اللہ کریم نے بعض رسولوں کو بعض پر فضیلت عطا فرمائی اور سب پر پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فضیلت عطا فرمائی اسی طرح دنوں میں سے جمعۃ المبارک کو،مہینوں میں سے ماہ رمضان المبارک کو ،راتوں میں سے لیلۃ القدر کو اور شہروں میں سے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کو فضیلت عطا فرمائی ۔ مکہ مکرمہ میں کعبہ اللہ، حجر ِاسود جنتی پتھر ،میدانِ عرفات ،مسجد ِنمرہ، جنت المعلی قبرستان ہے۔اور سب سے بڑھ کر اسی شہر میں ہی آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ولادتِ باسعادت ہوئی ۔یہاں ہر دم رحمتوں کی چھم چھم بارش برستی ہے۔ لطف کرم کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوتا اور مانگنے والا کبھی محروم نہیں لوٹتا ۔اسی طرح مدینہ منورہ کے بارے میں ہے: جب کوئی مسلمان زیارت کرنے کی نیت سے مدینہ منورہ آتا ہے تو فرشتے رحمت کے تحفوں سے اس کا استقبال کرتے ہیں۔ (جذب القلوب، ص211) مسجد نبوی میں ایک نماز پڑھنا پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے۔(ابن ماجہ ،2\176،حدیث :1413) ۔ مدینہ میں جینا حصولِ برکت اور مرنا شفاعت پانے کا ذریعہ ہے چنانچہ رحمتِ عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ارشاد ہے : جو مدینے میں مر سکے وہ وہیں مرے کیونکہ میں مدینے میں مرنے والوں کی شفاعت کروں گا۔

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کیا خوب فرماتے ہیں :

طیبہ میں مر کے ٹھنڈے چلے جاؤ آنکھیں بند سیدھی سڑک یہ شہرِ شفاعت نگر کی ہے

شہر مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ بڑی ہی فضیلت والے شہر ہیں چنانچہ قرآنِ پاک میں اللہ کریم شہر مکہ کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے: لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(1)وَ اَنْتَ حِلٌّۢ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(2)ترجمۂ کنزالایمان:مجھے اس شہر کی قسم کہ اے محبوب! تم اس شہر میں تشریف فرما ہو۔

تفسیر صراط الجنان:لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِ:مجھے اِس شہر کی قسماس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں  ارشاد فرمایا: اے پیارے حبیب! مجھے اِس شہر مکہ کی قسم! جبکہ تم اس شہر میں  تشریف فرما ہو۔ یہاں اللہ پاک نے مکہ مکرمہ کی فضیلت کی وجہ سے اس کی قَسم ارشاد فرمائی اور مکہ مکرمہ کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ اللہ پاک نے اسے حرم اور امن والی جگہ بنایا اور اس میں موجود مسجد کے بارے میں فرمایا: ’’اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّ هُدًى لِّلْعٰلَمِیْنَۚ(96) فِیْهِ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبْرٰهِیْمَ وَ مَنْ دَخَلَهٗ كَانَ اٰمِنًا‘‘(ال عمران:96،97)ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کے لئے بنایا گیا وہ ہے جو مکہ میں ہے برکت والا ہے اور سارے جہان والوں کے لئے ہدایت ہے۔ اس میں کھلی نشانیاں ہیں ، ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے اور جو اس میں داخل ہوا امن والا ہوگیا۔

اس مسجد کو پوری دنیا کے مسلمانوں  کے لئے قبلہ بنا تے ہوئے ارشاد فرمایا:’’وَ حَیْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ شَطْرَهٗ‘‘( بقرہ:144)ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اے مسلمانو!تم جہاں کہیں ہو اپنا منہ اسی کی طرف کرلو۔اور اس میں موجود مقامِ ابراہیم کے بارے میں مسلمانوں  کو حکم دیا:’’وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى‘‘(بقرہ:125) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور(اے مسلمانو!)تم ابراہیم کےکھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کا مقام بناؤ۔اور لوگوں کو خانہ کعبہ کا حج کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:’’وَ  لِلّٰهِ  عَلَى  النَّاسِ   حِجُّ  الْبَیْتِ  مَنِ  اسْتَطَاعَ  اِلَیْهِ  سَبِیْلًا‘‘(ال عمران:97) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اللہ کے لئے لوگوں پر اس گھر کاحج کرنا فرض ہے جو اس تک پہنچنے کی طاقت رکھتا ہے اور خانہ کعبہ کے بارے میں ارشاد فرمایا:’’وَ اِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَ اَمْنًا‘‘(بقرہ:125)ترجمۂ کنزُ العِرفان: اور(یاد کرو)جب ہم نے اس گھر کو لوگوں کے لئے مرجع اور امان بنایا۔ اورسورۂ بلد کی دوسری آیت میں گویا ارشاد فرمایا: اے پیارے حبیب! مکہ مکرمہ کو یہ عظمت آپ کے وہاں تشریف فرما ہونے کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے۔(تفسیرکبیر، البلد، تحت الآیۃ:2، 11/ 164)

حضرت علامہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’علما فرماتے ہیں:اللہ پاک نے اپنی کتاب میں نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے علاوہ اور کسی نبی کی رسالت کی قَسم یاد نہ فرمائی اور سورۂ مبارکہ ’’لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(1)وَ اَنْتَ حِلٌّۢ بِهٰذَا الْبَلَدِ‘‘اس میں رسولِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی انتہائی تعظیم و تکریم کا بیان ہے کیونکہ اللہ پاک نے قسم کو اس شہر سے جس کا نام ’’بلد ِحرام‘‘ اور ’’بلد ِامین‘‘ ہے ،مُقَیَّد فرمایا ہے اور جب سے حضورِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اس مبارک شہر میں  نزولِ اِجلال فرمایا تب سے اللہ پاک کے نزدیک وہ شہر معزز و مکرم ہو گیا اور اسی مقام سے یہ مثال مشہور ہوئی کہ ’’شَرَفُ الْمَکَانِ بِالْمَکِیْنِ‘‘یعنی مکان کی بزرگی اس میں رہنے والے سے ہے۔مزید فرماتے ہیں: اللہ پاک کا اپنی ذات و صفات کے علاوہ کسی اور چیز کی قسم یاد فرمانااس چیز کا شرف اور فضیلت ظاہر کرنے کے لئے اور دیگر اَشیاء کے مقابلے میں اس چیز کو ممتاز کرنے کے لئے ہے جو لوگوں کے درمیان موجود ہے تاکہ لوگ جان سکیں کہ یہ چیز انتہائی عظمت و شرافت والی ہے۔(مدارج النبوہ، باب سوم دربیان فضل وشرافت،1 /65 )

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کیا خوب فرماتے ہیں :

وہ خدانے ہے مرتبہ تجھ کو دیا نہ کسی کو ملے نہ کسی کو ملا           کہ کلامِ مجید نے کھائی شہا تِرے شہر و کلام و بقا کی قسم

اللہ کریم سے دعا ہے کہ تمام عاشقانِ رسول کو ہر سال ان شہروں کی باادب حاضری نصیب فرمائےاور ہمیں ان کی خوب خوب برکات سمیٹنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین