قرآنِ کریم اور ذکر مکہ و مدینہ:

قرآنِ کریم اللہ کریم کی وہ آ خری کتاب ہے جو اللہ کریم نے اپنے آ خری نبی حضرت محمد صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم پر نازل فرمائی۔اس کتاب قرآنِ مجید میں بے شمار چیزوں کا ذکر موجود ہے۔خصوصیت کے ساتھ کئی مقامات پر شہر مکہ و مدینہ کا بھی ذکر فرمایا گیا جس سے ان شہروں کی عظمت میں اضافہ ہوا۔ہر سورت کی تلاوت کے وقت بھی ان دو شہروں کی یاد تازہ ہوتی ہے کہ اللہ پاک نے صرف ان دو شہروں کو نزول ِقرآن کے لئے چنا۔مکہ مکرمہ میں نازل ہونے والی سورت کو مکی سورت کہا جاتا ہے جبکہ مدینہ منورہ میں نازل ہونے والی سورت کو مدنی سورت کہا جاتا ہے۔

وہاں پیارا کعبہ یہاں سبز گنبد وہ مکہ بھی میٹھا تو پیارا مدینہ

( وسائل بخشش 327)

ذکرِ مکہ مکرمہ:

اللہ پاک نے قرآنِ کریم میں شہرِ مکہ کا ذکر کچھ اس طرح فرمایا:لا اقسم بھذا البلد وانت حل بھذا البلد ترجمہ:مجھے اس شہر کی قسم جبکہ تم اس شہر میں تشریف فرما ہو۔(پارہ 30 سورہ بلد آ یت 1/2)

(لا اقسم بھذا البلد) اس آیت اور اس کے بعد والی آ یت میں ارشاد فرمایا: اے پیارے حبیب! مجھے اس شہر مکہ کی قسم جبکہ تم اس میں تشریف فرما ہو۔یہاں اللہ پاک نے مکہ مکرمہ کی فضیلت کی وجہ سے اس کی قسم ارشاد فرمائی۔ (تفسیر صراط الجنان جلد 10 صفحہ 678)اور سورهٔ بلد کی دوسری آ یت میں گویا ارشاد فرمایا:اے پیارے حبیب! مکہ مکرمہ کو یہ عظمت آ پ کے وہاں تشریف فرما ہونے کی وجہ سے حاصل ہوئی۔(صراط الجنان جلد 10 صفحہ:679)

مکہ مکرمہ کی ایک فضیلت یہ ہےکہ اسے حرم اور امن والی جگہ بنایا اور اس میں موجود مسجد کے بارے میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:ان اول بیت وضع للناس للذی ببکة مبارکا و ھدی للعلمین فیہ ایت بینت مقام ابراھیم و من دخله كان امنا ترجمۂ کنز العرفان:بے شک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کے لئے بنایا گیا وہ ہے جو مکہ میں ہے برکت والا ہے اور سارے جہاں والوں کے لئے ہدایت ہے ۔اس میں کھلی نشانیاں ہیں ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے اور جو اس میں داخل ہوا امن والا ہوگیا۔(سورہ ال عمران آ یت 96/97)

شان نزول:

یہودیوں کے رد میں آ یتِ کریمہ 96 نازل ہوئی کہ ان لوگوں نے کہا تھا :بیت المقدس کعبے سے افضل ہے ۔ (صراط الجنان پارہ 4/ خازن ال عمران تحت الایہ 96،1/274)انہیں بتادیا گیا کہ روئے زمین پر عبادت کے لئے سب سے پہلے جو گھر تیار ہوا وہ خانہ کعبہ ہے۔

ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا حرم کی ہے بارش اللہ کے کرم کی ہے(وسائل بخشش ص 124)

ذکرِ مدینہ منورہ:

قرآنِ پاک میں کئی مقامات پر ذکرِ مدینہ بھی گزرا ہے۔چنانچہ اللہ پاک قرآنِ پاک سورة المنافقون آ یت نمبر 8 میں ارشاد فرماتا ہے:یقولون لئن رجعنا الی المدینة لیخرجن العز منھا الاذل وللہ العزة ولرسوله وللمؤمنين ولكن المنفقين لا يعلمون0ترجمۂ كنز العرفان:کہتے ہیں:قسم ہے کہ اگر ہم مدینہ لوٹ کر گئے تو ضرور جو بڑی عزت والا ہے وہ اس میں سے نہایت ذلت والے کو نکال دے گا حالانکہ عزت تو اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں ہی کے لئے ہے مگر منافقوں کو معلوم نہیں۔(ترجمۂ کنز العرفان صراط الجنان صفحہ 168)ایک اور مقام پر ارشادِ خداوندی ہے:والذین تبوؤ الدار والايمان من قبلھم یحبون من ھاجر الیھم ترجمۂ کنز العرفان:اور وہ جنہوں نے ان (مہاجرین )سے پہلے اس شہر کو اور ایمان کو ٹھکانہ بنالیا وہ اپنی طرف ہجرت کرنے والوں سے محبت کرتے ہیں۔مذکورہ آ یت میں بھی شہر سے مراد شہر مدینہ ہے۔(صراط الجنان جلد 10 صفحہ 74سورہ حشر ،آ یت: 9)

مدینہ اس لئے عطار جان و دل سے ہے پیارا کہ رہتے ہیں میرے آ قا میرے سرور مدینے میں

(وسائل بخشش)

حرفِ آ خر:

ہمیں بھی چاہیئے کہ ہم بھی خوب ذوق و شوق کے ساتھ ذکر مکہ و مدینہ کریں۔اپنے اور اپنے بچوں کے دلوں میں بھی ان کی عظمت کو پیدا کرنے کی کوشش کریں۔اس کا بہترین ذریعہ دعوتِ اسلامی کا دینی ماحول ہے جس نے بچے بچے کو ذکر مکہ و مدینہ کرنے کا انداز سکھادیا۔

مری آ نے والی نسلیں ترے عشق ہی میں مچلیں انہیں نیک تو بنانا مدنی مدینے والے

(وسائل بخشش)