
معذرت کا معنی معذرت کا معنی معافی مانگنا معذرت
انگریزی میں apology،
چاہنا کسی حرکت بات یا صورتحال پر تاسف اور افسوس کا اظہار ہے معذرت کبھی خود کسی
وجہ سے رونما کیفیت اور ہو سکتی ہے اور کبھی اپنے متعلقین کی وجہ سے جو ہوا اس کی
وجہ سے بھی ممکن ہے۔
معذرت کے اردو معنی عذر حیلہ بہانہ معافی درگزر دراصل
معذرت کا مطلب بھی معافی ہی ہوتا ہے تاہم معذرت کرتے ہوئے معافی کے لفظ کی اصل بھی
عربی ہے جس کا معنی ہوتا ہے رہائی خلاصی نجات عفو معاف دوسروں کی حرکت یا بات پر
معذرت اس وقت ممکن ہے جب خطا کار کا کسی شخص سے کچھ تعلق ہو جیسے کہ کسی شرارتی
بچے کی شرارت کے لیے ممکن ہے معافی مانگنا انگلش میں معذرت کا معنی sorry
ہے۔
معاف کرنے میں فضیلت ہے احادیث مبارکہ:
جب بھی دو گرو مقابلے میں ہوں ان میں کامیاب فتح
وہی گروہ ہے جس میں عفو و معاف کرنے کا مادہ زیادہ ہو۔
حضرت محمد ﷺ نے فرمایا: جو حق پر ہونے کے باوجود
جھگڑا نہیں کرتا میں اس کے لیے اعلی جنت میں گھر کا ضامن ہوں۔ (ابو داود، 4/332،
حدیث: 4800)
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: میں نے جنت میں اونچے اور
شاندار محل دیکھے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا کہ کن لوگوں کے لیے ہیں جبرائیل
علیہ السلام نے کہا: یہ ان لوگوں کے لیے ہیں جو غصے کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو
معاف کر دیتے ہیں۔ (عوارف المعارف، ص 457 )
حضور اقدس ﷺ کا ارشاد ہے: جو شخص اپنے بھائی سے
معذرت کرے اور پھر وہ اس سے قبول نہ کرے تو اس سے اتنا ہی گناہ ہوگا جتنا محصول
ٹیکس کرنے والے کو اس کی خطا پر ہوتا ہے۔(ابن ماجہ، 4/668، حدیث: 3718)
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: جو شخص کسی کے پاس اپنی
غلطی پر معذرت کرنے کے لیے ائے تو اس سے قبول کرنا چاہیے خواہ وہ سچا ہو یا جھوٹا
اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو میرے پاس حوص کوثر تک نہ پہنچ سکے گا۔ (مستدرک، 5/213،
حدیث:7340)
سب سے زیادہ ناقص العقل وہ ہے جو غلطی پر معذرت
کرنے والوں کو معاف نہ کرے۔
غصے کے وقت معاف کرنے کی فضیلت: معاذ
بن انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص غصے کو پی
جائے جبکہ وہ بدلہ لینے پر قادر ہو اللہ تعالیٰ قیامت والے دن اسے تمام مخلوقات کے
سامنے بلائے گا اور اس سے کہے گا وہ وہ شخص جس حور عین کو چاہے اپنے لیے پسند کرے۔
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: لوگوں کو معاف کر دیا کرو
تمہاری مغفرت کر دی جائے گی۔ (مسند امام احمد، 2/525)
لوگوں کو اسی طرح معاف کرو جیسے اللہ رب العزت سے
امید رکھتے ہو کہ وہ تمہیں معاف کر دے۔
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں دو
اعمال ایسے ہیں جن کا ثواب کبھی تولا نہیں جا سکتا معاف کرنا اور انصاف کرنا اگر
عزت دینا اور معاف کرنا تمہاری کمزوری ہے تو تم دنیا کے سب سے زیادہ طاقتور انسان
ہو۔
حضرت حسن بصری فرماتے ہیں: جب امتیں بروز قیامت
اللہ کے حضور گھٹنوں کے بل گری ہوں گی تو اعلان کیا جائے گا جس کا اجر اللہ کے ذمہ
کرم پر ہے کھڑا ہو جائے تو صرف وہی لوگ اٹھ کھڑے ہوں گے جو دنیا میں لوگوں کو معاف
کر دیا کرتے ہوں گے۔
اسلامی بہنوں سونے سے پہلے سب کو معاف کرنے کی عادت
بنا لو کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہاری وجہ سے پیارے نبی ﷺ کا کوئی امتی جہنم کا ایندھن
بن جائے۔

معذرت (انگریزی Apology)
چاہنا کسی حرکت بات یا صورت حال پر تاسف اور افسوس کا اظہار ہے۔ معذرت کبھی خود کی
وجہ سے رو نما کیفیت پر ہو سکتی ہے اور کبھی اپنے متعلقین کی وجہ سے جو ہوا اس کی
وجہ سے بھی ممکن ہے۔
قرآن پاک میں معاف کرنے کی فضیلت: وَ لَمَنْ صَبَرَ وَ غَفَرَ اِنَّ ذٰلِكَ لَمِنْ عَزْمِ
الْاُمُوْرِ۠(۴۳) (پ 25، الشوریٰ: 43) ترجمہ
کنز العرفان: اور بیشک جس نے صبر کیا اور معاف کر دیا تو یہ ضرور ہمت والے کاموں
میں سے ہے۔
ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ لْیَعْفُوْا وَ لْیَصْفَحُوْاؕ-اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ
اللّٰهُ لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۲۲) (پ 18، النور:22)
ترجمہ کنز الایمان: اور چاہیے کہ معاف کریں اور درگزر یں کیاتم اسے دوست نہیں
رکھتے کہ اللہ تمہاری بخشش کرے اور اللہ بخشنے والامہربان ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَ
جَزٰٓؤُا سَیِّئَةٍ سَیِّئَةٌ مِّثْلُهَاۚ-فَمَنْ عَفَا وَ اَصْلَحَ فَاَجْرُهٗ
عَلَى اللّٰهِؕ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ(۴۰) (پ 25، الشوریٰ:40)ترجمہ کنز العرفان:
اور برائی کا بدلہ اس کے برابر برائی ہے تو جس نے معاف کیا اور کام سنواراتو اس کا
اجر اللہ (کے ذمہ کرم) پر ہے، بیشک وہ ظالموں کوپسند نہیں کرتا۔
معذرت قبول کرنے کے بارے میں احادیث ملاحظہ کیجئے:
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک الله تعالیٰ
درگزر فرمانے والا ہے اور درگزر کرنے کو پسند فرماتا ہے۔ (مستدرك، 5 / 546، حدیث: 8216)
معذرت قبول نہ کرنے والوں کے لیے وعید:
آپ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے (مسلمان) بھائی کے سامنے عذر پیش کرے اور وہ اسے
معذور نہ سمجھے یا وہ اس کا عذر قبول نہ کرے تو اس پر ٹیکس وصول کرنے والے کی مثل
گناہ ہوتا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/668، حدیث: 3718)
ہمارے پیارے نبی ﷺ کا عمل: حضرت
عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اکرم ﷺ بے حیائی کی باتیں طبعاً کرتے
تھے نہ تکلفاً اورنہ بازار میں بلند آواز سے باتیں کرتے تھے اور برائی کا جواب
برائی سے نہیں دیتے تھے لیکن معاف کردیتے تھے اور درگذر فرماتے تھے۔ حضرت عائشہ
رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ پر جو زیادتی بھی کی گئی میں نے کبھی
آپ ﷺ کو اس زیادتی کا بدلہ لیتے ہوئے نہیں دیکھا بشرطیکہ اللہ کی حدود نہ پامال کی
جائیں اور جب اللہ کی حد پامال کی جاتی تو آپ ﷺ اس پر سب سے زیادہ غضب فرماتے اور
آپ کو جب بھی دو چیزوں کا اختیار دیا گیا تو آپ ان میں سے آسان کو اختیار فرماتے بشرطیکہ
وہ گناہ نہ ہو۔
آپ ﷺ نے بدلہ کبھی نہیں لیا رسول اکرم ﷺ نے کبھی
اپنی ذات کا انتقام نہیں لیا، ہاں اگر اللہ کی حد پامال کی جاتیں تو آپ ان کا
انتقام لیتے تھے۔ (بخاری، 2/489، حدیث: 3560)
واضح رہے کہ معافی مانگنے والے کے اور جس سے معافی
طلب کی جا رہی ہو، ان کے حالات مختلف ہیں اور حالات کے اعتبار سے حکم بھی مختلف
ہے۔ جس سے معافی طلب کی جا رہی ہو، اگر اسے اندازہ ہو کہ معافی مانگنے والے کو
معاف کر دیا تو وہ دوبارہ زیادتی کرے گا اور اس کے اس عمل کی حوصلہ افزائی ہوگی،
تو ایسی صورت میں اس کے فتق یا جہالت کی اصلاح کی نیت سے اسے معاف نہ کرنا اور
جائز بدلہ لینا یا قیامت کے دن کے بدلہ سے ڈرانا جائز ہے۔ تاہم ایسے شخص کے دل میں
یہ جذبہ ہونا بہتر ہے کہ جب اصلاح ہو جائے تو اسے دل سے معاف بھی کر دے۔ نیز اگر
یہ جذبہ بھی ہو کہ اصلاح نہ ہو، تب بھی دل سے معاف کر دے؛ تاکہ قیامت میں مسلمان
بھائی کی پکڑ نہ ہو، تو یہ اعلیٰ ظرفی کی بات ہے، اگر چہ اس پر لازم نہیں۔ اسی طرح
معافی مانگنے والا اگر اپنی زیادتی پر نادم (پشیمان و پریشان) نہ ہو، بلکہ رسمی
معافی مانگ رہا ہو اور صاحب حق اسے معاف نہ کرے تو اسے قیامت کے دن کی پکڑ سے ڈرنا
چاہیے۔
البتہ اگر معافی مانگنے والا نادم ہو کر معافی مانگ
رہا ہو، لیکن صاحب حق اسے معاف نہ کر رہا ہو، تب بھی معافی مانگنے والے کو چاہیے
کہ قیامت کے دن کی پکڑ سے خوف زدہ ہو کر صاحب حق کو منانے کی کوشش کرتا رہے۔ اور
اگر وہ نہ مانے تو اللہ کے فضل سے امید ہے کہ اس کی دلی ندامت کی وجہ سے قیامت کے
دن اس کی پکڑ نہ ہوگی۔ اور جس سے معافی مانگی جا رہی ہو، اگر اس کے سامنے معافی
مانگنے والے کا عذر واضح ہو اور معاف کرنے میں کوئی شرعی یا طبعی رکاوٹ بھی نہ ہو،
نیز اس کا کوئی نقصان بھی نہ ہو تو ایسے شخص کو معاف کر دینا چاہیے۔ (تفسير کبیر، 27
/ 604)
اگر معافی چاہنے والے کو معاف نہ کرے تو یہ معاف نہ
کرنے والا خاطی ہے۔
معذرت اور معاف کرنے کی عادت ڈالیے۔ اے اللہ ! اگر
میں نے کسی کا دل دکھایا ہو یا کسی کو تکلیف پہنچائی ہو تو مجھے اخلاقی جرات اور
حوصلہ دے کہ میں اس سے معذرت کر سکوں اور اگر کسی نے مجھے تکلیف یاد رکھ پہنچایا
ہو تو مجھے توفیق دے کہ میں اسے معاف کر سکوں۔
کسی کی خامیاں دیکھیں نہ یہ میری
آنکھیں نہ
کان بھی سنیں عیبوں کا تذکرہ یارب

اللہ تعالی کی صفات میں سے ایک صفت معاف کرناہے۔
اللہ اپنے بندوں کو معاف فرمانے والا ہے اور ہمارےپیارے آقا ﷺ بھی معاف فرمانے
والے ہیں۔ اس لیے ہمیں بھی چاہیے کہ الله اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہوئے اپنے
مسلمان بھائیوں کو معاف کرنا چنا ہے ان کی معذرت قبول کرنی چاہیے۔
عفوودرگزر: عفوودرگزر ایک ایسا پانی جو غضب کینہ
اور انتقام کی آگ کو بجھا دیتا ہےاور انسان کو روحی سکون، اطمینان اور زندگی سے
لذت حاصل کرنے کا موقع فراہم کرتا۔
قرآن پاک میں ہے: وَ جَزٰٓؤُا سَیِّئَةٍ
سَیِّئَةٌ مِّثْلُهَاۚ-فَمَنْ عَفَا وَ اَصْلَحَ فَاَجْرُهٗ عَلَى
اللّٰهِؕ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ(۴۰) (پ 25، الشوریٰ:40)ترجمہ کنز العرفان:
اور برائی کا بدلہ اس کے برابر برائی ہے تو جس نے معاف کیا اور کام سنواراتو اس کا
اجر اللہ (کے ذمہ کرم) پر ہے، بیشک وہ ظالموں کوپسند نہیں کرتا۔
فرمان مصطفی : جو اپنے بھائی سے معافی مانگے اور وہ
اس کی معافی قبول نہ کرے تو وہ میرے حوض کوثر پر نہیں آئے گا۔ (معجم اوسط، 4/376، حدیث:6295)
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: لوگوں کے عذر قبول کرو تا کہ
ان کی بھائی چارگی سے فائدہ اٹھا سکو۔ (شرح درر الحکم 2/512)
فرمان مصطفی ﷺ: معاف کرنے والے کی اللہ عزت بڑھا
دیتا ہے۔ (مسلم، 1397، حدیث: 2588)
حضرت امام موسی کاظم رضی اللہ عنہ نے ایک دن اپنے
فرزندوں کو جمع کیا اور فرمایا: اے میرے بیٹو! میں تمہیں ایک ایسی نصیحت کرتا ہوں
کہ جو بھی اس پر عمل کرے گا وہ گھاٹے میں نہیں رہے گا اگر کوئی شخص تمہارے پاس آئے
اور داہنے کان میں ناپسند باتیں کہے اس کے بعد دوسری طرف جا کر بائیں کان میں تم
سے معذرت چاہے کہ میں نے کچھ نہیں کہا تو اس کے عذر کو بھی قبول کر لو۔ (كشف
الغمہ، ص 812)
فرمان مصطفی ﷺ: جس نے اپنے مسلمان بھائی سے معذرت
کی اور اس نے بلا وجہ معذرت قبول نہ کی تو اس پر ظالمانہ ٹیکس لینے والےجتنا گناہ
ہے۔ (ابن ماجہ، 4/668، حدیث: 3718)
آج ہمارے معاشرے کو زیادتی اور انتقامی جذبات کی آگ
نے ہر طرف سے جھلسا رکھا ہے۔ ہمارے اخلاق و عادات کو ظلم کی دیمک چاٹ رہی ہے ہر
طرف سے اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی آواز یں سنائی دیتی ہیں۔ غلطی اور جرم سے بڑھ
کر سزا اور برے بدلے کی کی روش ظلم در ظلم کی شکل میں دکھائی دے رہی ہے۔
افسوس کہ آج ہمارے دل، رحم و کرم، صبر و تحمل اور
عفوو در گزر جیسی اعلیٰ صفات سے یکسرخالی ہو رہے ہیں۔ آیئے عزم کریں کہ ہم سب ایسی
زندگی گزاریں گے جو اللہ اور اس کے رسول کو پسند ہواور اپنے اندر دیگر اعلیٰ صفات
کی طرح عفوو در گزرکی صفت بھی پیداکریں گے آئندہ اس یقین کے ساتھ لوگوں کو معاف
کریں گے کہ کل قیامت میں اللہ کریم عفو و درگزر کامعاملہ کرتے ہوئے ہماری غلطیاں
اور ہمارےجرائم معاف کر دے گا۔

معذرت عربی لفظ ہے، اس کے معنیٰ ہیں: الزام سے بری
ہونا، عذر قبول کرنامعذرت قبول نہ کرنا یعنی اگر کسی سے کوئی غلطی ہو جائے، اور وہ
اپنا عذر پیش کرے تو اس کا عذر قبول نہ کرے۔ معذرت قبول نہ کرنے کے برعکس جو معاف
کردینے کو ترجیح دیتا ہے اسے اللہ تعالیٰ نے اصلاح کرنے والا قرار دیا ہے اور اس
کا اجر اللہ کے ذمے ہے۔
چنانچہ قرآن پاک میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے
1۔ اِنْ تُبْدُوْا خَیْرًا
اَوْ تُخْفُوْهُ اَوْ تَعْفُوْا عَنْ سُوْٓءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَفُوًّا
قَدِیْرًا(۱۴۹)
(پ 6، النساء: 149) ترجمہ کنز الایمان: اگر تم کوئی بھلائی اعلانیہ کرو یا چھپ کر
یا کسی برائی سے درگزر تو بے شک اللہ معاف کرنے والا قدرت والا ہے۔
تفسیر صراط الجنان میں ہے: اگر تم کوئی نیک کام
اعلانیہ کرو یا چھپ کریا کسی کی برائی سے درگزر کر و تو یہ افضل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ
سزا دینے پر ہر طرح سے قادر ہونے کے باوجود اپنے بندوں کے گناہوں سے درگزر کرتا
اور انہیں معاف فرماتا ہے لہٰذا تم بھی اپنے اوپر ظلم وستم کرنے والوں کو معاف کر
دواور لوگوں کی غلطیوں سے درگزر کرو۔ (تفسیر سمرقندی، 1 / 401)
2۔ وَ لْیَعْفُوْا وَ
لْیَصْفَحُوْاؕ-اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ
غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۲۲) (پ 18،
النور:22) ترجمہ کنز الایمان: اور چاہیے کہ معاف
کریں اور درگزر یں کیاتم اسے دوست نہیں رکھتے کہ اللہ تمہاری بخشش کرے اور اللہ
بخشنے والامہربان ہے۔
3۔ وَ جَزٰٓؤُا سَیِّئَةٍ
سَیِّئَةٌ مِّثْلُهَاۚ-فَمَنْ عَفَا وَ اَصْلَحَ فَاَجْرُهٗ عَلَى اللّٰهِؕ-اِنَّهٗ
لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ(۴۰) (پ 25، الشوریٰ:40)ترجمہ کنز العرفان:
اور برائی کا بدلہ اس کے برابر برائی ہے تو جس نے معاف کیا اور کام سنواراتو اس کا
اجر اللہ (کے ذمہ کرم) پر ہے، بیشک وہ ظالموں کوپسند نہیں کرتا۔
آئیے
احادیث مبارکہ ملاحظہ فرما لیتے ہیں:
1۔ حضورﷺ نے فرمایا:۔ جو کوئی اپنے مسلمان بھائی سے
معذرت کرے اور وہ اس کا عذر قبول نہ کرے تو، اسے حوض کوثر پر حاضرہونا نصیب نہ ہو
گا۔ (معجم الاوسط، 4/376،حدیث:6295)
2۔ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے بھائی سے
معذرت کرے، اور پھر وہ اسے قبول نہ کرے تو اسے اتنا ہی گناہ ہوگا جتنا محصول (
ٹیکس ) وصول کرنے والے کو اس کی خطا پر ہوتا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/668، حدیث: 3718)
3۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت
ہے کہ سلطان دوجہان،شہنشاہ کون ومکان ﷺ کا فرمان عظیم الشّان ہے: جسے یہ پسند ہوکہ
اس کے لیے(جنّت میں)محل بنایا جائے اوراس کے درجات بلند کیے جائیں،اسے چاہیے کہ جو
اس پرظلم کرے، یہ اسے معاف کرے اورجو اسے محروم کرے، یہ اسے عطا کرے اورجو اس سے
قطع تعلّق کرے یہ اس سے ناطہ(یعنی تعلّق)جوڑے۔ (مستدرک، 3/12، حدیث: 3215)
4۔ حضورﷺ نے ہمیں آپس میں دشمنی وحسد رکھنے،
تعلّقات توڑنےاور معذرت کرنے والوں کی معذرت کو ردّکرنےسے منع فرمایا ہے۔ چنانچہ نبی
کریم،روفٌ رّحیم ﷺ کا فرمان دلنشین ہے:ایک دوسرے سے پیٹھ نہ پھیرو، نہ ایک دوسرے
سے دشمنی کرو،نہ حسد کرو، نہ تعلّقات توڑ نے والے بنو اور اللہ تعالیٰ کے بندو!
بھائی بھائی بن جاؤ۔مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرتا ہے، نہ اسے
محروم کرتا ہے اور نہ اسے رسوا کرتا ہے۔ (مسلم، ص 1386،
حدیث: 2564)
5۔ ایک شخص بارگاہ رسالت میں حاضر ہوااور عرض
کی:یارسول اللہ ﷺ!ہم خادم کو کتنی بارمعاف کریں؟آپ خاموش رہے۔اس نے پھر وہی سوال
دہرایا،آپ پھر خاموش رہے،جب تیسری بار سوال کیا تو ارشاد فرمایا: روزانہ ستّر بار۔
(ترمذی، 3/381، حدیث:1956)
6۔ حضورﷺ نے فرمایا: جو کسی مسلمان کی غلطی کو معاف
کرے گاقیامت کے دن اللہ پاک اس کی غلطی کو معاف فرمائے گا۔ (ابن ماجہ، 3/36،حديث:2199)

معذرت کے معنی: ۔معتدت عربی زبان کا لفظ ہے جس کے
معنی ہیں الزام سے بری ہونا عذر قبول کرنا اعتزار کے معنی ہیں عذر بیان کرنا پس
معذرت اور اعتزار کے معنی ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں۔
آج کل معذرت بھی مشروط ہوتی ہے یعنی کہنے والا کہتا
ہے اگر میری بات سے کسی کی یافلاں شخص کی دل آزادی ہوئی ہے تو میں معذرت خواہ ہوں
اس کے واضح معنی یہ ہیں کہ وہ اپنی بات کی صحت پر اصرار کر رہا ہے اور اسکے کلام سے
جو معنی سننے اور پڑھنے والے کو واضح طور پر سمجھ میں آتے ہیں اسے انکے فہم کا
تصور قرار دیتا ہے لہذا یہ معذرت کی کسی بھی صورت میں معافی نہیں ہے۔ معافی اسے
کہتے ہیں جب انسان اپنی غلطی کااعتراف کرے اور اس پر نادم ہو اور غیر مشروط طور پر
اس کی معافی مانگے۔ البتہ غیر مشروط طور پر اپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے جو معذرت
کی جائے یا معافی مانگی جائے وہ قابل تحسین ہے۔ اور ایسے شخص کی معذرت قبول کرنا
شریعت کی نظر میں پسندیدہ امر ہے۔
احادیث مبارکہ:
حضرت جودان رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول
اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے اپنے بھائی کے سامنے اپنی کسی غلطی پر معافی مانگی اور اس
نے یہ معافی قبول نہ کی تو اس پر ایسا ہی گناہ ہوگا جیسے ٹیکس کی وصولی میں خیانت
یا زیادتی کرنے والے پر ہوتا ہے۔ (ابن ماجہ،
4/668، حدیث: 3718)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ رسول
اللہ ﷺ نے فرمایا: ایسی بات سے اجتناب کرو جس پر معذرت کرنا پڑے۔(مسند امام احمد، 9/130،
حدیث: 23557)
حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کہ اگر میں اپنی
بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو دیکھوں تو سیدھی تلوار سے اس کی گردن مار دوں پھر یہ
بات آقا کریم ﷺ تک پہنچی توآپ نے فرمایا کہ کیا تمہیں سعد کی غیرت پر حیرت ہے؟ بلا
شبہ میں ان سے زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھ سے زیادہ غیرت مند ہےاور اللہ
پاک نے غیرت ہی کی وجہ سے خواہش کو حرام کیا ہے چاہے تو ظاہر ہو یا چھپ کر اور
معذرت اللہ رب العزت سے زیادہ کسی کو پسند نہیں اور اس لیے اس نے بشارت دینے
والےاورڈرانےوالے بھیجے اور تعریف الله سے زیادہ کسی کو پسند نہیں اسی وجہ سے اس
نے جنت کا وعدہ کیا ہے۔ (بخاری، 4/545، حدیث: 7416)
پیاری اسلامی بہنو! دیکھا آپ نے کہ معذرت کرنے کی
وجہ سے رسول الله ﷺ نے یہ بات ارشاد فرمادی کہ وہ ایسی بات سے بچے رہیں کہ اسے معذرت
کرنی پڑے آج اگر ہم کسی کو جان بوجھ کر تنگ کرتے ہیں کسی سے بد تمیزی کرتے ہیں یا
کسی بڑے کا کہا نہ مان کر گناہ کرتے ہیں اور اوپر اوپر سے مطلب ظاہراًہم اسے ایک معذرت
یعنی (Sorry)
کہ دیتے ہیں لیکن آپ نے یا میں نے اس بات کا جائزہ لیا ہے کہ جس کو ہم نے تنگ کیا
ہے یا برا بھلا کہا ہے یا جس سے بد تمیزی کی ہے اسے کتنا برا لگا ہو گا کتنی دل
آزاری ہوئی ہوگی۔
یاد رکھو! بروز قیامت اس کے بارے میں بھی پوچھا
جائے گا اور اللہ کریم سب سے زیادہ بخشنے والا مہربان ہے اور اسے معافی سب سے
زیادہ پسند ہے اس لیے ہمیں چاہیے کہ معافی مانگ لیں اور سچے دل سے تو بہ کریں کہ
آئندہ ایسا گناہ نہ ہوگا ان شاء اللہ اور معافی دینا تو بہت پسند یدہ امر ہے۔ ام
المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تم پاک دامنی اختیار کرو تا کہ تمہاری
عورتیں بھی پاک دامن ہوں تم اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو تا کہ تمہاری
اولاد بھی تمہارے ساتھ نیک برتاؤ کرے اور جو اپنی کسی غلطی پر اپنے مسلمان بھائی
سے معافی مانگے اور وہ اسکی معافی کو قبول نہ کرے تو وہ میرے حوض کوثر پر نہیں آئے
گا۔ (معجم اوسط، 4/376، حدیث:6295)
آقا کریم ﷺ نے فرمایا: جس نے اپنی زبان کو لوگوں کی
پردہ دری سے روکے رکھا الله قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا اور جس نے اپنے
غصے پر قابو پایا الله کاک عذاب کو اس سے روک دے گا اور جو اللہ رب العزت کے حضور
اپنی خطاؤں پرمعافی کا طلبگار ہو اللہ پاک اسکی معافی کو قبول فرمائے گا۔ (مراۃ
المناجیح، 6/667)

معذرت انگریزیApology
چاہنا کسی حرکت بات یا صورتحال پر تاسف اور افسوس کا اظہار ہے معذرت کبھی خود کی
وجہ سے رونما کیفیت پر ہو سکتی ہے اور کبھی اپنے متعلقین کی وجہ سے بھی ممکن ہے۔
معذرت اور معافی میں فرق: معذرت
لفظ کی اصل عربی زبان ہے جس کو بغور دیکھا جائے تو اس میں ایک لفظ چھپا ہوا ہے
عذر۔ اس لفظ سے معذرت اور معافی میں فرق واضح ہو جاتا ہے دراصل معذرت کا مطلب بھی
معافی ہی ہوتا ہے تاہم معذرت کرتے ہوئے ساتھ کوئی عذر بھی بیان کر دیا جاتا ہے
جبکہ معافی میں غلطی کے لیے کوئی عذر بیان نہیں کیا جاتا بس غلطی کو تسلیم کرتے
ہوئے بغیر کسی عذر کو بیان کیے معافی مانگ لی جاتی ہے۔ البتہ غیر مشروط طور پر
اپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے جو معذرت کی جائے یا معافی مانگی جائے، وہ قابل
تحسین ہے اور ایسے شخص کی معذرت قبول کرنا شریعت کی نظر میں پسندیدہ امر ہے۔
آئیے معاف کرنے کی فضیلت پر چند آیت کریمہ جان لیتی
ہیں:
1۔ وَ الْكٰظِمِیْنَ
الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِؕ-وَ اللّٰهُ یُحِبُّ
الْمُحْسِنِیْنَۚ(۱۳۴) (پ 4،
آل عمران: 134) ترجمہ کنز الایمان: اور غصّہ پینے والے
او ر لوگو ں سے درگزرکرنے والے اور نیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں۔
2۔ اسی طرح پارہ18 سورۂ نور کی آیت نمبر22 میں
ارشاد ہوتا ہے: وَ لْیَعْفُوْا وَ
لْیَصْفَحُوْاؕ-اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ
غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۲۲) (پ 18،
النور:22) ترجمہ کنز
الایمان: اور چاہیے کہ معاف کریں اور درگزر یں کیاتم اسے دوست نہیں رکھتے کہ اللہ
تمہاری بخشش کرے اور اللہ بخشنے والامہربان ہے۔
معلوم ہوا
! لوگوں کی غلطیوں سے درگزر کرنا ربّ کریم کو بہت پسند ہے۔یاد رہے! کسی مسلمان سے
غلطی ہوجانے پر اسے معاف کرنااگرچہ نفس پر نہایت دشوار ہے،لیکن اگر ہم عفو و درگزر
کے فضائل کو پیش نظر رکھیں گے تواللہ پاک کی طرف سے انعام و اکرام کے حقدار بھی
قرار پائیں گے۔ ان شاء اللہ
آئیے!اس بارے میں 6احادیث مبارکہ سنئےاورلوگوں
کومعاف کرنے کا جذبہ پیداکرنے کی کوشش کیجئے۔
1۔ حساب میں آسانی کے تین اسباب:
حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا: تین باتیں جس شخص میں ہوں گی
اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن) اس کا حساب بہت آسان طریقے سے لے گا اور اس کو اپنی
رحمت سے جنّت میں داخل فرمائے گا۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی: یا رسول
اللہﷺ ! وہ کون سی باتیں ہیں ؟فرمایا: {1}جو
تمہیں محروم کرے تم اسے عطا کر واور{2} جو
تم سے قطع تعلّق کرے (یعنی تعلّق توڑے) تم اس سے ملاپ کرو اور {3}جو تم پر ظلم کرے تم اس کومعاف کردو۔ (معجم
ا وسط، 4/18، حدیث: 5064)
2۔ معاف کرنے سے عزت بڑھتی ہے: خاتم
المرسلین ﷺ کا فرمان رحمت نشان ہے: صدقہ دینے سے مال کم نہیں ہوتا اور بندہ کسی
کاقصور معاف کرے تو اللہ اس (معاف کرنے والے ) کی عزّت ہی بڑھائے گا اور جو اللہ کے
لیے تواضع (یعنی عاجزی) کرے، اللہ اسے بلند فرمائے گا۔ (مسلم، ص 1397، حدیث: 2588)
3۔ معزز کون؟ حضرت موسیٰ علیہ
السلام نے عرض کی: اے ربّ اعلیٰ! تیرے نزدیک کون سا بندہ زیادہ عزّت والا ہے؟
فرمایا: وہ جو بدلہ لینے کی قدرت کے باوجود معاف کردے۔ (شعب الایمان، 6/319، حدیث:
8327)
4۔ فرمایا: جو کسی مسلمان کی غلطی کو معاف کرے
گاقیامت کے دن اللہ پاک اس کی غلطی کو معاف فرمائے گا۔ (ابن ماجہ،3/36، حديث:2199)
5۔ معاف کرنے والوں کی بے حساب مغفرت: حضرت
انس سے مروی ہے کہ حضورسرکار مدینہﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے روز اعلان کیا جائے
گا: جس کا اجر اللہ کے ذمّۂ کرم پر ہے، وہ اٹھے اورجنّت میں داخل ہو جائے۔ پوچھا
جائے گا: کس کے لیے اجر ہے؟ وہ منادی (یعنی اعلان کرنے والا ) کہے گا: ان لوگوں کے
لیے جو معاف کرنے والے ہیں۔ تو ہزاروں آدمی کھڑے ہوں گے اور بلا حساب جنّت میں
داخل ہوجائیں گے۔ (معجم ا وسط، 1/542، حدیث: 1998)
6–ایک شخص بارگاہ رسالت میں حاضر ہوااور عرض کی:
یارسول اللّٰہﷺ!ہم خادم کو کتنی بارمعاف کریں؟آپ ﷺخاموش رہے۔اس نے پھر وہی سوال
دہرایا،آپﷺ پھر خاموش رہے،جب تیسری بارسوال کیا تو ارشاد فرمایا:روزانہ ستّر(70)
بار۔(ترمذی، 3/381،حدیث:1956)
حکیم الامّت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ
اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں: عربی میں ستّر (70) (Seventy)کا
لفظ بیان زیادتی کے لیے ہوتا ہے یعنی ہر دن اسے بہت دفعہ معافی دو، یہ اس صورت میں
ہو کہ غلام سے خطاءًغلطی ہوجاتی ہے، خباثت نفس سے نہ ہو اور قصور بھی مالک کا ذاتی
ہو،شریعت کا یاقومی و ملکی قصور نہ ہو کہ یہ قصورمعاف نہیں کیے جاتے۔ (مرآۃ
المناجیح،5/170)
پیاری
اسلامی بہنو ! آپ نے سنا کہ لوگوں کو معاف کرنا کس قدر بہترین عمل ہے جس کی دنیا
میں تو برکتیں نصیب ہوتی ہی ہیں مگر آخرت میں بھی ان شاء اللہ اس کی برکت سے جنّت
کی خوشخبری سے نوازا جائے گا۔ کتنے خوش قسمت ہیں وہ مسلمان جو طاقت و قدرت کے
باوجود بھی لوگوں کی خطاؤں کو اپنی نفسانی ضد کا مسئلہ نہیں بناتے بلکہ معاف کرکے
ثواب کا خزانہ پاتے ہیں۔مگر افسوس!آج اگر ہمیں کوئی معمولی سی تکلیف بھی پہنچادے
تو ہم عفو و درگزر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتے ہیں اور اس سے بدلہ لینے کی کوشش
کرتے ہیں حالانکہ ہمیں حضور پاکﷺ کی سیرت طیبہ سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے کہ آپ
کس قدر نرم مزاج تھے۔ آئیے آپ کے معاف کرنے کے متعلق ایک واقعہ سن لیتی ہیں:
قاتلانہ حملے کی کوشش کرنے والے کو معاف
فرما دیا:
دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 862 صفحات پر مشتمل کتاب، سیرت
مصطفیٰ ﷺ صفحہ 604 تا605پر ہے:ایک سفر میں نبی معظّمﷺ آرام فرمارہے تھے کہ غورث بن
حارث نے آپﷺ کو شہید کرنے کے ارادے سے آپﷺ کی تلوار لے کر نیام سے کھینچ لی، جب
سرکار نامدارﷺ نیند سے بیدار ہوئے تو غورث کہنے لگا: اے محمد (ﷺ) ! اب آپﷺ کو مجھ
سے کون بچا سکتا ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا: اللہ۔
نبوّت کی ہیبت سے تلوار اس کے ہاتھ سے گر
پڑی اور سرکار عالی وقارﷺ نے تلوار ہاتھ مبارک میں لے کر فرمایا: اب تمہیں میرے
ہاتھ سے کون بچانے والا ہے؟ غورث گڑگڑا کر کہنے لگا: آپﷺ ہی میری جان بچائیے۔ رحمت
عالمﷺ نے اس کو چھوڑ دیااور معاف فرما دیا۔ چنانچہ غورث اپنی قوم میں آ کر کہنے
لگا کہ اے لوگو! میں ایسے شخص کے پاس سے آیا ہوں جو دنیا کے تمام انسانوں میں سب
سے بہتر ہے۔ (الشفا، 1/106)
سلام اس پر کہ جس نے خوں کے پیاسوں کو
قبائیں دیں
سلام اس پر کہ جس نے گالیاں سن کر
دعائیں دی
پیاری اسلامی بہنو! ہمیں چاہیے کہ پیارے آقاﷺ کے
اسوہ کی پیروی کریں اور آپ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے دوسروں کو معاف کرنے کے جذبے
کو فروغ دیں۔ اللہ پاک ہمیں عفو و درگزر سے کام لینے اور معاف کرنے کی توفیق عطا
فرمائے۔ آمین یارب العالمین

معذرت کے معنی ہے عذر قبول کرنا جو لوگ غصے کو پی
جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کر دیتے ہیں ایسے لوگ اللہ کو بہت پسند ہوتے
ہیں۔ معاف کرنا اتنا بڑا عمل ہے افسوس ہم نے اس کو اپنی زندگیوں سے کیوں نکال دیا
ہے۔
نبی کریم ﷺ کے معاف کرنے کا واقعہ: مکہ
والوں نے چاند کے دو ٹکڑے دیکھے تو کہا محمد ﷺ نے چاند پر جادو کر دیا۔ پتھروں کو
کلمہ پڑھتے دیکھا تو کہا اس پر جادو کر دیا۔ مکہ والوں نے جنگ بدر میں فرشتے دیکھے
لیکن کلمہ نہیں پڑھا۔جنگ خندق میں شکست کھائی لیکن ایمان نہ لائے۔لیکن جب آپ ﷺ نے
مکہ میں بیت اللہ کا دروازہ پکڑ کر کہا کہ جاو میں نے تم سب کو معاف کر دیا تو ان
سب نے کلمہ پڑھ لیا اور ایمان لے آئے۔
معاف کرنے والوں کی فضیلت احادیث مبارکہ
کی روشنی میں:
1:رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:میں نے جنت میں اونچے اور
شاندار محل دیکھے،جبریل سے پوچھا یہ کن لوگوں کے لیے ہیں؟ جبریل نے کہا یہ ان
لوگوں کے لیے ہیں جو غصے کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں۔ (عوارف
المعارف، ص 407)
2: جس نے اپنے غصے پر قابو پایا،اللہ تعالیٰ اس سے
اپنا عذاب روک لے گا۔جس نے اپنی زبان کی حفاظت کی،اللہ تعالیٰ اس کے عیوب پر پردہ
ڈال دے گا اور جس نے اللہ تعالیٰ سے معذرت کی،وہ اس کا عذر قبول کرے گا۔(مراۃ
المناجیح، 6/667)
3: جو شخص غصے کو پی جائے، جب کہ وہ بدلہ لینے پر
قادر ہو اللہ تعالیٰ قیامت والے دن اسے تمام مخلوقات کے سامنے بلائے گا اور اسے
کہے گا کہ وہ جس حورعین کو چاہے، اپنے لیے پسند کر لے۔ (ابو داود، 4/325، حدیث: 4777)
معذرت قبول نہ کرنا گناہ ہے: رسول
اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے بھائی سے معذرت کرے، اور پھر وہ اسے قبول نہ کرے تو
اسے اتنا ہی گناہ ہو گا جتنا ٹیکس وصول کرنے والے کو اس کی خطا پر ہوتا ہے۔ (ابن
ماجہ، 4/668، حدیث: 3718)
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر کسی شخص نے اپنے
کسی مسلمان بھائی سے اپنی غلطی پر معافی مانگی اور اس نے اس کی معافی قبول نہ کی
تو اس کو حوض کوثر پر آنا نصیب نہ ہوگا۔ (معجم اوسط، 4/376، حدیث:6295)

بندوں کے حقوق کا معاملہ یقیناً بہت نازک ہے، ہمیں
اس بارے میں ہر وقت محتاط رہنا چاہیے۔اگر کبھی جانے انجانے میں کسی مسلمان کا حق
ضائع ہوجائے تو فوراً توبہ کرتے ہوۓ صاحب حق سے معافی بھی مانگنی چاہیے۔کیونکہ
بندوں کے حقوق کا ادا کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے اور بندوں کے حقوق واجبہ ادا نہ
کرنا گناہ کبیرہ ہے جو صرف توبہ کرنے سے معاف نہیں ہو سکتا۔ بلکہ ضروری ہے کہ توبہ
کے ساتھ ساتھ یا تو حقوق ادا کر دے یا حقوق والوں سے معاف کروالے، چنانچہ
مکتبۃ المدینہ کی کتاب احیاء العلوم جلد 4 صفحہ
نمبر 115 پر لکھا ہے:یاد رہے! گناہ کو ذکر کرنا اور دوسروں کو اس پر آگاہ کرنا ایک
نیا گناہ ہے جس کی الگ معافی مانگنا پڑے گی۔ البتہ! جس کا حق ضائع کیا ہے اس کے
سامنے بیان کرے لیکن اگر وہ معاف کرنے پر راضی نہ ہوا تو گناہ اس کے ذمّہ باقی رہے
گا کیونکہ معاف نہ کرنا اس کا حق ہے۔یاد رہے!جس سے معافی مانگی جائے اسے چاہیے کہ
معاف کردے،حدیث پاک میں ہے: جس کے پاس اس کا بھائی معذرت کرنے کے لئے آیا تواسے
چاہیے کہ اپنے بھائی کو معاف کردے، خواہ وہ جھوٹاہو یا سچا۔جو معاف نہیں کرے گا، حوض
کوثرپر نہ آسکے گا۔ (مستدرک، 5/213، حدیث:7340)
اسے(یعنی معافی مانگنے والے کو)چاہئےکہ اس سے نرمی
کا سلوک کرے،اس کے کام کاج اور ضروریات میں مدد کرے اور اس سے محبّت اور شفقت کا
اظہار کرے تاکہ اس کا دل اس کی طرف مائل ہو کہ (مشہور مقولہ ہے) انسان احسان کا
غلام ہے۔
جو شخص برائی کے سبب دور ہوتا ہے وہ نیکی کے ذریعے
مائل ہوجاتا ہے۔ تو جب محبّت وشفقت کی کثرت ہوگی اور اس وجہ سے اس کا دل خوش ہوگا
تو وہ خود معاف کرنے پر تیار ہوجائے گا لیکن اگر وہ اس کے باوجود معاف نہ کرنے پر
اصرار کرے تو ممکن ہے کہ اس سے نرمی وشفقت کا سلوک اور عذر پیش کرنا مجرم کی ان
نیکیوں میں شمار ہوجائے جن کے ذریعے قیامت کے دن اس کی زیادتیوں کا بدلہ چکایا
جائے۔بہرحال اسے چاہئے کہ محبّت وشفقت کے ذریعے اسے خوش کرنے کی کوشش اسی طرح کرتا
رہے جس طرح اسے تکلیف پہنچانے میں کوشش کرتا رہا یہاں تک کہ ایک عمل دوسرے کے
برابر یا اس سے زائد ہوجائے تو قیامت کے دن اللہ پاک کے حکم سے بدلے میں اس کا یہ
عمل قبول کرلیا جائے گا جیسے کوئی شخص دنیا میں کسی کا مال ہلاک کردے پھر اس کی
مثل لائے لیکن مال کا مالک اسے قبول کرنے یا معاف کرنے سے انکار کردے تو حاکم اس
مال پر قبضہ کرنے کا فیصلہ دے گا چاہے وہ قبول کرے یا نہ کرے۔ اسی طرح میدان قیامت
میں سب سے بڑا حاکم اور سب سے زیادہ انصاف کرنے والا اللہ کریم حکم جاری فرمائے
گا۔

معذرت عربی لفظ ہے اس کے معنی ٰہیں: الزام سے بری
ہونا، عذر قبول کرنا۔ بندوں کے حقوق کا معاملہ بہت نازک ہے اس معاملے میں بہت
زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے ہمیں اس بارے میں ہروقت محتاط رہنا چاہیے اگر جانے
انجانے میں بھی کسی کی حق تلفی ہوجائے تو ہمیں فوراً توبہ کرنے کے ساتھ ساتھ صاحب
حق سے معافی مانگ لینی چاہیے حقوق العباد کا ادا کرنا ہرایک مسلمان پر فرض ہے اور
بندوں کے حقوق ادا نہ کرنا کبیرہ گناہ ہے جو صرف توبہ کرنے سے معاف نہ ہوگا بلکہ
توبہ کرنے کے ساتھ ساتھ حقوق بھی ادا کیے جائیں یا حق والوں سے معاف کروا لیے
جائیں۔
معذرت قبول نہ کرنے کانقصان: معذرت
قبول نہ کرنے سے دل میں بغض ونفرت پیدا ہوتی ہے اور بندہ اپنی حق تلفی کو بھول
نہیں پاتا جس کی وجہ سے بے چین رہتا ہے۔
جوکوئی اپنے مسلمان بھائی سے معذرت کرے اور وہ اس
کی معذرت قبول نہ کرے تو اسے حوض کوثر پر حاضر ہونا نصیب نہ ہوگا۔ (معجم اوسط، 4/376،
حدیث:6295)
اِنْ تُبْدُوْا خَیْرًا اَوْ
تُخْفُوْهُ اَوْ تَعْفُوْا عَنْ سُوْٓءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَفُوًّا
قَدِیْرًا(۱۴۹) (پ
6، النساء: 149) ترجمہ کنز الایمان: اگر تم کوئی بھلائی اعلانیہ کرو یا چھپ کر یا
کسی برائی سے درگزر تو بے شک اللہ معاف کرنے والا قدرت والا ہے۔
تفسیر صراط الجنان میں ہے: ارشاد فرمایا کہ اگر تم
کوئی نیک کام اعلانیہ کرو یا چھپ کر یا کسی کی برائی سے درگزر کرو تو یہ افضل ہے
کیونکہ اللہ تعالیٰ سزا دینے پر قادر ہونے کے باوجود اپنے بندوں کے گناہوں سے
درگزر کرتا اور انہیں معاف فرماتا ہے لہذا تم بھی اپنے اوپر ظلم وستم کرنے والوں
کو معاف کردواور لوگوں کی غلطیوں سے درگزر کرو۔ (تفسیر سمرقندی، 1 / 401)
معاف کرنے کی فضیلت: اس
آیت سے معلوم ہوا کہ ظالم سے بدلہ لینا اگرچہ جائز ہے لیکن ظالم سے بدلہ لینے
پرقادرہونے کے باوجود اس کے ظلم پر صبر کرنا اور اسے معاف کردینا بہتر اور اجرو
ثواب کا باعث ہے ۔
جو معاف
نہیں کرتا اسے معاف نہیں کیا جائے گا: حضرت جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے
کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا اور جو معاف
نہیں کرتا اسے معاف نہیں کیا جائے گا۔ (مسند امام احمد، 7/71، حدیث:19264)

لغزش اور خطا کی بنا پر دوسروں سے معذرت چاہنا اور
دوسروں کی معذرت خواہی کو قبول کرنا مکارم اخلاق اور کمال کی نشانی ہے۔ اگر ہمیں
یہ بھی معلوم ہو کہ سامنے والا جو عذر بیان کررہا ہے وہ غلط ہے تب بھی تاکید کی
گئی ہے کہ ہم اس کی معذرت قبول کریں۔ اس لئے کہ یہ برتاؤ، عزت و آبرو کا محافظ ہے
اور مزید پردہ دری اور بے آبروئی سے روکتا ہے اور آپسی میل محبت اور دوستی کا سبب
بنتا ہے۔
معذرت قبول نہ کرنے پر احادیث مبارکہ:
1) جو کوئی اپنے مسلمان بھائی سے معذرت کرے اور وہ
اس کا عذر قبول نہ کرے تو اسے حوضِ کوثر پر حاضر ہونا نصیب نہ ہوگا۔ (معجم اوسط، 4/376، حدیث:6295)
2) جو شخص اپنے (مسلمان) بھائی کے سامنے عذر پیش
کرے اور وہ اسے معذور نہ سمجھے یا وہ اس کا عذر قبول نہ کرے تو اس پر ٹیکس وصول
کرنے والے کی مثل گناہ ہوتا ہے۔(ابن ماجہ، 4/668، حدیث: 3718)
3) کیا میں تمہیں بتاؤں کہ تم میں برا شخص کون ہے
صحابہ رضی اللہ عنہم نے یہ سن کر عرض کیا یا رسول اللہ ہاں اگر آپ اس کو بہتر
سمجھیں تو ضرور بتائیں نبی ﷺ نے فرمایا: تم میں برا شخص وہ ہے جو تنہا کسی منزل پر
اترے اپنے غلام کو کوڑے مارے اور اپنی عطا و بخشش سے محروم رکھے پھر فرمایا کیا
میں تمہیں بتاؤں کہ اس سے بھی برا شخص کون ہے صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا ہاں
اگر آپ اس کو بہتر سمجھیں حضور ﷺ نے فرمایا وہ شخص جو قصور کرنے والے کے عذر کو
تسلیم نہ کرے معذرت کو قبول نہ کرے اور خطا کو معاف نہ کرے پھر فرمایا کیا میں
تمہیں بتاؤں کہ اس سے بھی برا شخص کون ہے صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول
اللہ بتائیں اگر آپ بہتر سمجھیں نبی ﷺ نے فرمایا وہ شخص کہ جس سے خیر و بھلائی کی
توقع نہ کی جائے اور اس کی فتنہ انگیزیوں سے امن ملتانہ ہو۔
4) جس کے پاس اس کا بھائی معذرت خواہ ہوکر آئے تو
اس کا عذر قبول کرے، خواہ صحیح ہو یا غلط۔ اگر ایسا نہیں کرے گا تو میرے حوض پر نہ
آئے۔ (معجم اوسط، 4/376، حدیث:6295)
معذرت قبول نہ کرنا از بنت محمد اصغر
مغل،فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو کوئی اپنے مسلمان
بھائی سے معذرت کرے اور وہ اس کا عذر قبول نہ کرے تو، اسے حوض کوثر پر حاضرہونا
نصیب نہ ہو گا۔ (معجم اوسط، 4/376، حدیث:6295)
معافی مانگنے والے کے اور جس سے معافی طلب کی جارہی
ہو، ان کے حالات مختلف ہیں اور حالات کے اعتبار سے حکم بھی مختلف ہے۔ جس سے معافی
طلب کی جارہی ہو، اگر اسے اندازہ ہو کہ معافی مانگنے والے کو معاف کردیا تو وہ
دوبارہ زیادتی کرے گا اور اس کے اس عمل کی حوصلہ افزائی ہوگی، تو ایسی صورت میں اس
کے فسق یا جہالت کی اصلاح کی نیت سے اسے معاف نہ کرنا اور جائز بدلہ لینا یا قیامت
کے دن کے بدلہ سے ڈرانا صرف جائز ہے۔ تاہم ایسے شخص کے دل میں یہ جذبہ ہونا بہتر
ہے کہ جب اصلاح ہوجائے تو اسے دل سے معاف بھی کردے۔ نیز اگر یہ جذبہ بھی ہو کہ
اصلاح نہ ہو، تب بھی دل سے معاف کردے؛ تاکہ قیامت میں مسلمان بھائی کی پکڑ نہ ہو،
تو یہ اعلیٰ ظرفی کی بات ہے، اگرچہ اس پر لازم نہیں۔
اسی طرح معافی مانگنے والا اگر اپنی زیادتی پر نادم
(پشیمان و پریشان) نہ ہو، بلکہ رسمی معافی مانگ رہا ہو اور صاحب حق اسے معاف نہ
کرے تو اسے قیامت کے دن کی پکڑ سے ڈرنا چاہیے۔ البتہ اگر معافی مانگنے والا نادم
ہو کر معافی مانگ رہا ہو، لیکن صاحب حق اسے معاف نہ کر رہا ہو، تب بھی معافی
مانگنے والے کو چاہیے کہ قیامت کے دن کی پکڑ سے خوف زدہ ہو کر صاحب حق کو منانے کی
کوشش کرتا رہے۔ اور اگر وہ نہ مانے تو اللہ کے فضل سے امید ہے کہ اس کی دلی ندامت
کی وجہ سے قیامت کے دن اس کی پکڑ نہ ہوگی۔ اور جس سے معافی مانگی جا رہی ہو، اگر
اس کے سامنے معافی مانگنے والے کا عذر واضح ہو اور معاف کرنے میں کوئی شرعی یا
طبعی رکاوٹ بھی نہ ہو، نیز اس کا کوئی نقصان بھی نہ ہو تو ایسے شخص کو معاف کردینا
چاہیے۔
اگر معافی چاہنے والے کو معاف نہ کرے تو یہ معاف نہ
کرنے والا خاطی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے بھائی سے معذرت
کرے، اور پھر وہ اسے قبول نہ کرے تو اسے اتنا ہی گناہ ہو گا جتنا محصول ( ٹیکس )
وصول کرنے والے کو اس کی خطا پر ہوتا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/668، حدیث: 3718)
آپ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اپنے (مسلمان) بھائی کے
سامنے عذر پیش کرے اور وہ اسے معذور نہ سمجھے یا وہ اس کا عذر قبول نہ کرے تو اس
پر ٹیکس وصول کرنے والے کی مثل گناہ ہوتا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/668، حدیث: 3718)
معذرت قبول نہ کرنا از بنت محمد اشفاق
بھٹی،فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ

واضح رہے کہ معافی مانگنے والے کے اور جس سے معافی
طلب کی جا رہی ہو، ان کے حالات مختلف ہیں اور حالات کے اعتبار سے حکم بھی مختلف
ہیں۔ جس سے معافی طلب کی جا رہی ہو اگر اسے اندازہ ہو کہ معافی مانگنے والے کو
معاف کر دیا تو وہ دوبارہ زیادتی کرے گا اور اس کے اس عمل کی حوصلہ افزائی ہو گی،
تو ایسی صورت میں اس کے فسق یا جہالت کی اصلاح کی نیت سے اسے معاف نہ کرنا اور
جائز بدلہ لینا یا قیامت کے دن کے بدلہ سے ڈرانا جائز ہے۔ تاہم ایسے شخص کے دل میں
یہ جذبہ ہونا بہتر ہے کہ جب اصلاح ہو جائے تو اسے دل سے معاف بھی کر دے۔ نیز اگر
یہ جذبہ بھی ہو کہ اصلاح نہ ہو تب بھی دل سےمعاف کر دے، تاہم قیامت میں مسلمان
بھائی کی پکڑ نہ ہو، تو یہ اعلی ظرفی کی بات ہے، اگرچہ اس پر لازم نہیں۔
اگر معافی چاہنے والے کو معاف نہ کرے، تو یہ معاف
نہ کرنے والا خاطی ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے: جو شخص اپنے بھائی سے
معذرت کرے، اور پھر وہ اسے قبول نہ کرے تو اسے اتنا ہی گناہ ہوگا جتنا محصول وصول
کرنے والے کو اس کی خطا پر ہوتا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/668، حدیث: 3718)
مزید حضور
اکرم ﷺ نے فرمایا: جو شخص کسی کے پاس اپنی غلطی پر معذرت کرنے کے لئے آئے تو اسے
قبول کرنا چاہئے، خواہ وہ سچا ہو یا جھوٹا۔ اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو میرے پاس
حوض کوثر تک نہیں پہنچ سکے گا۔ (معجم اوسط، 4/376، حدیث:6295)
سب سے زیادہ ناقص العقل وہ ہے جو غلطی پر معذرت
کرنے والوں کو معاف نہ کرے۔ ایک اور حدیث مبارک ہے کہ پیارے آقا ﷺ نے ارشاد
فرمایا: جس کے پاس اس کا مسلمان بھائی معذرت
لائے، واجب ہے کہ قبول کر لے ورنہ حوض کوثر پر آنا نہ ملے گا۔ (معجم اوسط، 4/376، حدیث:6295)
معاف کر دینا اعلی ظرفی ہے، ہمیں بھی چاہیے کہ جب
کوئی بھی کسی معاملے میں بھی ہم سے معذرت خواہ ہو تو ان کا مان رکھتے ہوئے ان کی معذرت
کو قبول کر لیا جائے اور اپنے محشر کے دن کو یاد کیا جائے
کہ تب ہمیں بھی اپنے گناہوں کی معافی طلب کرنا پڑی تو ہمارا حال کیا ہوگا۔