امت کے
تمام علماکا اس پر اتفاق ہے کہ زمین بھر کے سب شہروں میں سب سے زیادہ فضیلت اور
بزرگی رکھنے والے دو شہر مکہ معظمہ و مدینہ منورہ ہیں،
مکہ مکرمہ کی فضیلت اس سے بڑی اور کیا
ہوگی کہ حضور علیہ الصلوة والسلام نے اس سے اپنی محبت کا اظہار فرمایا
جبکہ آپ علیہ
الصلوة والسلام نے کفارِ قریش کے ظلم و ستم کی وجہ سے
اپنے رب کریم کے حکم سے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت فرمائی توفرمایا:اے مکہ! تو کتنا
پیارا شہر ہے ، تو مجھے کس قدر محبوب ہے ، اگر میری قوم مجھے تجھ سے نہ نکالتی تو میں
تیرے سوا کسی دوسرے مقام پر سکونت اختیار نہ کرتا۔‘‘ (سنن
ترمذی 3861)اور مدینہ طیبہ کی تو کیا ہی بات ہے خود نبی کریم علیہ الصلوة والسلام نے جس سے محبت میں اضافہ کے لئے
دعا فرمائی:اللهمَّ حَبِّبْ إلينَا المدينةَ كحُبِّنَا مكةَ أو أَشَدَّترجمہ:اےاللہ پاک!مدینے کو ہمارے لئے مکہ کی طرح بلکہ اس سے
بھی زیادہ محبوب بنادے۔ (صحيح البخاری:1889)
پیاری
بہنو !آئیے !قرآن ِحکیم جو میرے رب کا کلام ہے اس نے پیارے پیارے کعبہ اور میٹھے
میٹھےمدینہ کے جو فضائل اپنی آغوش میں سمیٹیں ہوئے ہیں اسے ملاحظہ کرتی ہیں:
فضائلَ مکہ بزبانِ قرآن
اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ
وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّ
هُدًى لِّلْعٰلَمِیْنَ(96)ترجمۂ
کنز العرفان:بیشک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کے لئے بنایا گیا وہ ہے جو مکہ
میں ہے برکت والا ہے اور سارے جہان والوں کے لئے ہدایت ہے۔(البقرۃ:97)ترجمۂ کنزالعرفان:اور جو اس میں آئے امان میں ہو۔وَ
مَنْ دَخَلَهٗ كَانَ اٰمِنًا ؕاسی مکہ مکرمہ میں ہی مقامِ ابراہیم ہے جس کے بارے میں قرآنِ
کریم فرماتا ہے: وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى(سورہ بقرہ 125)اور تم ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو
نماز کا مقام بناؤ۔ مقامِ ابراہیم وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم علیہ الصلوة والسلام نے کعبہ معظمہ کی تعمیر فرمائی۔
خوبصورت
نکتہ:اس سے معلوم ہوا!جس پتھر سے پیغمبر کے قدم چھو جائیں وہ مُتَبَرَّک اور شَعَآىٕرُ
اللہ اور آیۃُ
اللہ یعنی اللہ کریم کی
نشانی بن جاتا ہے۔اللہ پاک فرماتا ہے:اِنَّ الصَّفَا
وَ الْمَرْوَةَ مِنْ شَعَآىٕرِ اللّٰهِ(بقرہ:158)ترجمۂ کنزُالعِرفان:بیشک صفا اور مروہ اللہ کی
نشانیوں میں سے ہیں۔ظاہر ہے کہ یہ دونوں پہاڑ حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا کے قدم پڑ جانے سےشَعَائِرُ اللہبن گئے۔
مکہ کی انفرادی خصوصیت بزبانِ قرآن:
اللہ پاک
کا اپنی ذات و صفات کے علاوہ کسی اور چیز کی قسم یاد فرمانااس چیز کا شرف اور فضیلت
ظاہر کرنے کے لئے اور دیگر اَشیاکے مقابلے میں اس چیز کو ممتاز کرنے کے لئے ہے جو لوگوں کے درمیان موجود ہے تاکہ لوگ جان سکیں کہ
یہ چیز انتہائی عظمت و شرافت والی ہے۔(مدارج
النبوہ، باب سوم دربیان فضل وشرافت، 1 / 65)
لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِ(1)مجھے اِس شہر(مکہ)کی قسم۔یہاں اللہ پاک
نے مکہ مکرمہ کی فضیلت کی وجہ سے اس کی قَسم ارشاد فرمائی اور وجہ کیا بتائی وَ
اَنْتَ حِلٌّۢ بِهٰذَا الْبَلَدِ(2)جبکہ تم اس شہر میں تشریف فرما ہو۔
یاد
فرما کر قَسَم حق نے زمینِ پاک کی خاکِ
نعلِ مصطفیٰ کو تاجِ شاہاں کردیا
فضائلِ مدینہ منورہ:
جب ہجرت مدینہ
ہوئی تو اللہ پاک نے یہ آیتِ مبارکہ ہجرت کرنے والوں کے فضائل میں نازل فرمائی :وَ
الَّذِیْنَ هَاجَرُوْا فِی اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ
فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً ؕ وَ لَاَجْرُ الْاٰخِرَةِ اَكْبَرُ ۘلَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ
(41)ترجمۂ کنزالعرفان: اور جنہوں نے اللہ
کی راہ میں اپنے گھر بار چھوڑے مظلوم ہوکر ضرور ہم انہیں دنیا میں اچھی جگہ دیں گے
اور بیشک آخرت کا ثواب بہت بڑا ہے کسی طرح لوگ جانتے۔لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً : ہم ضرور انہیں دنیا میں اچھی جگہ دیں
گے اچھی جگہ سے مراد مدینہ طیبہ ہے جسے اللہ پاک نے ان کے لئے ہجرت کی جگہ بنایا۔اس آیت سے مدینہ منورہ کی فضیلت بھی معلوم
ہوئی کہ یہاں اسے حَسَنَۃً فرمایا گیاہے۔یہاں یہ
بات بھی یاد رکھنا چاہئے کہ مدینہ کا اگرچہ پرانا نام یثرب تھا لیکن جب حضور علیہ الصلوة والسلام یہاں تشریف فرما ہوئے تو پھر اس کا نام مدینہ ہوگیا لہٰذا اب اسے یثرب نہیں
کہا جائے گا ۔
مدینہ منورہ کو
یثرب کہنے کا شرعی حکم:
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ
اللہ علیہفرماتے
ہیں :مدینہ طیبہ کو یثرب کہنا ناجائز
وممنوع وگناہ ہے اور کہنے والا گنہگار۔ رسولُ اللہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:’’مَنْ سَمَّی
الْمَدِیْنَۃَ یَثْرِبَ فَلْیَسْتَغْفِرِاللہ ھِیَ طَابَۃُ ھِیَ طَابَۃُ ‘‘
جو مدینہ کو یثرب کہے اس پر توبہ واجب ہے۔مدینہ طابہ ہے۔مدینہ طابہ ہے۔(
مسند امام احمد، مسند الکوفیین، حدیث البراء بن عازب ، 4 / 409،
الحدیث: 18544)
مدینہ مجرموں
کی جائے پناہ:
مدینہ طیبہ ہی وہ جگہ ہے جہاں مجرموں
کو پناہ اور گناہگاروں کو مغفرت کے پروانے ملتے ہیں جو ہر عاصی کی امید گاہ ہے ۔یہ
وہ جگہ ہے جہاں شفیعِ امم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم تشریف فرما ہیں ۔
مدینہ
اس لئے عطار جان و دل سے ہے پیارا کہ
رہتے ہیں میرے آقا میرے دلبر مدینے میں
اللہ پاک ارشاد
فرماتا ہے:وَ
لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ
اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا
رَّحِیْمًا اگر
وہ جو اپنی جانوں پر ظلم کریں تیرے پاس حاضر ہو کر خدا سے بخشش چاہیں اور رسول ان کی
مغفرت مانگے تو ضرور خدا کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔
اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کربیٹھے
تھےا اس حصے میں اگرچہ ایک خاص واقعے کے اعتبار سے کلام فرمایا گیا، البتہ اس میں موجود
حکم عام ہے اورقیامت تک آنے والے مسلمانوں کو سَرورِ دوجہاں صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوکر شفاعت طلب
کرنے کا طریقہ بتا یا گیا ہے۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ
اللہ علیہفرماتے
ہیں:’’بندوں کو حکم ہے کہ ان(یعنی نبی کریم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم) کی بارگاہ
میں حاضر ہو کر توبہ و استغفار کریں۔اللہ پاک تو ہر جگہ سنتا ہے، اس کا علم ،اس
کا سَمع(یعنی
سننا)،
اس کا شُہود(یعنی
دیکھنا)سب
جگہ ایک سا ہے، مگر حکم یہی فرمایا کہ میری طرف توبہ چاہو تو میرے محبوب کے حضور حاضر
ہو۔قبرِ انور پر حاجت کے لئے حاضر ہونا بھی’’جَآءُوْكَ‘‘ میں داخل اور خَیرُ القُرون کا
معمول ہے۔معلوم ہوا!یہ اعزاز مدینہ طیبہ کو حاصل ہے۔
مجرم
بلائے آئے ہیں جَآءُوْكَ ہے
گواہ پھر رد ہو کب یہ شان
کریموں کے در کی ہے۔حدائق بخشش
حضرت عبداللہ بن
عمر رضی
اللہ عنہما سے
روایت ہے،حضورِ اَقدس صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’جس شخص کو مدینہ منورہ
میں موت آ سکے تو اسے یہاں ہی مرنا چاہئے،کیونکہ میں یہاں مرنے
والوں کی(خاص طور پر)شفاعت کروں گا۔( ترمذی،
کتاب المناقب، باب فی فضل المدینۃ، 5/483، الحدیث:
3943)اعلیٰ
حضرت رحمۃ
اللہ علیہ
کیا خوب فرماتے ہیں :
طیبہ
میں مر کے ٹھنڈے چلے جاؤ آنکھیں بند سیدھی
سڑک یہ شہرِ شفاعت نگر کی ہے
(ماخذ
و مراجع:جذب القلوب الی دیار المحبوب، ترمذی،بخاری شریف ،تفسیر صراط الجنان ملخصا)