قرآنِ
کریم میں ذکرِ مکہ و مدینہ از ام غزالی بنت جمیل احمد
عطاری، نیو کراچی
اِس روئے زمین
میں زمین کے کچھ طبقات ایسے ہیں، جن کو اللہ کریم نے برکتوں اور سعادتوں سے نوازہ
ہے، جن کو اللہ کریم نے لوگوں کے لئے سعادتوں اور بخششوں کا گہوارہ بنایا ہے، اُن
میں سے مکہ شریف اور مدینہ شریف ایسے مراکزہیں،جن کی طرف ہمیشہ سے عقیدتوں اور
محبتوں کے کارواں چلتے ہیں،یہ دونوں مقامات برکتوں اور سعادتوں سےمالا مال ہیں،
مسلمانوں کے اہم مراکز ہیں، مکہ شریف حج کے لئے جاتے ہیں اور مدینہ شریف عاشقوں کی
جان ہے، آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، شہر مدینہ اور شہرِ مکہ بے پناہ فضائل سے مالا مال ہیں۔
فضائلِ
مکہ مکرمہ:
1۔ اللہ کریم
پارہ 4 سورۂ ال عمران آیت نمبر 96 میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ
وُّضِعَ لِلنَّاسِ بِبَکَّۃَ مُبَارکَاً وَّھُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ۔ ترجمہ:
بے شک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کے لئے بنایا گیا ہے، وہ مکہ میں ہے، برکت
والا ہے اور سارے جہان والوں کے لئے ہدایت ہے۔
تفسیر: اللہ کریم
نے اس کو پہلا گھر قرار دیا، روئے زمین پر عبادت کے لئے، جو پہلا گھر تیار ہوا وہ
خانہ کعبہ ہے، اِسے ام القری کہا جاتا ہے۔
2۔ اللہ کریم
سورۃ البلد پارہ 30 آیت نمبر 1 اور 2 میں ارشاد فرماتا ہے:لَآقْسِمُ بِھٰذَاالْبَلَدِْ وَاَنْتَ حِلٌّ
بِھٰذَاالْبَلَدِ۔ترجمہ:
مجھے اِس شہر کی قسم جبکہ تم اِس شہر میں تشریف فرما ہو۔
یہاں اِس شہر
سے مراد مکہ مکرمہ ہے۔ان آیات میں ارشاد فرمایا :اے حبیب! مجھے اس شہر مکہ کی قسم!
جبکہ تم اِس شہر میں تشریف فرما ہو،یہاں اللہ کریم نے مکہ مکرمہ کی فضیلت کی وجہ
اس کی قسم ارشاد فرمائی اور مکہ مکرمہ کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ اللہ کریم نے اِسے
امن والی جگہ بنایا اور دوسری آیت میں ارشاد فرمایا: پیارے حبیب صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم مکہ مکرمہ کو یہ عظمت آپ کے وہاں تشریف فرما ہونے
کی وجہ سے حاصل ہے۔
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
وہ
خدا نے ہے مرتبہ تجھ کو دیا نہ کسی کو ملے نہ کسی کو ملا
کہ
کلامِ مجید نے کھائی شہا ترے شہر و کلام وبقا کی قسم
اسی طرح قرآنِ
پاک میں جگہ بہ جگہ مکہ مکرمہ کا ذکر ہے۔
3۔ سورۂ شوری
آیت نمبر 7 پارہ 25 میں اللہ کریم فرماتا ہے:ترجمہ:اور یونہی ہم نے تمہاری طرف عربی
قرآن کی وحی بھیجی تاکہ تم مرکزی شہر اور اس کے اردگرد رہنے والوں کو ڈر سناؤ اور
تم جمع ہونے کے دن سے ڈراؤ، جس میں کوئی شک نہیں اور ایک گروہ جنت میں ہے اور ایک
گروہ دوزخ ہے۔یہاں مرکزی شہر سے مراد مکہ مکرمہ ہے۔
4۔ اسی طرح
اللہ کریم پارہ 20 سورۃ النمل آیت 91 میں ارشاد فرماتا ہے:ترجمہ: مجھے تو حکم ہوا
ہے کہ میں اس شہر (مکہ) کے
ربّ کی عبادت کروں، جس نے اِسے حرمت والا بنایا ہے اور ہر شے اِسی کی ملکیت ہے اور
مجھے حکم ہوا ہے کہ فرمانبرداروں میں سے رہوں۔
5۔اللہ کریم
سورۃ القصص کی آیت نمبر 59 پارہ 20 میں فرماتا ہے: ترجمہ:اور تمہارا ربّ شہروں کو
ہلاک کرنے والا نہیں ہے، جب تک ان کے مرکزی شہر میں رسول نہ بھیجے، جو اِن پر ہماری
آیتیں پڑھے اور ہم شہروں کو ہلاک کرنے والے نہیں ہیں، مگر (اسی وقت) جب
ان کے رہنے والے ظالم ہوں۔
اِس آیت میں
مرکزی شہر سے مراد مکہ مکرمہ ہے اور رسول سے مراد نبیِ پاک صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ہیں۔
فضائلِ مدینہ
منورہ:
معطر
معطر دیارِ مدینہ منور
منور جوارِ مدینہ
دو
عالم نہ کیوں ہو نثارِ مدینہ ہیں
محبوبِ ربّ تاجدارِ مدینہ
شہرِ مدینہ ایمان
کا سر چشمہ ہے، ایمان کے احکام کا مظہر ہے، یہ افضل مقام ہے، حضور پاک صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو اِس شہر سے بے پناہ محبت ہے، اسلام کی قوت، دین
کے رواج، خیر و برکت کا سر چشمہ مدینہ ہے۔
2۔ اللہ کریم
سورۃ الاحزاب آیت 60 میں ارشاد فرماتا ہے:ترجمہ: منافق اور وہ کہ جن کے دلوں میں مرض
ہے اور وہ لوگ جو مدینے میں جھوٹی خبریں پھیلانے والے ہیں،اگر باز نہ آئے تو ضرور
ہم تمہیں ان کے خلاف اُکسائیں گے، پھر وہ مدینے تمہارے پاس نہ رہیں گے، مگر تھوڑے
دن۔
2۔ پارہ نمبر
21 آیت 13 سورۃ الاحزاب میں اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے:ترجمہ:اور جب اِن میں سے ایک
گروہ نے کہا:اے مدینے والو! یہاں تمہارے ٹھہرنے کی جگہ نہیں تو تم واپس چلو اور ان
میں سے ایک گروہ نبی سے یہ کہتے ہوئے اجازت مانگ رہا تھا کہ بے شک ہمارے گھر بے
حفاظت ہیں،حالانکہ وہ بے حفاظت نہ تھے، وہ تو صرف فرار ہونا چاہتے تھے۔
تفسیر: اس آیت
میں یثرب کا لفظ ذکر ہوا ہے، اس کے بارے میں اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ
علیہ
فرماتے ہیں :یثرب کا لفظ فساد و ملامت سے خبر دیتا ہے، وہ ناپاک اِسی طرف اشارہ
کرکے یثرب کہتے، اللہ کریم نے ان پر رد کے لئے مدینہ طیبہ کا نام طابہ رکھا،حضور
پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
فرماتے ہیں:یَقُوْلُوْنَ
یَثْرِبَ وَھِیَ الْمَدِیْنَۃُ وہ اِسے یثرب کہتے ہیں، وہ تو مدینہ
ہے۔
میری
الفت مدینے سے یوں ہی نہیں مرے
آقا کا روضہ مدینے میں ہے
3۔ پارہ 28
سورۃ المُنفِقُوُنَ آیت 8 میں ربّ کریم ارشاد فرماتا ہے: یَقُوْلُوْنَ لَئِنْ
رَّجَعْنَآاِلَی الْمَدِیْنَۃِ لَیُخْرِجَنَّ اْلاَعَزُّ مِنْھَا اْلاَذَلَّ
وَلِلہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِهٖ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَلٰکِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ
لَا یَعْلَمُوْنَ۔ترجمۂ
کنزالعرفان:وہ کہتے ہیں: قسم ہے اگر ہم مدینہ
کی طرف لوٹ کر گئے تو ضرور جو بڑی عزت والا ہے، وہ اِس میں سے نہایت ذلت والے کو
نکال دے گا، حالانکہ عزت تو اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں ہی کے لئے ہے، مگر
منافقوں کو معلوم نہیں۔
تفسیر: منافق
کہتے ہیں:اگر ہم اس غزوے سے فارغ ہونے کے بعد مدینے کی طرف لوٹ کر گئے تو ضرور جو
بڑی عزت والا ہے، وہ اِس میں سے نہایت ذلت والے کو نکال دے گا۔منافقوں نے اپنے آپ
کو عزت والا کہا اور مسلمانوں کو ذلت والا، اللہ کریم ان کا رد کرتے ہوئے ارشاد فرماتا
ہے :عزت تو اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں ہی کے لئے ہے، مگر منافقوں کو معلوم
نہیں۔
مکہ مکرمہ اور
مدینہ منورہ دونوں مقامات ہی افضل و اعلیٰ ہیں، مکہ مکرمہ کی فضیلت یہ ہے کہ مکہ میں
اعمال کا ثواب چندگنا ہے، مسجد نبوی میں ادا کی ہوئی نماز ہزاروں نمازوں کے برابر
ہے، اور مسجد حرام میں ادا کی ہوئی نماز ایک لاکھ کے برابر ہے، لیکن افضلیت کا سبب
ثواب کی زیادتی ہر منحصر نہیں۔
معجم کبیر میں
حضرت رافع بن خدیج رضی الله عنہ سے روایت ہے،وہ
کہتے ہیں:میں نے رسول اللہ صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم
کو کہتے سنا،آپ فرماتے تھے: اَلْمَدِیْنَۃُ خَیْرٌمِّنَ الْمَکَّۃِ۔ بحوالہ:
تفسیر صراط الجنان
مدینہ
اس لئے عطار جان و دل سے ہے پیارا کہ
رہتے ہیں مرے آقا مرے دلبر مدینے میں