جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ انسان ہونے کے ناطے ہم سب سے کچھ نہ کچھ گناہ سرزد ہوتے ہیں۔ زیادہ خطرناک گناہ حقوق العباد کے معاملے میں ہیں۔ انسانوں پر رحم کرنے کی تاکید میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ہم ان کو معاف کر دیں تاکہ اللہ بھی ہمیں معاف کر دے۔ سوشل میڈیا یعنی فیس بک وغیرہ زندگی سے متعلقہ و غیر متعلقہ جن کو آپ یاد رکھے ہوئے ہیں یا بھول چکے ہیں آئیے ان سب کو ابھی آج ہی معاف کر دیتے ہیں۔ یہ رحم کا سب سے بڑا درجہ ہوگا۔ اللہ سے مکمل امید ہے کہ جیسے ہم تمام لوگوں کو معاف کر رہے ہیں اللہ بھی ہمارے گناہ معاف فرما دےگا۔ ان شاء اللہ تو آؤ کہہ دو کہ میں نے ان سب لوگوں کو معاف کر دیا جنہوں نے کبھی میرا دل دکھایا ہو، تنگ کیا ہو، اذیت دی ہو، ظلم کیا ہو، آنکھوں میں آنسو لانے کا سبب بنے ہوں، کہہ دو کہ میں نے سب کو معاف کر دیا ان شاء اللہ آپ کے معاف کرنے کی وجہ سے بہت سارے لوگ جہنم کے عذاب سے بچ جائیں گے۔

معذرت قبول نہ کرنا گناہ ہے حضور اقدس ﷺ کا ارشاد ہے: جو شخص اپنے بھائی سے معذرت کرے اور پھر وہ اسے قبول نہ کرے تو اسے اتنا ہی گناہ ہوگا جتنا محصول یعنی ٹیکس وصول کرنے والے کو اس کے خطا پر ہوتا ہے۔(ابن ماجہ، 4/668، حدیث: 3718)

معذرت قبول نہ کرنے والا حوض کوثر تک پہنچ نہ پائے گا: حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص کسی کے پاس اپنی غلطی پر معذرت کے لیے آئے تو اسے قبول کرنا چاہیے خواہ وہ سچا ہو یا جھوٹا اگر وہ ایسا نہیں کرے تو میرے پاس حوض کوثر تک نہیں پہنچ سکے گا۔ (معجم اوسط، 4/376، حدیث:6295)

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جو حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا نہیں کرتا میں اس کے لیے اعلی جنت میں گھر کا ضامن ہوں۔ (ابو داود، 4/332، حدیث: 4800)

اپنے بچے کو معذرت کہنا سکھائیے:

1۔ بہن بھائی سے لڑائی کی صورت میں معذرت کی جائے۔

2۔ کھیل کے دوران دوسروں کو دھکا لگنے پر معذرت کیجئے۔

3۔ دوسرے بچوں کی چیزوں کے نقصان پر معذرت کیجئے۔

4۔ اسکول میں ہم جماعت کو تکلیف پہنچنے پر معذرت کیجئے۔

5۔ بڑے اپنی غلطی پر بچوں سے معذرت کریں تاکہ بچے بھی معذرت کرنے سے نہ ہچکچائیں۔

مسلمان کی معذرت قبول کرنا واجب ہے: رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس کے پاس اس کا مسلمان بھائی معذرت لائے واجب ہے کہ قبول کر لے ورنہ حوض کوثر پر آنا نہ ملے گا۔(معجم اوسط، 4/376، حدیث:6295)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا معذرت کرنا: ایک مرتبہ بلال رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے تھے کوئی بات چلی تو عمر رضی اللہ عنہ نے کوئی سخت لفظ استعمال کر دیا جب عمر رضی اللہ عنہ نے سخت لفظ استعمال کیا تو بلال رضی اللہ عنہ کا دل جیسے ایک دم بجھ گیا اور وہ خاموش ہو کر وہاں سے اٹھ کر چلے گئے تھے جیسے ہی وہ اٹھ کر گئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے محسوس کر لیا کہ انہیں میری اس بات سے صدمہ پہنچا ہے چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ اسی وقت اٹھے بلال رضی اللہ عنہ کو آ کر معذرت کی۔

معافی کا مطلب گلے لگانا نہیں بلکہ یہ عہد ہے کہ جو اذیت اس نے مجھے دی وہ میں اس کو نہیں دینی۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا اے اللہ کے رسول! ہم خادم کو کس قدر معاف کریں؟ آپ خاموش رہے اس نے پھر سوال کیا تو آپ خاموش رہے پھر جب تیسری بار پوچھا تو آپ نے فرمایا: اسے ہر روز 70 بار معاف کرو۔ (ترمذی، 3/381، حدیث:1956)

آخر میں اللہ سے دعا ہے اللہ پاک ہمیں معذرت کرنے والا بنا دے اور معاف کرنے والا بنا دے۔ آمین

ہمارے معاشرے میں جہاں دوسری بے انتہا برائیاں ہیں وہاں ایک برائی معذرت قبول نہ کرنا بھی ہے۔ دنیا میں لاکھوں لوگ ایسے ہیں جو اپنے کسی عزیز کی غلطی پر معذرت قبول نہیں کرتے اور رشتہ توڑ لیتے ہیں۔

معذرت کیا ہوتی ہے؟ معذرت عربی زبان کا لفظ ہے جو عذر سے بنا ہے۔ یعنی اگر کسی کا کوئی عذر ہے تو اسے قبول کرنا اور اسے معاف کرنا۔ اگر تو کوئی شخص بار بار غلطی کرتا ہے اور بعد میں آ کر معذرت کرتا ہے تو ایسے شخص کا مسئلہ الگ ہے۔ یہاں بات ہو رہی ہے کسی عام شخص کی جس کی معذرت ہم قبول نہیں کرتے۔ ہمیں لگتا ہے یہ چیز ہماری عزت کے خلاف ہے کہ ہم معذرت قبول کریں مگر کیا واقعی میں ایسا ہے؟ حدیث مبارکہ کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیے:

عزت والا کون ہے؟ روایت ہے حضرت ابو ہریرہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول الله ﷺ نے کہ حضرت موسیٰ بن عمران علیہ السلام نے عرض کیا کہ اے رب تیرے نزدیک تیرے بندوں سے کون زیادہ عزت والا ہے؟ فرمایا کہ جب قدرت پائے بخش دے۔ (شعب الایمان، 6/319، حدیث:8327 )

کیا رب کے نزدیک عزت والا ہونا ہمارے لیے ضروری نہیں؟ معذرت قبول کرنا سنت الہیہ ہے۔ جب ہم اللہ پاک سے معذرت کرتے ہیں تو وہ قبول فرماتا ہے۔

عذر کو قبول کر لے گا: روایت ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا کہ جو اپنی زبان کی حفاظت کرے الله تعالیٰ اس کے عیب چھپالے گا اور جو اپنا غصہ روکے الله تعالیٰ اس سے قیامت کے دن اپنا عذاب روک لے گا اور جو الله تعالیٰ کی بارگاہ میں معذرت کرے الله تعالیٰ اس کے عذر قبول کرلے گا۔ (مراۃ المناجیح، 6/667)

کیا ہم سنت الہیہ پر عمل نہیں کریں گے؟ ہم میں سے ہر شخص چاہتا ہے کے ہم باعزت ہو۔ اور با عزت شخص کون ہوتا ہے؟ جو عاجزی کرنے والا ہو۔ عاجزی میں معذرت قبول کرنا بھی شامل ہے۔

اللہ اسے اونچا کر دیتا ہے: روایت ہے حضرت عمر رضی الله عنہ سے آپ نے منبر پر فرمایا: اے لوگو! انکساری اختیار کرو کیونکہ میں نے رسول الله ﷺ کو فرماتے سنا کہ جو الله تعالیٰ کے لیے انکسار و عجز کرتا ہے الله اسے اونچا کردیتاہے تو وہ اپنے دل کا چھوٹا ہوتا ہے اور لوگوں کی نگاہ میں بڑا اور جوغرورکرتا ہے الله تعالیٰ اسے نیچا کردیتا ہے تو وہ لوگوں کی نگاہ میں چھوٹا ہوتا ہے اور اپنے دل میں بڑا حتی کہ وہ لوگوں کے نزدیک کتے اور سؤر سے زیادہ ذلیل ہوتا ہے۔ (شعب الایمان، 6/276، حدیث: 8140)

رب کے نزدیک سؤر جیسا ذلیل ہونا کوئی پسند کر سکتا ہے؟ اللہ پاک ہمیں عاجزی بالاخلاص کرنے والا بنائے۔ آمین یا رب العالمین بجاہ خاتم النبیینﷺ


حضور نبی اکرم ﷺ اللہ  کے سب سے بڑھ کر محبوب رسول ہونے کے باوجود اتنے بڑے عبادت گزار تھے کہ تمام سابقین انبیائے کرام علیہم السلام کی مقدس زندگیوں میں اس کی مثال ملنی دشوار ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ انبیائے کرام علیہم السلام کے بارے میں صحیح طور سے یہ بھی نہیں معلوم ہو سکتا کہ ان کی عبادت کا طریقہ کیا تھا اور وہ کس وقت کون سی عبادت کرتے تھے۔ لیکن حضور پر نور ﷺْ کے عبادات کو آپ کے صحابہ نے ملاحظہ فرمایا اور گھر میں جو عبادت کرتے اسے ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن نے اپنی یاداشت میں محفوظ کیا اور ساری امت کو بتا دیا ۔

نماز: آقا ﷺْ کی عبادات میں سے ایک اہم عبادت نماز ہے ۔ رسول پاک ﷺْ کو اپنی نماز سے بہت محبت تھی ۔جب آپ بیمار ہوئے(جس میں آپ کا ظاہری وصال ہوا)تو آپ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو نماز کے لیے مقدم فرمایا اور خود اس حالت میں ان کے پیچھے نماز ادا فرمائی۔

(بخاری،1/284،حدیث:713)

آپ ساری ساری رات رکوع وسجود میں گزارتے حتی کہ آپ کے پائے(پاؤں مبارک) میں ورم آ جاتا ،جب آپ سے عرض کی جاتی کہ آپ کے سبب ہی تو اللہ نے آپ کے اگلوں اور پچھلوں کے گناہ معاف کیے ہیں تو فرماتے :کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟(مسلم ، ص 1160 حدیث 7126)

اعلانِ نبوت سے پہلے بھی آپ غار حرا میں قیام اور ذکر و فکر کے طور پر خدا کی عبادت میں مصروف رہتے۔ حدیثِ پاک ہے: حضور ﷺْ نے فرمایا: نماز نور ہے۔ (مسلم، ص140،حدیث:223)

شبِ معراج میں آپ کو پنجگانہ نماز کا تحفہ دیا گیا۔حضور ﷺْ پنجگانہ نماز کے علاوہ نمازِ اشراق،نمازِ چاشت، تحیۃ الوضو،صلوۃ الاوابین وغیرہ سنن و نوافل بھی ادا فرماتے تھے۔راتوں کو اٹھ اٹھ کر نمازیں پڑھتے تھے۔ تمام عمر نماز تہجد کے پابند رہے۔بعض روایتوں میں آیا ہے کہ آپ ساری رات عبادت کرتے اور لمبی لمبی سورتیں نماز میں پڑھا کرتے کبھی رکوع وسجود طویل ہوتا تو کبھی قیام طویل ہوتا۔(صحاح ستہ وغیرہ کتب حدیث) چنانچہ

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺْ نے کھڑے ہوکر نماز پڑھی اور ایک آیت قرآن کو پڑھتے پڑھتے رات تمام کر دی۔(شمائل ترمذی،ص232)

رمضان شریف میں خصوصا آخری عشرے میں آپ کی عبادت بہت زیادہ بڑھ جاتی تھی۔آپ ساری رات بیدار رہتے نمازوں کے ساتھ ساتھ کبھی کھڑے ہو کر کبھی بیٹھ کر دعائیں مانگا کرتے ۔(صحاح ستہ وغیرہ کتب حدیث)

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ پاک کے پیارے حبیب ﷺ نے ارشاد فرمایا: جنت کی چابی نماز ہے اور نماز کی چابی وضو۔(ترمذی،1/85،حدیث:4)

حضور ﷺ نے فرمایا: میری آنکھوں کی ٹھنڈک نمازمیں ہے۔(معجم کبیر،20 / 420،حدیث:1012) سرکار عالی وقار،مدینے کے تاجدار ﷺ نے ارشاد فرمایا: نماز دین کا ستون ہے جس نے نماز کو قائم رکھا اس نے دین کو قائم رکھا اور جس نے اسے(نماز کو)چھوڑا اس نے دین کو گرا دیا۔(منیتہ المصلی)

ہر عبادت سے برتر عبادت نماز ساری دولت سے بڑھ کر ہے دولت نماز

اللہ ہمیں تمام تر ظاہری وباطنی آداب کے ساتھ نمازیں اور نوافل ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ


دینِ اسلام کے پانچ ارکان ہے جن میں سب سے زیادہ اہمیت نماز کی بھی ہے کہ نماز معراج کی رات ہمارے پیارے آقا ﷺ کو تحفے میں ملی۔نماز ہی ہے جس کے بارے میں قیامت کے دن سب سے پہلے سوال کیا جائے گا۔نماز ہی جنت کی کنجی ہے۔ نماز رب  کو راضی کرنے کا ذریعہ ہے۔اس کے علاوہ نماز کا ذکر قرآنِ پاک اور احادیثِ مبارکہ میں بکثرت ملتا ہےجیسا کہ سورۂ بقرہ کی آیت نمبر 43 میں اللہ پاک کا ارشاد ہے:

وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِیْنَ(43)(پ1،البقرۃ:43)ترجمہ کنز الایمان:اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔

نماز کی اہمیت و محبت ہمیں رسول پاک ﷺکے عمل مبارک سے بھی معلوم ہوتی ہے کہ آپ نے نماز کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک فرمایا۔(معجم کبیر،20 / 420،حدیث:1012)

جب نماز کا وقت ہوتا تو آقا کریم ﷺ حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرماتے:اے بلال اٹھو اور ہمیں نماز سے راحت پہنچاؤ۔(ابو داود،4/ 385، حدیث:4986)

حضرت اسود بن یزید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے آپ ﷺ کی رات کی نماز کے متعلق پوچھا کہ رات کو آقا ﷺ کا معمول کیا تھا؟ فرمایا: آپ رات کے پہلے حصےمیں سوجاتے پھر اٹھ کے قیام فرماتے تھے اس کے بعد جب سحری کا وقت قریب ہوتا تھا تو وتر ادا فرماتے پھر اپنے بستر پر تشریف لے آتے پھر اگر آپ کو رغبت ہوتی تو اپنی اہلیہ کے پاس جاتے پھر جب آپ اذان سنتے تو تیزی کے ساتھ اٹھتے اگر غسل کی حاجت ہوتی تو غسل ورنہ صرف وضو فرمالیتے اور نماز کے لیے تشریف لے جاتے۔

(شمائل ترمذی، ص161، حدیث:252)

رمضان المبارک میں پیارے آقا اﷺ کی عبادت بہت زیادہ بڑھ جایا کرتی تھی آپ ساری رات بیدار رہتے اور اپنی ازواجِ مطہرات سے بے تعلق ہوجایا کرتے تھے اپنے گھر والوں کو نماز کے لیے جگایا کرتے تھے اور عموماً اعتکاف فرماتے ۔نمازوں میں کبھی کھڑے ہوکر کبھی بیٹھ کر کبھی سر بسجود ہوکر نہایت آہ وزاری اور گریہ و بکا کے ساتھ گڑگڑاکر راتوں میں دعائیں مانگتے۔(صراط الجنان،8/377)

حضرت عبد اللہ بن شنحیر نبیِ کریم اﷺ کی کیفیت نماز کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نبی ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو آپ نماز پڑھ رہے تھے اور رونے کی وجہ سے آپ کے سینے سے ایسی آوازیں نکل رہی تھیں جیسی ہنڈیاں کی آواز ہوتی ہے۔(ابو داود،1/ 342، حدیث:904)

ان تمام احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ آپ کو نماز سے کس قدر محبت تھی کہ آپ فرض نماز کے ساتھ نوافل کا بھی بہت زیادہ اہتمام فرمایا کرتے ۔آپ پر تہجد کی نماز بھی فرض تھی۔

نماز کی اہمیت اور آپ کی نماز سے محبت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ خود رب نے پیارے آقا ﷺ کو اس کا حکم ارشاد فرمایا: وَ اْمُرْ اَهْلَكَ بِالصَّلٰوةِ وَ اصْطَبِرْ عَلَیْهَاؕ-لَا نَسْــٴَـلُكَ رِزْقًاؕ-نَحْنُ نَرْزُقُكَؕ-وَ الْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوٰى(۱۳۲)(پ16،طہ:132)ترجمہ کنز العرفان:اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دو اور خود بھی نماز پر ڈٹے رہو۔ ہم تجھ سے کوئی رزق نہیں مانگتے(بلکہ)ہم تجھے روزی دیں گے اور اچھاانجام پرہیزگاری کے لیے ہے۔

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تونبیِ کریم ﷺ آٹھ ماہ تک حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دروازے پرصبح کی نمازکے وقت تشریف لاتے رہے اور فرماتے: نماز ،اللہ پاک تم پر رحم فرمائے۔پھر یہ آیت تلاوت فرماتے:اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳)(پ22،الاحزاب:33) ترجمۂ کنزالایمان : اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی دور فرمادے اور تمہیں پاک کر کے خوب ستھرا کردے۔

( تاریخ ابن عساکر ، 42 / 136، حدیث :8518)

نَماز و روزہ وحَجّ و زکوٰۃ کی توفیق عطا ہو اُمّتِ محبوب کوسدا یارب

اللہ پاک پیارے آقا ﷺ کی نمازوں کے صدقے ہمیں بھی خوب ذوق و شوق اور خشوع و خضوع سے نماز پڑھنے کی سعادت نصیب فرمائے۔آمین

1-اللہ کریم کے آخری نبی ﷺ کو نمازسے بہت محبت تھی،آپ نے نماز کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک فرمایا۔ (معجم کبیر،20 / 420،حدیث:1012)جب نماز کا وقت ہوتاتو آقاکریم ﷺ حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرماتے:قُمْ یا بِلَالُ فَاَرِحْنَا بِالصَّلَاۃِاے بلال!اٹھو اور ہمیں نماز سے راحت پہنچاؤ۔

(ماہنامہ فیضان مدینہ ستمبر 2023 ربیع الاول 1445 ،ص21،22)

2-حضرت عبداللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ اللہ پاک کے آخری نبی ﷺ کی کیفیتِ نماز کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:ایک مرتبہ میں اللہ کے آخری نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نماز پڑھ رہے تھے اور رونے کی وجہ سے آپ کے سینے سے ایسی آواز نکل رہی تھی جیسی ہنڈیا کی آواز ہوتی ہے۔

(ماہنامہ فیضان مدینہ ستمبر 2023 ربیع الاول 1445،ص 21،22)

ان دونوں روایات سے رسولِ کریم ﷺ کی نماز سے محبت اور خشوع و خضوع کا اندازہ ہوتا ہے،کریم آقا ﷺ کی امتی ہونے کے ناطے ہمیں بھی نماز کو واقعی اپنی راحت و سکون کا ذریعہ بنانا چاہئے۔

3- شبِ معراج پانچوں نمازیں فرض ہونے کے بعد ہمارے پیارے پیارے آقا،مکی مَدَنی مصطَفٰے ﷺ نے اپنی حیاتِ ظاہِری(یعنی دُنیوی زندگی)کے گیارہ سال چھ ماہ میں تقریباً 20 ہزار نمازیں ادا فرمائیں(در مختار،2/6 ماخوذا،وغیرہ)تقریباً 500 جمعے ادا کئے(مراٰۃ المناجیح،2/346)ا ور عید کی 9نمازیں پڑھیں۔ (سیرت مصطفٰے،ص 249 ملخصاً)قرآنِ کریم میں نماز کا ذِکر سینکڑوں جگہ آیا ہے۔

اے خوش نصیب عاشقاتِ نماز!میرے آقا اعلیٰ حضر ت رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں:نماز پنج گانہ(یعنی پانچ وقت کی نمازیں)اللہ پاک کی وہ نعمتِ عظمیٰ ہے کہ اس نے اپنے کرمِ عظیم سے خاص ہم کو عطا فرمائی ہم سے پہلے کسی اُمّت کو نہ ملی۔(فتاویٰ رضویہ،5/43)

4-حضرت عائشہ صِدّیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:رسولِ کریم ﷺ نماز میں اس قدرقیام فرماتے کہ آپ کے مُبارک پاؤں سُوج جاتے۔(ایک دن) حضرت عائشہ صِدّیقہ رضی اللہ عنہا نے عَرض کی:یارسول اللہ ﷺ! آپ ایسا کر رہے ہیں حالانکہ اللہ کریم نے آپ کے سبب آپ کے اگلوں اور پچھلوں کے گناہ بخش دئیے ہیں!آقا کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:اَفَلَا اَکُوْنُ عَبْدًا شَکُوْرًا کیا میں اللہ پاک کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟(مسلم ، ص 1160 حدیث 7126)

جاننا چاہیے کہ نماز تمام عبادتوں میں افضل و اشرف اور اتم و اکمل عبادت ہے اور نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا: جُعِلَتْ قُرَّهُ عَيْنِي فِي الصَّلوۃ نماز میں میری آنکھوں کی ٹھنڈک رکھی گئی ہے۔

(سننِ کبری للنسائی،5/280،حدیث:8888)

حضور اکرم ﷺ خانہ دل میں جو خوشی و مسرت، آنکھوں کی روشنی اور خوش دلی رکھتے اور جوذوق و مشاہدہ اس وقت میں پاتے وہ کسی عبادت اور کسی وقت میں نہ پاتے ۔قرۃ العین،مقصود اور غیب سے نور پانے میں فرحت و سرور سے کنایہ ہے۔قرۃ،قَربفتح قاف سے بنا ہے جس کے معنی قرار و ثبات کے ہیں۔ اس لیے کہ نظارہ محبوب سے آنکھ کو جتنا قرار وسکون ملتا ہے کسی اور چیز سے حاصل نہیں ہوتا اور حالت سرور خوش حالی میں اپنی جگہ ساکن رہتی ہےاور غیر محبوب پر نظر ڈالنے سے نظر پراگندہ اور متلاشی محبوب رہتی ہے اور حزن و خوف کی حالت میں لرزاں و سرگرداں ہوتی ہے۔یا قرۃ یہ،قُر بضم قاف سے بنا ہے جس کے معنی ٹھنڈک کے ہیں اور محب کی لغت میں آنکھوں کی ٹھنڈک محبوب کے مشاہدہ سے ہوتی ہے ۔

اعداء کے دیکھنے میں گرمی و سوزش ہوتی ہے۔ اسی بنا پر فرزند کو قرۃ العین کہتے ہیں۔ نماز میں ظاہر و باطن اور قلب و جوارح سب کے سب بدرگاہ قرب و عزت حق سبحانہ متوجہ و مشغول ہیں۔اللہ پاک نے ہر نمازی کے لیے ایک رکعت میں وہ تمام عبادتیں جمع فرمادی ہیں جو تمام فرشتوں میں جدا جدا بنائی گئی ہیں، یہ ایسا مجموعہ عبادات ہے جو کسی اور عبادت میں جمع نہیں ہے۔طہارت،صحت استقبال قبلۂ استفتاح،یعنی تکبیر تحریمہ،تکبیرات،قرأت قیام رکوع،سجود،تسبیح،دعا توجہ حضور قلب اور خشوع و خضوع وغیرہ ہر ایک ان میں سے مستقل عبادت ہے۔ کس خوبی سے ان سب کو ایک ہی طریقہ عبادت میں جمع فرمایا ہے اور اس جامعیت کیسا تھ یہ کتنی عجیب خوبی ہے کہ یہ حضور ﷺ کی اس نماز کے مشابہ ہے جس کی حقیقت تمام برکات و کمالات کی جامع ہے اور اسی تعلق و مناسبت سے حضور اکرم ﷺ نے قرۃ العین فرمایا۔

(مدارج النبوہ،ص431)

حضور ﷺ کی مبارک حیات ہمارے لیے مشعل راہ اور عمل کے لیے بہترین نمونہ ہے۔ آئیے!حضور ﷺ نماز سے کس قدر محبت فرماتے اور اس کی کتنی تاکید فرماتے اس کے بارے میں پڑھتی ہیں:

نماز اور ماتحتوں کا خیال رکھو:ام المومنین حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ نبیِ کریم ﷺ اپنے مرضِ وصال(یعنی جس بیماری میں ظاہری وفات شریف ہوئی اُس)میں فرماتے تھے:نماز کو پابندی سے ادا کرتے رہو اور اپنے غلاموں کا خیال رکھو ۔(ابن ماجہ، 2 / 282 ،حدیث:1625)

حضرت علامہ مولانا مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں:یعنی نماز کی پابندی و حفاظت کرو مرتے دم تک نہ چھوڑو ۔معلوم ہوا کہ نماز بڑا ہی اہم فریضہ ہے کہ حضور ﷺ نے خصوصیت سے اس کی وصیت فرمائی،سعادت مند اولاد باپ کی وصیت سختی سے پوری کرتی ہے ۔ سعادت مند امتی وہ ہے جو حضور ﷺ کی اس وصیت پر سختی سے پابندی کرے،اللہ پاک توفیق دے۔

(مراۃ المناجیح،5/166 مختصر)

مبارک پاؤں پر ورم آجاتا:ہمارے پیارے آقا ﷺ کی رات کی نمازوں کی کیفیت اللہ اللہ!حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ بیان فرماتے ہیں کہ مصطفےٰ جانِ رحمت ﷺ نے رات کی نماز میں اتنا طویل قیام فرمایا کہ مبارک قدم سوج گئے ۔عرض کی گئی:آقا!آپ اتنی تکلیف کیوں اُٹھاتے ہیں ؟ آپ تو بخشے بخشائے ہیں! ارشاد فرمایا:کیامیں شکر گزار بندہ نہ بنوں ؟(مسلم،ص1160،حدیث:7126)

مرحبا!کیا خوب ہے!اللہ والوں کی نماز ان کے صدقے ہم کو بھی دے یا خدا سوز و گداز

حکیم الامت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں: یعنی میری یہ نماز مغفرت کے لئے نہیں بلکہ مغفرت کے شکریہ کے لئے ہے۔خیال رہے کہ ہم لوگ عبد ہیں حضور ﷺ عبدہ ہیں،ہم لوگ شاکر ہو سکتے ہیں حضور ﷺ شکور ہیں یعنی ہر طرح ہر وقت ہر قسم کا اعلیٰ شکر کرنے والے مقبول بندے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جنت کی لالچ میں عبادت کرنے والے تاجر ہیں ۔ دوزخ کے خوف سے عبادت کرنے والے عبد ہیں مگر شکر کی عبادت کرنے والے احرار ہیں ۔ (مراۃ المناجیح، 2/254)

رات کے قیام میں سجدے کو لمبا کرنا:حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:رسول اللہﷺ رات کو گیارہ رکعات پڑھا کرتے تھے۔یہ آپ کی(رات کی)نماز تھی۔اس میں آپ اتنا طویل سجدہ کرتے کہ اپنا سر مبارک اٹھانے سے پہلے تم میں سے کوئی پچاس آیات پڑھ لے،نیز فجر سے پہلے دو سنت ادا کرتے،پھر اپنی دائیں کروٹ پر لیٹ جاتے حتی کہ مؤذن آپ کو نماز فجر کی اطلاع دیتا۔( بخاری، 1/669)

حضورﷺ نے ہزاروں نمازیں ادافرمائیں:شبِ معراج پانچوں نمازیں فرض ہونے کے بعد ہمارےپیارے پیارے آقا،مکی مدنى مصطفى ﷺ نے اپنی حیات ظاہری(یعنی دُنیوی زندگی)کےگیارہ سال چھ ماہ میں تقریباً 20 ہزار نمازیں ادا فرمائیں(در مختار،2/6 ماخوذا،وغیرہ)تقریباً 500 جمعے ادا کئے(مراٰۃ المناجیح،2/346) اور عید کی 9نمازیں پڑھیں ۔(سیرت مصطفٰے،ص 249 ملخصاً)قرآنِ کریم میں نماز کا ذکر سینکڑوں جگہ آیا ہے۔

اے خوش نصیب عاشقاتِ نماز!میرے آقا ،اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:نماز پنج گانہ(یعنی پانچ وقت کی نمازیں)اللہ پاک کی وہ نعمت عظمی ہے کہ اس نے اپنے کرم عظیم سے خاص ہم کو عطا فرمائی ہم سےپہلےکسی امت کو نہ ملی ۔(فتاویٰ رضویہ، 5/43)

اللہ کریم ہمیں نعمتوں کی قدردان بنائے،پانچوں نمازوں کی پابند بنائے اور حضور ﷺ کی سنتوں پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

حضور نبیِ کریم، مکی مدنی مصطفےٰﷺ دین کی تعلیم و تبلیغ کی رات دن کی مصروفیات کے باوجود اللہ پاک کی بہت زیادہ عبادت کیا کرتے تھے۔آپ اعلانِ نبوت سے پہلے بھی غارِ حرا میں قیام ومراقبہ اور ذکروفکر کے طور پر اللہ کریم کی عبادت میں مصروف رہتے تھے۔آپ بعض اوقات ساری ساری رات عبادتِ الٰہی میں گزار دیتے اور طویل قیام فرمانے کی وجہ سے آپ کے قدمین شریفین سوج جاتے تھے۔چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:رسول اللہﷺ نماز میں اس قدر قیام فرماتے کہ مبارک پاؤں سوج جاتے ،ایک مرتبہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا  نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ!آپ ایسا کر رہے ہیں۔ حالانکہ اللہ پاک نے آپ کے سبب آپ کے اگلوں اور پچھلوں کے گناہ بخش دئیے ہیں!تو آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا میں اللہ پاک کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟(مسلم،ص1160،حدیث:7126)

نبی کریمﷺ کی نماز سے محبت:

اللہ کریم کے آخری نبیﷺ کو نماز سے اس قدر محبت تھی کہ اللہ پاک کے آخری نبیﷺ نے نماز کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک فرمایا۔(معجم کبیرہ،20/420،حدیث:1012)جب نماز کا وقت ہوتا تو آقا کریمﷺ حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرماتے: اے بلال!اٹھو اور نماز سے ہمیں راحت پہنچاؤ۔

(ابوداود،4/385، حدیث:4986)

نبی کریمﷺ کی نماز کی کیفیت:

حضرت عبداللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ اللہ پاک کے آخری نبیﷺ کی نماز کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ایک مرتبہ میں اللہ پاک کے آخری نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نماز پڑھ رہے تھے اور رونے کی وجہ سے آپ کے سینے مبارک سے ایسی آواز آ رہی تھے جیسی ہنڈیا کی ہوتی ہے۔

(ابوداود،1/342، حدیث:904)

ان دونوں روایات سے حضور پاکﷺ کی نماز سے محبت اور خشوع وخضوع کا اندازہ ہوتا ہے۔آقا کریمﷺ کی امتی ہونے کے ناطے ہمیں بھی نماز کو واقعی اپنی راحت و سکون کا ذریعہ بنانا چاہیے۔ حضور پاکﷺ نے ارشاد فرمایا: اَلصَّلاۃ نُورٌ یعنی نماز نور ہے۔(مسلم،ص115،حدیث534)ہم سب جانتی ہیں کہ لائٹ کا مقصد روشنی دینا ہے اور اسی مقصد کو حاصل کرنے کیلئے عموماً ٹیوب لائٹ بلندی پر لگائی جاتی ہے لیکن جب یہ ٹیوب لائٹ خراب ہو کر روشنی دینا چھوڑ دیتی ہے تو ہم اسی ٹیوب لائٹ کو اتار کر کوڑا دان پھینک دیتی ہیں کیونکہ اصول یہ ہے کہ بے مقصد چیز کو کوئی مقام نہیں دیا جاتا ۔ہم انسانوں کو پیدا کیے جانے کا مقصد اللہ رب العزت کی عبادت کرنا ہے اور عبادت میں نماز کو بہت زیادہ اہمیت اور فضیلت حاصل ہے۔ اللہ پاک کے پیارے نبی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تو اپنے لیے اور اپنی اولاد کیلئے نماز کے بارے میں دعا بھی کی جس کا ذکر قرآنِ پاک میں کچھ یوں ہے:رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوةِ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ ﳓ رَبَّنَا وَ تَقَبَّلْ دُعَآءِ(۴۰) (پ13،ابراہیم:40)ترجمہ: اے ہمارے رب مجھے نماز کا قائم کرنے والا رکھ اور کچھ میری اولاد کو اے ہمارے رب اور ہماری دعا سن لے۔

حقوق اللہ میں نماز کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ روزِ قیامت تمام حقوق اللہ میں سب سے پہلے اسی کے متعلق سوال کیا جائے گا۔چنانچہ حدیثِ پاک میں ہے : کل قیامت کے دن بندے سے سب سے پہلے اس کی نماز کے بارے میں سوال ہو گا۔(نسائی،ص652،حدیث:3997)اس حدیثِ پاک کے تحت حضرت علامہ عبد الرؤف منافی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:بیشک نماز ایمان کی علامت ہے اور اصل عبادت ہے۔

(التیسیر، 1/391)

رحمتِ عالم نورِ مجسمﷺ نے نماز کو نور قرار دیا ہے اس کی وضاحت ملاحظہ کیجئے:جیسے روشنی گڑھوں میں گرنے سے بچاتی ہے ایسے ہیں نماز بے حیائی اور اس جیسے کئی گناہوں کے گڑھے میں گرنے سے بچاتی ہے۔ قیامت کے دن نمازی کیلئے اجر وثواب نور بن کر ظاہر ہوگا نمازیوں کے چہرے بروزِ قیامت نور کی طرح چمک رہے ہوں گے۔نورِ نماز دنیا و آخرت میں نمازی کے چہرے سے ظاہر ہوگا۔نماز مسلمان کے دل، چہرے،قبر اور قیامت کی روشنی ہے۔(شرح نووی،2/101 ماخوذاً)( مراۃ المناجیح،1/232ماخوذاً)

ذرا غور کیجئے کہ نماز قیامت کے دن نور بن کر ظاہر ہوگی اور نمازی بخش دئیے جائیں گے۔نمازی نماز کے ذریعے اپنی قبر کو روشن کرتی اور راحت پاتی ہے۔ ہم نماز میں اتنی سستی کرتی ہیں کہ ذہن بناتی ہیں کہ کل پڑھ لیں گی لیکن کیا یہ نہیں سوچتیں کہ کل آئے گی بھی یا نہیں!اس لئے ہمیں بھی حضور پاکﷺ کی امتی ہونے کی ناطے نماز کو باقاعدگی سے پڑھنا چاہیے کیونکہ نماز سے انسان کو دلی سکون حاصل ہوتا ہے اور انسان کی مشکلات آسانیوں میں بدل جاتیں ہیں۔چونکہ نماز مومن کی معراج ہے اسی لئےنماز نمازی کےلئے ذریعہ نجات ہوگی ۔ اللہ پاک ہمیں حقیقی معنوں میں پانچ وقت کی نماز پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

حضورِ اکرم ﷺ دینِ اسلام کی تعلیم و تبلیغ کی دن رات کی مصروفیات کے باوجود اللہ رب العزّت کی بہت عبادت کیا کرتے تھے۔ اعلانِ نبوت سے پہلے بھی غارِ حرا میں قیام و مراقبہ اور ذکر و فکر کے طور پر اللہ کریم کی عبادت میں مصروف رہتے تھے۔چنانچہ شبِ معراج پانچوں نمازیں فرض ہونےکے بعد ہمارے پیارے پیارے  آقا،مکی مدنی مصطفےٰ ﷺ نے اپنی حیات ظاہری(یعنی دنیوی)زندگی کے گیارہ سال چھ ماہ میں تقریباً 20 ہزار نمازیں ادافرمائیں۔ (در مختار،2/6 وغیره ما خوذاً)تقریباً 500 جمعے ادا کئے۔(مراۃ المناجیح،2/ 346) عید کی 9 نمازیں پڑھیں ۔( سیرت مصطفےٰ ص 249ملخصاً)

قرآنِ پاک میں ارشاد باری ہے:وَ اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِؕ-وَ اِنَّهَا لَكَبِیْرَةٌ اِلَّا عَلَى الْخٰشِعِیْنَۙ(45) (پ1،البقرۃ: 45)ترجمہ:اور صبر اور نماز سے مدد چاہو اور بےشک نماز ضرور بھاری ہے مگر ان پر جو دل سے میری طرف جھکتے ہیں۔

آئیے!احادیثِ مبارکہ ملاحظہ فرما ئیے:

1-حدیثِ پاک میں ہے:حضورﷺ کے گھر میں فاقہ ہوتا تھا اور رات میں کچھ ملاحظہ نہ فرماتے(یعنی کچھ نہ کھاتے)تھے اور بھوک غلبہ کرتی تھی تو نبیِ کریم ﷺ مسجد میں تشریف لا کر نماز میں مشغول ہوتے تھے۔

(تفسیر نعیمی،1/299 تا300)

2- حضرت عائشہ صِدّیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:رسولِ کریم ﷺ نماز میں اس قدرقیام فرماتے کہ آپ کے مُبارک پاؤں سُوج جاتے۔(ایک دن) حضرت عائشہ صِدّیقہ رضی اللہ عنہا نے عَرض کی:یارسول اللہ ﷺ!آپ ایسا کر رہے ہیں حالانکہ اللہ کریم نے آپ کے سبب آپ کے اگلوں اور پچھلوں کے گناہ بخش دئیے ہیں!آقا کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اَفَلَا اَکُوْنُ عَبْدًا شَکُوْرًا کیا میں اللہ پاک کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟(مسلم،ص1160،حدیث:7126)

نبیِّ پاک ﷺ کی نمازکی کیفیت:

3- حضرت عبداللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ اللہ پاک کے آخری نبی ﷺ کی کیفیتِ نماز کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:ایک مرتبہ میں اللہ کے آخری نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نماز پڑھ رہے تھے اور رونے کی وجہ سے آپ کے سینے سے ایسی آواز نکل رہی تھی جیسی ہنڈیا کی آواز ہوتی ہے۔

(ابوداود،1/ 342،حدیث:904)

نبیِّ پاک ﷺ کی نمازسےمحبت:

4- اللہ کریم کے آخری نبی ﷺ کو نمازسے بہت محبت تھی،حضورﷺ نے فرمایا:نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔(معجم کبیر،20 / 420،حدیث:1012)

5-جب نماز کا وقت ہوتاتو آقا کریم ﷺ حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرماتے:قُمْ یا بِلَالُ فَاَرِحْنَا بِالصَّلَاۃِاے بلال!اٹھو اور ہمیں نماز سے راحت پہنچاؤ۔(ابوداود،4 / 385،حدیث:4986)

نماز میں شفا ہے:

6- حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار میں نماز پڑھ کر سر کار مدینہ ﷺ کے پاس بیٹھ گیا، آپ نے فرمایا:کیا تجھے پیٹ میں درد ہے؟ میں نے عرض کی:جی ہاں ۔ فرمایا:قم فصَلِّ،فَإِنَّ فِي الصَّلاةِ شِفَاء یعنی اٹھو اور نماز پڑھو کیونکہ نماز میں شفا ہے۔(ابن ماجہ،3/98، حدیث:3458)

نماز کے 25مختلف فضائل:

اللہ پاک کی خوش نودی کا سبب نماز ہے۔ مکی مدنی آقا ﷺ کی آنکھوں کی ٹھنڈک نماز ہے۔(معجم کبیر،20 / 420،حدیث:1012) انبیائے کرام علیہم السلام کی سنت نماز ہے۔نماز اندھیری قبر کا چراغ ہے۔نماز عذاب قبر سے بچاتی ہے۔نماز قیامت کی دھوپ میں سایہ ہے۔نماز پل صراط کے لیے آسانی ہے۔نماز نور ہے۔(مسلم،ص140،حدیث:223)نماز جنت کی کنجی ہے۔نماز جہنم کے عذاب سے بچاتی ہے۔نماز سے رحمت نازل ہوتی ہے۔ اللہ پاک بروز قیامت نمازی سے راضی ہوگا۔نماز دین کا ستون ہے۔نماز سے گناہ معاف ہوتے ہیں۔نماز دعاؤں کی قبولیت کا سبب ہے۔نماز بیماریوں سے بچاتی ہے۔نماز سے بدن کو راحت ملتی ہے۔نماز سے روزی میں برکت ہوتی ہے۔نماز بے حیائی اور برے کاموں سے بچاتی ہے۔نماز شیطان کو نا پسند ہے ۔نماز قبر کے اندھیرے میں تنہائی کی ساتھی ہے۔ نماز نیکیوں کے پکڑے کو وزنی بنادیتی ہے۔نماز مومن کی معراج ہے ۔نماز کا وقت پر ادا کرنا تمام اعمال سے افضل ہے۔ نمازی کے لیے سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ اُسے بروز قیامت اللہ پاک کا دیدار ہوگا۔(فیضانِ نماز،ص نمبر 11،10)

آپ کی زندگی کا ہر لمحہ اور ہر عمل عبادت و بندگی کی عظیم مثال ہے۔ نبیِ کریم ﷺ کی نماز سے محبت ایک روشن چراغ کی مانند ہے جو ہمارے لیے رہنمائی ہے۔ نماز چونکہ دین کا ستون ہےلہٰذا نماز آپ کی حیات مبارکہ میں بہت حیثیت رکھتی تھی۔آیت مبارکہ کا ترجمہ:اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِدُلُوْكِ الشَّمْسِ اِلٰى غَسَقِ الَّیْلِ وَ قُرْاٰنَ الْفَجْرِؕ-اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُوْدًا(۷8) (پ15،بنی اسرائیل: 78)ترجمہ:نماز قائم رکھو سورج ڈھلنے سے رات کی اندھیری تک اور صبح کا قرآن بےشک صبح کے قرآن میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔

قَدْ نَرٰى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِی السَّمَآءِۚ-فَلَنُوَلِّیَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضٰىهَا۪-فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِؕ-(پ2،البقرۃ:142)ترجمہ:ہم دیکھ رہے ہیں بار بار تمہارا آسمان کی طرف منہ کرنا تو ضرور ہم تمہیں پھیردیں گے اس قبلہ کی طرف جس میں تمہاری خوشی ہے ابھی اپنا منہ پھیر دو مسجد حرام کی طرف۔

آپ کی نماز سے محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نماز آپ کے دل کا سکون اور روح کی راحت تھی۔یہ وہ عمل تھا جس کے ذریعے آپ اللہ پاک سے براہ راست ہم کلام ہوتے ،اپنی حاجات پیش کرتے اور اللہ کی رضا حاصل کرتے تھے۔ آپ کی نماز کے ساتھ اتنی لگن تھی کہ آپ ساری ساری رات عبادت میں مشغول رہا کرتے تھے یہاں تک کہ نماز کو طویل کرنے کی وجہ سے آپ کے قدم شریف سوج جاتے تھے۔

اللہ کریم کے آخری،نبی محمد عربی ﷺ کی نماز سے بہت محبت تھی اور آپ نے نماز کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک فرمایا۔(معجم کبیر،20 / 420،حدیث:1012)جب نماز کا وقت ہوتا تو حضور ﷺ حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرماتے: اے بلال! اٹھو !اور ہمیں نماز سے راحت پہنچاؤ!

(ابوداود4/385،حدیث: 4986)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے نبیِ کریم ﷺ کی رات کی نماز کے متعلق پوچھا گیا کہ رات کو آقا کریم ﷺ کا کیا معمول تھا؟ تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:حضورﷺ رات کے پہلے حصہ میں سو جاتے پھر اٹھ کر قیام فرماتے تھے اس کے بعد جب سحری کا وقت قریب ہوتا تو وتر عطا فرماتے ،پھر اپنے بستر پر تشریف لے آتے، پھر اگر آپ کو رغبت ہوتی تو اپنی اہلیہ کے پاس جاتے، پھر جب اذان سنتے تو تیزی سے اٹھتے، اگر غسل کی حاجت ہوتی تو غسل فرماتے ورنہ صرف وضو فرما لیتے اور نماز کے لیے تشریف لے جاتے۔(شمائل ترمذی،ص161،حدیث:251)

نماز ایک ایسی عبادت جس کی ادائیگی کے بغیر کوئی چارہ نہیں اور نہ ہی اس کی اہمیت سے کوئی مسلمان ناواقف ہے۔ ہر خاص و عام مسلمان نماز کی فرضیت کا اقرار کرتا ہے۔قرآنِ کریم میں متعدد مرتبہ نماز کا ذکر آیا ہے جس سے اس کی اہمیت بخوبی واضح ہوتی ہے۔چنانچہ ایک جگہ رب  ارشاد فرماتا ہے:وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوة(پ1، البقرۃ:43)ترجمہ:نماز قائم رکھو اور زکوۃ دو۔

یہاں نماز قائم کرنے کا واضح حکم ارشاد فرمایا گیا،چنانچہ فرمایا:اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا(103) (پ5،النسآء: 103)ترجمہ: بے شک نماز مسلمانوں پر وقت باندھا ہوا فرض ہے۔

اسی طرح کثیر احادیثِ مبارکہ میں نماز کی ترغیب دلائی گئی ہے اور نماز سے حضور ﷺکی محبت ظاہر ہوتی ہے۔جب نماز کا وقت ہوتاتو آقاکریم ﷺ حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرماتے:قُمْ یا بِلَالُ فَاَرِحْنَا بِالصَّلَاۃِاے بلال!اٹھو اور ہمیں نماز سے راحت پہنچاؤ۔(ابوداود،4 / 385،حدیث:4986)

اللہ کریم کے آخری نبی ﷺ کو نمازسے بہت محبت تھی،آپ نے نماز کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک فرمایا۔

(معجم کبیر،20 / 420،حدیث:1012)

حضرت عائشہ صِدّیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:رسولِ کریم ﷺ نماز میں اس قدرقیام فرماتے کہ آپ کے مُبارک پاؤں سُوج جاتے۔(ایک دن)حضرت عائشہ صِدّیقہ رضی اللہ عنہا نے عَرض کی:یارسول اللہ ﷺ!آپ ایسا کر رہے ہیں حالانکہ اللہ کریم نے آپ کے سبب آپ کے اگلوں اور پچھلوں کے گناہ بخش دئیے ہیں!آقا کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اَفَلَا اَکُوْنُ عَبْدًا شَکُوْرًا کیا میں اللہ پاک کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔ ( مسلم،ص1160،حدیث:7126)

ان احادیثِ مبارکہ سے حضور ﷺ کی نماز سے محبت کا خوب صورت انداز ملتا ہے کہ آپ ﷺ کس قدر ذوق و شوق سے نماز ادا فرماتے تھے ۔ اسی طرح کثیر احادیث میں حضور ﷺ نے نماز کے فضائل بیان فرمائے ہیں۔چنانچہ

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:سوچو تو سہی اگر تم میں سے کسی کے دروازے پر نہر ہو اور وہ روزانہ اس میں پانچ دفعہ نہائے تو کیا کہتے ہو کہ اس کے جسم پر میل کچیل باقی رہ جائے گا؟ لوگ عرض گزار ہوئے کہ ذرا بھی میل باقی نہیں رہے گا۔ آپ نے فرمایا: یہی پانچوں نمازوں کی مثال ہے کہ ان کے ذریعے اللہ گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔(بخاری ،1/196،رقم:528)

اسی طرح بہت ساری احادیث میں نماز نہ پڑھنے والوں کے لیے وعیدیں بھی بیان فرمائیں اور سخت ناراضی کا اظہار فرمایا۔چنانچہ حضور پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا:جو جان بوجھ کر ایک نماز چھوڑ تا ہے،اس کا نام جہنم کےاس دروازے پر لکھ دیا جاتا ہے جس سے وہ داخل ہوگا۔(فیضان نماز،ص 425)الله کریم ہمیں نمازوں کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائےاورحضور ﷺکی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے کا سبب بنائے۔ آمین

اللہ کریم کے آخری نبی ﷺ کو نمازسے بہت محبت تھی،آپ نے نماز کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک فرمایا۔ (معجم کبیر،20 / 420،حدیث:1012)جب نماز کا وقت ہوتاتو آقاکریم ﷺ حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرماتے:قُمْ یا بِلَالُ فَاَرِحْنَا بِالصَّلَاۃِاے بلال!اٹھو اور ہمیں نماز سے راحت پہنچاؤ۔

(ابوداود،4 / 385،حدیث:4986)

1-حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے فرمایا:اُنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ بصرہ میں نماز پڑھی تو اُنہوں نے ہمیں وہ نماز یاد کروا دی جو ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ پڑھا کرتے تھے۔ بتایا کہ آپ جب بھی اُٹھتے اور جھکتے تو تکبیر کہا کرتے تھے۔(بخاری،1/271،حدیث:751)(مسند بزار9/ 26، حدیث:3532)(سنن کبری للبیہقی،2 / 68،حدیث:2326)

2-حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ،حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما نماز کوالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَسے شروع کیا کرتے تھے۔

(بخاری،1/259،حدیث: 710)( سنن ماثورہ،1 / 135تا138)

3-حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:میں نے رسول کریم ﷺ سے سوال کیا:اعمال میں سے اللہ کے نزدیک کون سا عمل محبوب ہے؟آپ نے فرمایا:وقت کے اندر نماز پڑھنا۔

(بخاری،1/194،حدیث:527)

4-حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول الله ﷺکی آخری بات(انتقال کے موقع پر)یہ تھی کہ نماز کا خیال رکھنا،نماز کا خیال رکھنا۔(ابوداود،ص1600،حدیث: 5156)

5-ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں جب سرکار مدینہ ﷺ کی بارگاہ میں سخت بیماری حاضر ہوئی حضرت بلال رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کو نماز کی اطلاع دینے کے لیے حاضر ہوئے تو آپ نے ارشاد فرمایا:ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو جماعت کروائے پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز پڑھانے میں مشغول تھے تو اتنے میں سرکار ﷺ نے مبارک طبیعت میں کچھ بہتری محسوس کی اور دو صحابہ کو سہارے کی سعادت عطا فرما کر مسجد کی جانب تشریف لے چلے، آپ ﷺکے مبارک قدم زمین پر لگ رہے تھے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ کے مبارک قدموں کی آہٹ محسوس کی تو پیچھے ہٹنے لگے آپ ﷺ نے ان کو اشارہ کیا کہ پیچھے نہ ہٹیں پھر آپ ﷺ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے قلب کی جانب بیٹھ گئے،صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر اور حضور ﷺ بیٹھ کر نماز پڑھ رہے تھے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ حضور کی اقتدا میں نماز پڑھ رہے تھے اور لوگ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے ۔

(بخاری،1/284،حدیث:713ملخصاً)

آپ نے پڑھا کہ حضور ﷺ کی نماز سے کیسی محبت تھی کہ بیمار ہونے کے باوجود نماز نہیں چھوڑی! امتی کو بھی نماز ادا کرنی چاہیے۔اللہ پاک پابندی کے ساتھ نمازادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

نماز اللہ کی وہ نعمت عُظمٰی ہے کہ جو معراج کے موقع پر حضور ﷺ کو اللہ کی طرف سے تحفہ کی صورت میں ملی۔ اُمتِ محمدیہ سے پہلے کسی اور اُمت کو یہ نعمت نہیں ملی۔اللہ نے قرآنِ کریم کے پارہ 16 سورۂ طٰہٰ، آیت نمبر14 میں ارشاد فرمایا: وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِیْ(14)ترجمہ کنزالایمان: اور میری یاد کے لیے نماز قائم رکھ۔تو حضور ﷺ نے حَیات ظاہری کے گیارہ سال چھ ماہ میں تقریباً 20 ہزار نمازیں ادا فرمائیں۔ (درّمختار، 2/6 ماخوذاً) تقریباً 5سو جُمعے ادا کئے۔(مراۃ المناجیح، 2/346)اور عید کی 9 نمازیں پڑھیں۔(سیرِتِ مصطفیٰ،ص249)لہٰذا آپ ساری ساری رات عبادتِ الٰہی میں گزار دیتے ۔

1-اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور ﷺ نماز میں اِس قدر قیام فرماتےکہ آپ کے مبارک پاؤں سُوج جاتے۔ ( مسلم ،ص1160،حدیث7126)

2-اُمُّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے حضور ﷺ کی رات کی نماز سے متعلق پوچھا گیا کہ حضور ﷺ کا کیا معمول تھا؟ فرماتی ہیں کہ آپ رات کے پہلے حصہ میں سو جاتے، پھر اُٹھ کر قیام فرمایا کرتے،اِس کے بعد جب سحری کا وقت قریب ہوتا تو آپ وتر ادا فرماتے۔

(شمائلِ ترمذی،ص161،حدیث 251)

3-رمضان شریف میں خصوصاً آخری عشرہ میں آپ کی عبادت بہت بڑھ جایا کرتی۔آپ ساری رات بیدار رہتے اور اپنی ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہنَّ سے بے تعلق ہو جایا کرتے۔(تفسیر صراط الجنان،8/377)

ہمارے پیارے آقا ﷺ دونوں جہاں کے سلطان ہونے کے باوجود ہمیشہ عبادت الٰہی میں مشغول رہتے اور نماز کو راحت و سکون کا زریعہ سمجھتے،انتہائی خشوع وخضوع کے ساتھ نماز ادا فرماتے، ہر وقت اللہ کے ذکر میں مصروف رہتے ۔ اتنی عبادت کرنے کے باوجود مزید عبادت کی توفیق کی دعا کرتے ۔یقیناً آقا ﷺ کا ذوقِ عبادت ہمیں ترغیب دیتا ہے کہ ہم بھی نماز سے محبت کریں اور نماز کے ذریعے آقا ﷺ کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے کی کوشش کریں۔ اللہ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں آقا کریم ﷺ کے ذوقِ عبادت میں سے کچھ حصہ نصیب فرمائے اور استقامت کی توفیق بخشے۔ آمین