیت کی۔

دورانِ تعزیت رکنِ شوریٰ نے نگرانِ تحصیل محمد مشتاق عطاری کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے اپنی والدہ کے لئے زیادہ سے زیادہ ایصالِ ثواب کرنے کا ذہن دیا نیز مرحومہ کی نمازِ جنازہ رکنِ شوریٰ حاجی یعفور رضا عطاری نے اُن کے آبائی شہر فاروق آباد میں پڑھائی اور مرحومہ کے لئے دعائے مغفرت کی۔(رپورٹ:محمد ابوبکر عطاری معاون رکن شوری حاجی یعفور رضا عطاری، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


دعوتِ  اسلامی کے زیر اہتمام فیضان ِ صحابیات پی آئی بی میں ڈسٹرکٹ تا عالمی سطح کا تین دن کا رہائشی سنتوں بھرا اجتماع منعقد ہواجس میں اراکین عالمی مجلس مشاورت اور جامعۃ المدینہ گرلز کی ملک بھر کی 5 بڑی سطحوں کی ذمہ داراسلامی بہنوں نے شرکت کی ۔

27جون 2022ء کو صاحبزادیِ عطار سلمھالغفار نے اسلامی بہنوں کو دعوتِ اسلامی کا دینی کام کرنے کی ترغیب دلائی جبکہ نگران عالمی مجلس مشاورت اسلامی بہن نے چند اُمور پر رہنمائی کی۔اس کے بعد شعبہ تعلیم و شعبہ رابطہ ذمہ دار عالمی سطح ذمہ دار اسلامی بہن نے مذکورہ شعبہ جات کے دینی کام پر بریفنگ دیتے ہوئے ان شعبہ جات کا کام بڑھانے کا ذہن دیا۔ اس کے بعد صاحبزایِ عطار نے دُعا کروائی ۔آخر میں اجتماع میں شریک اسلامی بہنوں سے ملاقات کرتے ہوئے انفرادی کوشش کی اور انہیں تحائف پیش کئے ۔


عاشقانِ رسول کے بچوں کو اسلامی تعلیمات سے آگاہ کرنے اور انہیں تجوید کے ساتھ قراٰنِ پاک سکھانے کے لئے دعوتِ اسلامی کے زیرِ اہتمام پاکستان کے شہر شیخوپورہ میں مدرسۃ المدینہ بوائز کا افتتاح کیا گیا۔

تفصیلات کے مطابق اس افتتاحی تقریب میں مرکزی مجلسِ شوریٰ کے رکن حاجی یعفور رضا عطاری نے ”زندگی گزارنے کا انداز کیسا ہو؟“ کے موضوع پر سنتوں بھرا بیان کیا اور عاشقانِ رسول کو اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کا ذہن دیا۔

اس کے علاوہ رکنِ شوریٰ نے مقامی عاشقانِ رسول کے بچوں کو قراٰنِ پاک کی تعلیم حاصل کروانے کے لئے مدرسۃ المدینہ بوائز میں داخلہ دلوانے کی ترغیب دلائی جس پر انہوں نے اچھی اچھی نیتوں کا اظہار کیا۔(رپورٹ:محمد ابوبکر عطاری معاون رکن شوری حاجی یعفور رضا عطاری، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


ساری کائنات میں افضل ترین مقام مکّہ معظمہ اور مدینہ منورہ ہیں۔ یہ وہ حَسِین مراکز ہیں جن کی طرف ہمیشہ سے عِشق و مَستی کے قافلے رَواں دَواں رہے ہیں۔ یہ ایسے مبارَک مقام ہیں جن کو اللہ پاک نے سعادتوں اور برکتوں کا گہوارہ بنایا ہے۔ قرآنِ پاک میں بہت سی آیات میں ذکرِ مکّہ مکرمہ اور مَدینہ منورہ موجود ہے،ان میں سے چند یہاں نقل کی جاتی ہیں۔

قرآنِ کریم میں ذکرِ مکّہ مكرمہ:

1- سورۂ ال عمران آیت 96: ترجمۂ کنز الایمان:بے شک سب میں پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کو مقرر ہوا وہ ہے جو مکّہ میں ہے برکت والا اور سارے جہان کا رہنما۔

تفسیر صِراط الجنان : یہودیوں نے کہا تھا کہ ہمارا قِبلہ یعنی بیت المقدس ،کعبہ سے افضل ہے کیوں کہ یہ گزشتہ انبیا علیھم السلام کا قِبلہ رہا ہے، نیز یہ خانہ کعبہ سے پرانا ہے۔ ان کے رد میں یہ آیتِ کریمہ اتری۔ (تفسیرخازن، ال عمران، تحت الآیۃ : 96، 274/1)

2- سورۃ النمل آیت 91: ترجمۂ کنزالایمان: مجھے تو یہی حکم ہوا ہے کہ پوجوں اس شہر کے رب کو جس نے اسے حرمت والا کیا ہے اور سب کچھ اسی کا ہے۔

تفسیر صِراط الجنان: قیامت کے ابتدائی واقعات اور قیامت قائم ہونے کے بعد کے چند احوال بیان کرنے کے بعد اللہ پاک نے اپنے حبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے فرمایا:آپ فرما دیجیے : مجھے تو یہی حکم ہوا ہے کہ میں اس شہرِ مکّہ کے رب کی عبادت کروں اور اپنی عبادت اس رب کے ساتھ خاص کروں جس نے اسے حرمت والا بنایا ہے کہ وہاں نہ کسی انسان کا خون بہایا جائے، نہ کوئی شکار مارا جائے اور نہ وہاں کی گھاس کاٹی جائے اور ہر شے حقیقی طور پر اسی کی ملکیت ہے اور اس ملکیت میں اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے یہ حکم ہوا ہے کہ فرمانبرداروں میں سے رہوں۔ آیت میں مکّہ مكرمہ کا ذکر اس لیے ہوا ہے کہ وہ نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا وطن اور وحی نازل ہونے کی جگہ ہے۔ (تفسیرخازن، النمل، تحت الآیۃ: 91، 422/3)

3- سورہ التین آیت 3: ترجمۂ کنزالایمان :اور اس اَمان والے شہر کی۔

تفسیر صِراط الجنان: یعنی اور اس اَمن والے شہر مکّہ مکرمہ کی قسم ! امام عبد اللہ بن اَحمد نسفی رحمۃ اللہ علیہفرماتے ہیں:انجیر، زیتون، طور سینا اور مکّہ مکرمہ کی قسم ذِکر فرمانے سے ان بابرکت مقامات کی عظمت و شرافت ظاہر ہوئی اور انبیا علیہم الصلواة والسلام اور اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کے ان مقامات پر رہنے کی وجہ سے ظاہر ہونے والی خیر و برکت واضع ہوئی، چنانچہ جس جگہ انجیر اور زیتون اگتا ہے وہ حضرت ابرہیم علیہ السلام کی ہجرت گاہ ہے اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کی ولادت اور پرورش بھی اسی جگہ ہوئی۔ طور وہ جگہ ہے جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ندا دی گئی اور مکّہ مکرمہ میں تاجدارِ رِسالت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی وِلادت ہوئی، اسی شہر میں آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اپنی نبوت و رِسالت کا اعلان فرمایا اور اسی شہر میں خانہ کعبہ ہے( جس کی طرف منہ کر کے پوری دنیا کے مسلمان نماز پڑھتے ہیں)۔ ( مدارک، التین، تحت الآیۃ: 3، ص1360)

قرآنِ پاک میں ذکرِ مدینہ منورہ:

1- سورۃالاحزاب آیت 13:ترجمہ ٔکنزالایمان:اور جب ان میں سے ایک گروہ نے کہا :اے مدینہ والو!

تفسیر صِراط الجنان: اس آیت میں یثرب کا لفظ ذکر ہوا، اس کے بارے میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہفرماتے ہیں:قرآنِ عظیم میں لفظ یثرب آیا وہ رب العزت جَل وَ عَلَا نے منافقین کا قول ذکر فرمایا ہے۔ یثرب کا لفظ فساد و ملامت سے خبر دیتا وہ ناپاک اسی طرف اشارہ کر کے یثرب کہتے، اللہ پاک نے ان پر رد کے لیے مدینہ طیبہ کا نام طابہ رکھا،حضورِ اَقدس،سَرورِ عالَم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں: وہ اسے یثرب کہتے ہیں اور وہ تو مدینہ ہے۔ (بخاری، کتاب فضائل المدینہ باب فضل المدینہ . . . . . . . . الخ، 617/1، الحدیث: 1871، مسلم، کتاب الحج، باب المدینہ تنفی شرارھا، ص717، الحدیث: 488(1382))اور فرماتے ہیں: بے شک اللہ پاک نے مدینہ کا نام طابہ رکھا۔

2- سورۃ التوبہ آیت 101: ترجمۂ کنزالایمان: اور تمہارے آس پاس کے کچھ گنوار منافق ہیں اور کچھ مدینہ والے۔

تفسیر صِراط الجنان: اس سے پہلی آیات میں اللہ پاک نے مدینے کے منافقین کے حالات بیان فرمائے، اس کے بعد دیہاتیوں میں جو منافقین تھے ان کا حال بیان فرمایا، پھر بیان فرمایا : اکابر مؤمنین وہ ہیں جو مہاجرین اور انصار میں سب سے پہلے ایمان قبول کرنے والے ہیں اور اس آیت میں بیان فرمایا:مدینہ منورہ کی آس پاس کی بستیوں میں بھی منافقین کی ایک جماعت ہے اگرچہ تم ان کے نفاق کو نہیں جانتے۔(تفسیر کبیر، التوبہ تحت الآیۃ: 101، 103/6) تفسیر صراط الجنان . . . . . . . . . . . مکتبۃ المدینہ کراچی

یااللہ پاک!ہمیں مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ کی عِشق و مستی سے لبریز باادب حاضریاں نصیب فرما۔ آمین بجاہِ خاتم النبیین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم۔


ان مقدس شہروں کی  فضیلتوں کی تو کیا بات ہےکہ خالقِ کائنات نے مختلف آیات میں اس کو موضوعِ سخن بنایا اور نئے نئے القابات دے کر ان سر زمینوں کو یاد فرمایا ۔ان سر زمینوں کی فضیلت کا اندازہ یہاں سے لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ پاک سورۃ البلد کی آیت نمبر 1 میں ان مقدس شہروں کی قسم کھاتے ہوئے فرماتا ہے:ترجمۂ کنز العرفان: مجھے اس شہر کی قسم!۔

اس کی تفسیر میں لکھا ہے:یہاں مکہ مکرمہ کی فضیلت کی وجہ سے اس کی قسم کھائی ہے۔ایک اور مقام پر ہے: بعض مفسرین سے روایت ہے:یہاں مدینہ منورہ مراد ہے۔(فضائلِ مدینہ منورہ،ص 7)

حرمت والا :ترجمۂ کنز العرفان:مجھے تو یہی حکم ہوا ہے کہ میں اس شہر مکہ کے رب کی عبادت کروں جس نے اسے حرمت والا بنایا ۔(النمل:90)

امان والا بنایا:ترجمۂ کنز العرفان:اور یاد کرو جب ہم نے اس گھر کو لوگوں کے لیے مرجع اور امان بنایا ۔

یہاں بیت سے مراد کعبہ شریف اور اس میں تمام حرم بھی شامل ہے۔(البقرۃ : 125)

طابہ:ترجمۂ کنز العرفان:اےمد ینہ والو!

اس کی تفسیر میں ہے:اللہ پاک نے مدینہ منورہ کا نام لوحِ محفوظ پر طابہ رکھا ہے۔(الاحزاب:13)

عبادت کی سب سے پہلا گھر:اس شہر مکہ کی فضیلت یہ بھی ہے کہ روئے زمین پر موجود عبادت کا پہلا گھر اسی سر زمین میں ہے۔

ترجمۂ کنز العرفان:بے شک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کے لیے بنایا گیا وہ ہے جو مکہ میں ہے برکت والا،امن والا۔(ال عمرن:96)اللہ پاک ہمیں ان مبارک سر زمینوں کی بار بار حاضری عطا فرمائے ۔


امت کے تمام علماکا اس پر اتفاق ہے کہ زمین بھر کے سب شہروں میں سب سے زیادہ فضیلت اور بزرگی رکھنے والے دو شہر مکہ معظمہ و مدینہ منورہ ہیں، مکہ مکرمہ کی فضیلت اس سے بڑی اور کیا ہوگی کہ حضور علیہ الصلوة والسلام نے اس سے اپنی محبت کا اظہار فرمایا جبکہ آپ علیہ الصلوة والسلام نے کفارِ قریش کے ظلم و ستم کی وجہ سے اپنے رب کریم کے حکم سے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت فرمائی توفرمایا:اے مکہ! تو کتنا پیارا شہر ہے ، تو مجھے کس قدر محبوب ہے ، اگر میری قوم مجھے تجھ سے نہ نکالتی تو میں تیرے سوا کسی دوسرے مقام پر سکونت اختیار نہ کرتا۔‘‘ (سنن ترمذی 3861)اور مدینہ طیبہ کی تو کیا ہی بات ہے خود نبی کریم علیہ الصلوة والسلام نے جس سے محبت میں اضافہ کے لئے دعا فرمائی:اللهمَّ حَبِّبْ إلينَا المدينةَ كحُبِّنَا مكةَ أو أَشَدَّترجمہ:اےاللہ پاک!مدینے کو ہمارے لئے مکہ کی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ محبوب بنادے۔ (صحيح البخاری:1889)

پیاری بہنو !آئیے !قرآن ِحکیم جو میرے رب کا کلام ہے اس نے پیارے پیارے کعبہ اور میٹھے میٹھےمدینہ کے جو فضائل اپنی آغوش میں سمیٹیں ہوئے ہیں اسے ملاحظہ کرتی ہیں:

فضائلَ مکہ بزبانِ قرآن

اِنَّ  اَوَّلَ  بَیْتٍ  وُّضِعَ  لِلنَّاسِ   لَلَّذِیْ  بِبَكَّةَ  مُبٰرَكًا  وَّ  هُدًى  لِّلْعٰلَمِیْنَ(96)ترجمۂ کنز العرفان:بیشک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کے لئے بنایا گیا وہ ہے جو مکہ میں ہے برکت والا ہے اور سارے جہان والوں کے لئے ہدایت ہے۔(البقرۃ:97)ترجمۂ کنزالعرفان:اور جو اس میں آئے امان میں ہو۔وَ  مَنْ  دَخَلَهٗ  كَانَ  اٰمِنًا ؕاسی مکہ مکرمہ میں ہی مقامِ ابراہیم ہے جس کے بارے میں قرآنِ کریم فرماتا ہے: وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى(سورہ بقرہ 125)اور تم ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کا مقام بناؤ۔ مقامِ ابراہیم وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم علیہ الصلوة والسلام  نے کعبہ معظمہ کی تعمیر فرمائی۔

خوبصورت نکتہ:اس سے معلوم ہوا!جس پتھر سے پیغمبر کے قدم چھو جائیں وہ مُتَبَرَّک اور شَعَآىٕرُ اللہ اور آیۃُ اللہ یعنی اللہ کریم کی نشانی بن جاتا ہے۔اللہ پاک فرماتا ہے:اِنَّ الصَّفَا وَ الْمَرْوَةَ مِنْ شَعَآىٕرِ اللّٰهِ(بقرہ:158)ترجمۂ کنزُالعِرفان:بیشک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ظاہر ہے کہ یہ دونوں پہاڑ حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا کے قدم پڑ جانے سےشَعَائِرُ اللہبن گئے۔

مکہ کی انفرادی خصوصیت بزبانِ قرآن:

اللہ پاک کا اپنی ذات و صفات کے علاوہ کسی اور چیز کی قسم یاد فرمانااس چیز کا شرف اور فضیلت ظاہر کرنے کے لئے اور دیگر اَشیاکے مقابلے میں اس چیز کو ممتاز کرنے کے لئے ہے جو لوگوں کے درمیان موجود ہے تاکہ لوگ جان سکیں کہ یہ چیز انتہائی عظمت و شرافت والی ہے۔(مدارج النبوہ، باب سوم دربیان فضل وشرافت، 1 / 65)

لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِ(1)مجھے اِس شہر(مکہ)کی قسم۔یہاں اللہ پاک نے مکہ مکرمہ کی فضیلت کی وجہ سے اس کی قَسم ارشاد فرمائی اور وجہ کیا بتائی وَ اَنْتَ حِلٌّۢ بِهٰذَا الْبَلَدِ(2)جبکہ تم اس شہر میں تشریف فرما ہو۔

یاد فرما کر قَسَم حق نے زمینِ پاک کی خاکِ نعلِ مصطفیٰ کو تاجِ شاہاں کردیا

فضائلِ مدینہ منورہ:

جب ہجرت مدینہ ہوئی تو اللہ پاک نے یہ آیتِ مبارکہ ہجرت کرنے والوں کے فضائل میں نازل فرمائی :وَ الَّذِیْنَ هَاجَرُوْا فِی اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً ؕ وَ لَاَجْرُ الْاٰخِرَةِ اَكْبَرُ ۘلَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ (41)ترجمۂ کنزالعرفان: اور جنہوں نے اللہ کی راہ میں اپنے گھر بار چھوڑے مظلوم ہوکر ضرور ہم انہیں دنیا میں اچھی جگہ دیں گے اور بیشک آخرت کا ثواب بہت بڑا ہے کسی طرح لوگ جانتے۔لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً : ہم ضرور انہیں دنیا میں اچھی جگہ دیں گے اچھی جگہ سے مراد مدینہ طیبہ ہے جسے اللہ پاک نے ان کے لئے ہجرت کی جگہ بنایا۔اس آیت سے مدینہ منورہ کی فضیلت بھی معلوم ہوئی کہ یہاں اسے حَسَنَۃً فرمایا گیاہے۔یہاں یہ بات بھی یاد رکھنا چاہئے کہ مدینہ کا اگرچہ پرانا نام یثرب تھا لیکن جب حضور علیہ الصلوة والسلام یہاں تشریف فرما ہوئے تو پھر اس کا نام مدینہ ہوگیا لہٰذا اب اسے یثرب نہیں کہا جائے گا ۔

مدینہ منورہ کو یثرب کہنے کا شرعی حکم:

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہفرماتے ہیں :مدینہ طیبہ کو یثرب کہنا ناجائز وممنوع وگناہ ہے اور کہنے والا گنہگار۔ رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:’’مَنْ سَمَّی الْمَدِیْنَۃَ یَثْرِبَ فَلْیَسْتَغْفِرِاللہ ھِیَ طَابَۃُ ھِیَ طَابَۃُ ‘‘ جو مدینہ کو یثرب کہے اس پر توبہ واجب ہے۔مدینہ طابہ ہے۔مدینہ طابہ ہے۔( مسند امام احمد، مسند الکوفیین، حدیث البراء بن عازب ، 4 / 409، الحدیث: 18544)

مدینہ مجرموں کی جائے پناہ:

مدینہ طیبہ ہی وہ جگہ ہے جہاں مجرموں کو پناہ اور گناہگاروں کو مغفرت کے پروانے ملتے ہیں جو ہر عاصی کی امید گاہ ہے ۔یہ وہ جگہ ہے جہاں شفیعِ امم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم تشریف فرما ہیں ۔

مدینہ اس لئے عطار جان و دل سے ہے پیارا کہ رہتے ہیں میرے آقا میرے دلبر مدینے میں

اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا اگر وہ جو اپنی جانوں پر ظلم کریں تیرے پاس حاضر ہو کر خدا سے بخشش چاہیں اور رسول ان کی مغفرت مانگے تو ضرور خدا کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔

اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کربیٹھے تھےا اس حصے میں اگرچہ ایک خاص واقعے کے اعتبار سے کلام فرمایا گیا، البتہ اس میں موجود حکم عام ہے اورقیامت تک آنے والے مسلمانوں کو سَرورِ دوجہاں صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم  کی بارگاہ میں حاضر ہوکر شفاعت طلب کرنے کا طریقہ بتا یا گیا ہے۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہفرماتے ہیں:’’بندوں کو حکم ہے کہ ان(یعنی نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم) کی بارگاہ میں حاضر ہو کر توبہ و استغفار کریں۔اللہ پاک تو ہر جگہ سنتا ہے، اس کا علم ،اس کا سَمع(یعنی سننا)، اس کا شُہود(یعنی دیکھنا)سب جگہ ایک سا ہے، مگر حکم یہی فرمایا کہ میری طرف توبہ چاہو تو میرے محبوب کے حضور حاضر ہو۔قبرِ انور پر حاجت کے لئے حاضر ہونا بھی’’جَآءُوْكَ‘‘ میں داخل اور خَیرُ القُرون کا معمول ہے۔معلوم ہوا!یہ اعزاز مدینہ طیبہ کو حاصل ہے۔

مجرم بلائے آئے ہیں جَآءُوْكَ ہے گواہ پھر رد ہو کب یہ شان کریموں کے در کی ہے۔حدائق بخشش

حضرت عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما سے روایت ہے،حضورِ اَقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’جس شخص کو مدینہ منورہ میں موت آ سکے تو اسے یہاں  ہی مرنا چاہئے،کیونکہ میں  یہاں  مرنے والوں  کی(خاص طور پر)شفاعت کروں گا۔( ترمذی، کتاب المناقب، باب فی فضل المدینۃ، 5/483، الحدیث: 3943)اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کیا خوب فرماتے ہیں :

طیبہ میں مر کے ٹھنڈے چلے جاؤ آنکھیں بند سیدھی سڑک یہ شہرِ شفاعت نگر کی ہے

(ماخذ و مراجع:جذب القلوب الی دیار المحبوب، ترمذی،بخاری شریف ،تفسیر صراط الجنان ملخصا)


اللہ کریم نے بعض رسولوں کو بعض پر فضیلت عطا فرمائی اور سب پر پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فضیلت عطا فرمائی اسی طرح دنوں میں سے جمعۃ المبارک کو،مہینوں میں سے ماہ رمضان المبارک کو ،راتوں میں سے لیلۃ القدر کو اور شہروں میں سے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کو فضیلت عطا فرمائی ۔ مکہ مکرمہ میں کعبہ اللہ، حجر ِاسود جنتی پتھر ،میدانِ عرفات ،مسجد ِنمرہ، جنت المعلی قبرستان ہے۔اور سب سے بڑھ کر اسی شہر میں ہی آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ولادتِ باسعادت ہوئی ۔یہاں ہر دم رحمتوں کی چھم چھم بارش برستی ہے۔ لطف کرم کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوتا اور مانگنے والا کبھی محروم نہیں لوٹتا ۔اسی طرح مدینہ منورہ کے بارے میں ہے: جب کوئی مسلمان زیارت کرنے کی نیت سے مدینہ منورہ آتا ہے تو فرشتے رحمت کے تحفوں سے اس کا استقبال کرتے ہیں۔ (جذب القلوب، ص211) مسجد نبوی میں ایک نماز پڑھنا پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے۔(ابن ماجہ ،2\176،حدیث :1413) ۔ مدینہ میں جینا حصولِ برکت اور مرنا شفاعت پانے کا ذریعہ ہے چنانچہ رحمتِ عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ارشاد ہے : جو مدینے میں مر سکے وہ وہیں مرے کیونکہ میں مدینے میں مرنے والوں کی شفاعت کروں گا۔

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کیا خوب فرماتے ہیں :

طیبہ میں مر کے ٹھنڈے چلے جاؤ آنکھیں بند سیدھی سڑک یہ شہرِ شفاعت نگر کی ہے

شہر مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ بڑی ہی فضیلت والے شہر ہیں چنانچہ قرآنِ پاک میں اللہ کریم شہر مکہ کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے: لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(1)وَ اَنْتَ حِلٌّۢ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(2)ترجمۂ کنزالایمان:مجھے اس شہر کی قسم کہ اے محبوب! تم اس شہر میں تشریف فرما ہو۔

تفسیر صراط الجنان:لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِ:مجھے اِس شہر کی قسماس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں  ارشاد فرمایا: اے پیارے حبیب! مجھے اِس شہر مکہ کی قسم! جبکہ تم اس شہر میں  تشریف فرما ہو۔ یہاں اللہ پاک نے مکہ مکرمہ کی فضیلت کی وجہ سے اس کی قَسم ارشاد فرمائی اور مکہ مکرمہ کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ اللہ پاک نے اسے حرم اور امن والی جگہ بنایا اور اس میں موجود مسجد کے بارے میں فرمایا: ’’اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّ هُدًى لِّلْعٰلَمِیْنَۚ(96) فِیْهِ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبْرٰهِیْمَ وَ مَنْ دَخَلَهٗ كَانَ اٰمِنًا‘‘(ال عمران:96،97)ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کے لئے بنایا گیا وہ ہے جو مکہ میں ہے برکت والا ہے اور سارے جہان والوں کے لئے ہدایت ہے۔ اس میں کھلی نشانیاں ہیں ، ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے اور جو اس میں داخل ہوا امن والا ہوگیا۔

اس مسجد کو پوری دنیا کے مسلمانوں  کے لئے قبلہ بنا تے ہوئے ارشاد فرمایا:’’وَ حَیْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ شَطْرَهٗ‘‘( بقرہ:144)ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اے مسلمانو!تم جہاں کہیں ہو اپنا منہ اسی کی طرف کرلو۔اور اس میں موجود مقامِ ابراہیم کے بارے میں مسلمانوں  کو حکم دیا:’’وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى‘‘(بقرہ:125) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور(اے مسلمانو!)تم ابراہیم کےکھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کا مقام بناؤ۔اور لوگوں کو خانہ کعبہ کا حج کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:’’وَ  لِلّٰهِ  عَلَى  النَّاسِ   حِجُّ  الْبَیْتِ  مَنِ  اسْتَطَاعَ  اِلَیْهِ  سَبِیْلًا‘‘(ال عمران:97) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اللہ کے لئے لوگوں پر اس گھر کاحج کرنا فرض ہے جو اس تک پہنچنے کی طاقت رکھتا ہے اور خانہ کعبہ کے بارے میں ارشاد فرمایا:’’وَ اِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَ اَمْنًا‘‘(بقرہ:125)ترجمۂ کنزُ العِرفان: اور(یاد کرو)جب ہم نے اس گھر کو لوگوں کے لئے مرجع اور امان بنایا۔ اورسورۂ بلد کی دوسری آیت میں گویا ارشاد فرمایا: اے پیارے حبیب! مکہ مکرمہ کو یہ عظمت آپ کے وہاں تشریف فرما ہونے کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے۔(تفسیرکبیر، البلد، تحت الآیۃ:2، 11/ 164)

حضرت علامہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’علما فرماتے ہیں:اللہ پاک نے اپنی کتاب میں نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے علاوہ اور کسی نبی کی رسالت کی قَسم یاد نہ فرمائی اور سورۂ مبارکہ ’’لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(1)وَ اَنْتَ حِلٌّۢ بِهٰذَا الْبَلَدِ‘‘اس میں رسولِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی انتہائی تعظیم و تکریم کا بیان ہے کیونکہ اللہ پاک نے قسم کو اس شہر سے جس کا نام ’’بلد ِحرام‘‘ اور ’’بلد ِامین‘‘ ہے ،مُقَیَّد فرمایا ہے اور جب سے حضورِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اس مبارک شہر میں  نزولِ اِجلال فرمایا تب سے اللہ پاک کے نزدیک وہ شہر معزز و مکرم ہو گیا اور اسی مقام سے یہ مثال مشہور ہوئی کہ ’’شَرَفُ الْمَکَانِ بِالْمَکِیْنِ‘‘یعنی مکان کی بزرگی اس میں رہنے والے سے ہے۔مزید فرماتے ہیں: اللہ پاک کا اپنی ذات و صفات کے علاوہ کسی اور چیز کی قسم یاد فرمانااس چیز کا شرف اور فضیلت ظاہر کرنے کے لئے اور دیگر اَشیاء کے مقابلے میں اس چیز کو ممتاز کرنے کے لئے ہے جو لوگوں کے درمیان موجود ہے تاکہ لوگ جان سکیں کہ یہ چیز انتہائی عظمت و شرافت والی ہے۔(مدارج النبوہ، باب سوم دربیان فضل وشرافت،1 /65 )

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کیا خوب فرماتے ہیں :

وہ خدانے ہے مرتبہ تجھ کو دیا نہ کسی کو ملے نہ کسی کو ملا           کہ کلامِ مجید نے کھائی شہا تِرے شہر و کلام و بقا کی قسم

اللہ کریم سے دعا ہے کہ تمام عاشقانِ رسول کو ہر سال ان شہروں کی باادب حاضری نصیب فرمائےاور ہمیں ان کی خوب خوب برکات سمیٹنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


قرآنِ کریم اور ذکر مکہ و مدینہ:

قرآنِ کریم اللہ کریم کی وہ آ خری کتاب ہے جو اللہ کریم نے اپنے آ خری نبی حضرت محمد صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم پر نازل فرمائی۔اس کتاب قرآنِ مجید میں بے شمار چیزوں کا ذکر موجود ہے۔خصوصیت کے ساتھ کئی مقامات پر شہر مکہ و مدینہ کا بھی ذکر فرمایا گیا جس سے ان شہروں کی عظمت میں اضافہ ہوا۔ہر سورت کی تلاوت کے وقت بھی ان دو شہروں کی یاد تازہ ہوتی ہے کہ اللہ پاک نے صرف ان دو شہروں کو نزول ِقرآن کے لئے چنا۔مکہ مکرمہ میں نازل ہونے والی سورت کو مکی سورت کہا جاتا ہے جبکہ مدینہ منورہ میں نازل ہونے والی سورت کو مدنی سورت کہا جاتا ہے۔

وہاں پیارا کعبہ یہاں سبز گنبد وہ مکہ بھی میٹھا تو پیارا مدینہ

( وسائل بخشش 327)

ذکرِ مکہ مکرمہ:

اللہ پاک نے قرآنِ کریم میں شہرِ مکہ کا ذکر کچھ اس طرح فرمایا:لا اقسم بھذا البلد وانت حل بھذا البلد ترجمہ:مجھے اس شہر کی قسم جبکہ تم اس شہر میں تشریف فرما ہو۔(پارہ 30 سورہ بلد آ یت 1/2)

(لا اقسم بھذا البلد) اس آیت اور اس کے بعد والی آ یت میں ارشاد فرمایا: اے پیارے حبیب! مجھے اس شہر مکہ کی قسم جبکہ تم اس میں تشریف فرما ہو۔یہاں اللہ پاک نے مکہ مکرمہ کی فضیلت کی وجہ سے اس کی قسم ارشاد فرمائی۔ (تفسیر صراط الجنان جلد 10 صفحہ 678)اور سورهٔ بلد کی دوسری آ یت میں گویا ارشاد فرمایا:اے پیارے حبیب! مکہ مکرمہ کو یہ عظمت آ پ کے وہاں تشریف فرما ہونے کی وجہ سے حاصل ہوئی۔(صراط الجنان جلد 10 صفحہ:679)

مکہ مکرمہ کی ایک فضیلت یہ ہےکہ اسے حرم اور امن والی جگہ بنایا اور اس میں موجود مسجد کے بارے میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:ان اول بیت وضع للناس للذی ببکة مبارکا و ھدی للعلمین فیہ ایت بینت مقام ابراھیم و من دخله كان امنا ترجمۂ کنز العرفان:بے شک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کے لئے بنایا گیا وہ ہے جو مکہ میں ہے برکت والا ہے اور سارے جہاں والوں کے لئے ہدایت ہے ۔اس میں کھلی نشانیاں ہیں ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے اور جو اس میں داخل ہوا امن والا ہوگیا۔(سورہ ال عمران آ یت 96/97)

شان نزول:

یہودیوں کے رد میں آ یتِ کریمہ 96 نازل ہوئی کہ ان لوگوں نے کہا تھا :بیت المقدس کعبے سے افضل ہے ۔ (صراط الجنان پارہ 4/ خازن ال عمران تحت الایہ 96،1/274)انہیں بتادیا گیا کہ روئے زمین پر عبادت کے لئے سب سے پہلے جو گھر تیار ہوا وہ خانہ کعبہ ہے۔

ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا حرم کی ہے بارش اللہ کے کرم کی ہے(وسائل بخشش ص 124)

ذکرِ مدینہ منورہ:

قرآنِ پاک میں کئی مقامات پر ذکرِ مدینہ بھی گزرا ہے۔چنانچہ اللہ پاک قرآنِ پاک سورة المنافقون آ یت نمبر 8 میں ارشاد فرماتا ہے:یقولون لئن رجعنا الی المدینة لیخرجن العز منھا الاذل وللہ العزة ولرسوله وللمؤمنين ولكن المنفقين لا يعلمون0ترجمۂ كنز العرفان:کہتے ہیں:قسم ہے کہ اگر ہم مدینہ لوٹ کر گئے تو ضرور جو بڑی عزت والا ہے وہ اس میں سے نہایت ذلت والے کو نکال دے گا حالانکہ عزت تو اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں ہی کے لئے ہے مگر منافقوں کو معلوم نہیں۔(ترجمۂ کنز العرفان صراط الجنان صفحہ 168)ایک اور مقام پر ارشادِ خداوندی ہے:والذین تبوؤ الدار والايمان من قبلھم یحبون من ھاجر الیھم ترجمۂ کنز العرفان:اور وہ جنہوں نے ان (مہاجرین )سے پہلے اس شہر کو اور ایمان کو ٹھکانہ بنالیا وہ اپنی طرف ہجرت کرنے والوں سے محبت کرتے ہیں۔مذکورہ آ یت میں بھی شہر سے مراد شہر مدینہ ہے۔(صراط الجنان جلد 10 صفحہ 74سورہ حشر ،آ یت: 9)

مدینہ اس لئے عطار جان و دل سے ہے پیارا کہ رہتے ہیں میرے آ قا میرے سرور مدینے میں

(وسائل بخشش)

حرفِ آ خر:

ہمیں بھی چاہیئے کہ ہم بھی خوب ذوق و شوق کے ساتھ ذکر مکہ و مدینہ کریں۔اپنے اور اپنے بچوں کے دلوں میں بھی ان کی عظمت کو پیدا کرنے کی کوشش کریں۔اس کا بہترین ذریعہ دعوتِ اسلامی کا دینی ماحول ہے جس نے بچے بچے کو ذکر مکہ و مدینہ کرنے کا انداز سکھادیا۔

مری آ نے والی نسلیں ترے عشق ہی میں مچلیں انہیں نیک تو بنانا مدنی مدینے والے

(وسائل بخشش)


وہاں پیارا کعبہ یہاں سبز گنبد                         یہ مکہ بھی میٹھا تو پیارا مدینہ

حرمین طیبین وہ بلند پایہ مقامات ہیں کہ جن کے فضائل کوصرف سن کر ہی مسلمانوں کے دل ان کی زیارت کو تڑپ اٹھتے ہیں۔

فضیلت کی وجہ:

حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے وہاں قیام فرمانے کی وجہ سے ان کویہ فضیلت ملی ۔جیسا کہ یہ مثال مشہور ہے : شرف المکان بالمکین یعنی مکان کی بزرگی اس میں رہنے والے سے ہے ۔

قرآنِ کریم میں ذکر ِمکہ:

قرآنِ کریم میں جس کثرت سے مکہ مکرمہ کا ذکر ہے کسی اور مقام کا ایسا تذکرہ نہیں اس سے اس کی فضیلت کا بھی اظہار ہوتا ہے ۔رب کریم کی مکہ کے بارے میں قسم کا ذکر موجود ہے۔فرمایا:لا اقسم بھذالبلد وانت حل بھذالبلد(البلد :1،2) ترجمۂ کنزالایمان: مجھے اس شہر کی قسم کہ اے محبوب ! تم اس شہر میں تشریف فرما ہو۔

اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مکہ کے لیے مانگی گئی دعا کا تذکرہ بھی قرآن میں موجود ہے۔ عرض کی : رب اجعل ھذابلدا امنا(البقرہ :126)ترجمۂ کنزالایمان :اے رب میرے اس شہر کو امان والا کر دے ۔

پھر ایک مقام پر اس دعا کی مقبولیت کا ذکر بھی کیا گیا ہے ،فرمایا:انا جعلنا حرما امنا(العنکبوت :67)ترجمۂ کنز العرفان : ہم نے حرمت والی زمین امن والی بنائی ۔

قرآنِ کریم میں ذکر مدینہ :

مدینہ منورہ کا ذکر قرآنِ کریم میں مختلف انداز میں کیا گیا،کہیں مدینہ منورہ میں ہونے والی جنگوں کا بیان ہے ، تو کہیں مدینہ منورہ کی پاکیزگی کو بیان کیا گیا ہے،ایک مقام پرفرمایا گیا : وَ لَوْ دُخِلَتْ عَلَیْهِمْ مِّنْ اَقْطَارِهَا ثُمَّ سُىٕلُوا الْفِتْنَةَ لَاٰتَوْهَا وَ مَا تَلَبَّثُوْا بِهَاۤ اِلَّا یَسِیْرًا (سورہ احزاب:14)ترجمۂ کنزالعرفان:اور اگر ان پر مدینہ کی(مختلف) طرفوں سے فوجیں آجاتیں پھر ان سے فتنے کا مطالبہ کیا جاتا تو ضرور ان کا مطالبہ دےدیتےاور اس میں دیر نہ کرتے۔

اس آیتِ مبارکہ میں غزوۂ احزاب(جو کہ مدینہ میں ہوا )کا واقعہ بیان کیا گیا جب منافقین نے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے گھر جانے کی اجازت مانگی اور کہا:ہمارے گھر غیر محفوظ ہیں تو اس موقع پر ان کے نفاق کو رب کریم نے ظاہر فرمایا کہ اگر مدینے کے اطراف سے ان پر حملہ ہو اور کہا جائے کہ تمہارے بچنے صرف یہی صورت ہے کہ تم اسلام سے منحرف ہو جاؤتو ضرور یہ ایمان سے پھر جائیں گے ۔ایک مقام پر مدینہ منورہ کے لیے لفظ یثرب بھی آیالیکن وہ اللہ کریم نے استعمال نہیں فرمایابلکہ منافقین کاقول نقل کیا ہے ،فرمایا :یااھل یثرب لا مقام لکم (الاحزاب :13) ترجمۂ کنزالایمان : اے مدینہ والو! (یہاں) تمہارے ٹھہرنے کی جگہ نہیں۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:یہاں اللہ کریم نے منافقین کاقول نقل فرمایا ہے۔ (تفسیر صراط الجنان ،جلد ہفتم ،ص :575)جبکہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم تو فرماتے ہیں:جو مدینہ کو یثرب کہے اس پر توبہ واجب ہے،مدینہ طابہ ہے،مدینہ طابہ ہے۔(مسند امام احمد،حدیث :18544 )اللہ کریم ہمیں ان مقامات کی زیارت نصیب فرمائے اور ان کا فیضان نصیب فرمائے۔امین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


اِس روئے زمین میں زمین کے کچھ طبقات ایسے ہیں، جن کو اللہ کریم نے برکتوں اور سعادتوں سے نوازہ ہے، جن کو اللہ کریم نے لوگوں کے لئے سعادتوں اور بخششوں کا گہوارہ بنایا ہے، اُن میں سے مکہ شریف اور مدینہ شریف ایسے مراکزہیں،جن کی طرف ہمیشہ سے عقیدتوں اور محبتوں کے کارواں چلتے ہیں،یہ دونوں مقامات برکتوں اور سعادتوں سےمالا مال ہیں، مسلمانوں کے اہم مراکز ہیں، مکہ شریف حج کے لئے جاتے ہیں اور مدینہ شریف عاشقوں کی جان ہے، آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، شہر مدینہ اور شہرِ مکہ بے پناہ فضائل سے مالا مال ہیں۔

فضائلِ مکہ مکرمہ:

1۔ اللہ کریم پارہ 4 سورۂ ال عمران آیت نمبر 96 میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ بِبَکَّۃَ مُبَارکَاً وَّھُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ۔ ترجمہ: بے شک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کے لئے بنایا گیا ہے، وہ مکہ میں ہے، برکت والا ہے اور سارے جہان والوں کے لئے ہدایت ہے۔

تفسیر: اللہ کریم نے اس کو پہلا گھر قرار دیا، روئے زمین پر عبادت کے لئے، جو پہلا گھر تیار ہوا وہ خانہ کعبہ ہے، اِسے ام القری کہا جاتا ہے۔

2۔ اللہ کریم سورۃ البلد پارہ 30 آیت نمبر 1 اور 2 میں ارشاد فرماتا ہے:لَآقْسِمُ بِھٰذَاالْبَلَدِْ وَاَنْتَ حِلٌّ بِھٰذَاالْبَلَدِ۔ترجمہ: مجھے اِس شہر کی قسم جبکہ تم اِس شہر میں تشریف فرما ہو۔

یہاں اِس شہر سے مراد مکہ مکرمہ ہے۔ان آیات میں ارشاد فرمایا :اے حبیب! مجھے اس شہر مکہ کی قسم! جبکہ تم اِس شہر میں تشریف فرما ہو،یہاں اللہ کریم نے مکہ مکرمہ کی فضیلت کی وجہ اس کی قسم ارشاد فرمائی اور مکہ مکرمہ کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ اللہ کریم نے اِسے امن والی جگہ بنایا اور دوسری آیت میں ارشاد فرمایا: پیارے حبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم مکہ مکرمہ کو یہ عظمت آپ کے وہاں تشریف فرما ہونے کی وجہ سے حاصل ہے۔

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

وہ خدا نے ہے مرتبہ تجھ کو دیا نہ کسی کو ملے نہ کسی کو ملا

کہ کلامِ مجید نے کھائی شہا ترے شہر و کلام وبقا کی قسم

اسی طرح قرآنِ پاک میں جگہ بہ جگہ مکہ مکرمہ کا ذکر ہے۔

3۔ سورۂ شوری آیت نمبر 7 پارہ 25 میں اللہ کریم فرماتا ہے:ترجمہ:اور یونہی ہم نے تمہاری طرف عربی قرآن کی وحی بھیجی تاکہ تم مرکزی شہر اور اس کے اردگرد رہنے والوں کو ڈر سناؤ اور تم جمع ہونے کے دن سے ڈراؤ، جس میں کوئی شک نہیں اور ایک گروہ جنت میں ہے اور ایک گروہ دوزخ ہے۔یہاں مرکزی شہر سے مراد مکہ مکرمہ ہے۔

4۔ اسی طرح اللہ کریم پارہ 20 سورۃ النمل آیت 91 میں ارشاد فرماتا ہے:ترجمہ: مجھے تو حکم ہوا ہے کہ میں اس شہر (مکہ) کے ربّ کی عبادت کروں، جس نے اِسے حرمت والا بنایا ہے اور ہر شے اِسی کی ملکیت ہے اور مجھے حکم ہوا ہے کہ فرمانبرداروں میں سے رہوں۔

5۔اللہ کریم سورۃ القصص کی آیت نمبر 59 پارہ 20 میں فرماتا ہے: ترجمہ:اور تمہارا ربّ شہروں کو ہلاک کرنے والا نہیں ہے، جب تک ان کے مرکزی شہر میں رسول نہ بھیجے، جو اِن پر ہماری آیتیں پڑھے اور ہم شہروں کو ہلاک کرنے والے نہیں ہیں، مگر (اسی وقت) جب ان کے رہنے والے ظالم ہوں۔

اِس آیت میں مرکزی شہر سے مراد مکہ مکرمہ ہے اور رسول سے مراد نبیِ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ہیں۔

فضائلِ مدینہ منورہ:

معطر معطر دیارِ مدینہ منور منور جوارِ مدینہ

دو عالم نہ کیوں ہو نثارِ مدینہ ہیں محبوبِ ربّ تاجدارِ مدینہ

شہرِ مدینہ ایمان کا سر چشمہ ہے، ایمان کے احکام کا مظہر ہے، یہ افضل مقام ہے، حضور پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو اِس شہر سے بے پناہ محبت ہے، اسلام کی قوت، دین کے رواج، خیر و برکت کا سر چشمہ مدینہ ہے۔

2۔ اللہ کریم سورۃ الاحزاب آیت 60 میں ارشاد فرماتا ہے:ترجمہ: منافق اور وہ کہ جن کے دلوں میں مرض ہے اور وہ لوگ جو مدینے میں جھوٹی خبریں پھیلانے والے ہیں،اگر باز نہ آئے تو ضرور ہم تمہیں ان کے خلاف اُکسائیں گے، پھر وہ مدینے تمہارے پاس نہ رہیں گے، مگر تھوڑے دن۔

2۔ پارہ نمبر 21 آیت 13 سورۃ الاحزاب میں اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے:ترجمہ:اور جب اِن میں سے ایک گروہ نے کہا:اے مدینے والو! یہاں تمہارے ٹھہرنے کی جگہ نہیں تو تم واپس چلو اور ان میں سے ایک گروہ نبی سے یہ کہتے ہوئے اجازت مانگ رہا تھا کہ بے شک ہمارے گھر بے حفاظت ہیں،حالانکہ وہ بے حفاظت نہ تھے، وہ تو صرف فرار ہونا چاہتے تھے۔

تفسیر: اس آیت میں یثرب کا لفظ ذکر ہوا ہے، اس کے بارے میں اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :یثرب کا لفظ فساد و ملامت سے خبر دیتا ہے، وہ ناپاک اِسی طرف اشارہ کرکے یثرب کہتے، اللہ کریم نے ان پر رد کے لئے مدینہ طیبہ کا نام طابہ رکھا،حضور پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:یَقُوْلُوْنَ یَثْرِبَ وَھِیَ الْمَدِیْنَۃُ وہ اِسے یثرب کہتے ہیں، وہ تو مدینہ ہے۔

میری الفت مدینے سے یوں ہی نہیں مرے آقا کا روضہ مدینے میں ہے

3۔ پارہ 28 سورۃ المُنفِقُوُنَ آیت 8 میں ربّ کریم ارشاد فرماتا ہے: یَقُوْلُوْنَ لَئِنْ رَّجَعْنَآاِلَی الْمَدِیْنَۃِ لَیُخْرِجَنَّ اْلاَعَزُّ مِنْھَا اْلاَذَلَّ وَلِلہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِهٖ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَلٰکِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ۔ترجمۂ کنزالعرفان:وہ کہتے ہیں: قسم ہے اگر ہم مدینہ کی طرف لوٹ کر گئے تو ضرور جو بڑی عزت والا ہے، وہ اِس میں سے نہایت ذلت والے کو نکال دے گا، حالانکہ عزت تو اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں ہی کے لئے ہے، مگر منافقوں کو معلوم نہیں۔

تفسیر: منافق کہتے ہیں:اگر ہم اس غزوے سے فارغ ہونے کے بعد مدینے کی طرف لوٹ کر گئے تو ضرور جو بڑی عزت والا ہے، وہ اِس میں سے نہایت ذلت والے کو نکال دے گا۔منافقوں نے اپنے آپ کو عزت والا کہا اور مسلمانوں کو ذلت والا، اللہ کریم ان کا رد کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے :عزت تو اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں ہی کے لئے ہے، مگر منافقوں کو معلوم نہیں۔

مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ دونوں مقامات ہی افضل و اعلیٰ ہیں، مکہ مکرمہ کی فضیلت یہ ہے کہ مکہ میں اعمال کا ثواب چندگنا ہے، مسجد نبوی میں ادا کی ہوئی نماز ہزاروں نمازوں کے برابر ہے، اور مسجد حرام میں ادا کی ہوئی نماز ایک لاکھ کے برابر ہے، لیکن افضلیت کا سبب ثواب کی زیادتی ہر منحصر نہیں۔

معجم کبیر میں حضرت رافع بن خدیج رضی الله عنہ سے روایت ہے،وہ کہتے ہیں:میں نے رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو کہتے سنا،آپ فرماتے تھے: اَلْمَدِیْنَۃُ خَیْرٌمِّنَ الْمَکَّۃِ۔ بحوالہ: تفسیر صراط الجنان

مدینہ اس لئے عطار جان و دل سے ہے پیارا کہ رہتے ہیں مرے آقا مرے دلبر مدینے میں