اسلام نے ہر ذمہ دار پر اسکے ماتحت کے حقوق مقرر کیے ہیں اور ان کو ادا کرنا بھی لازم کیا ہے اور ادا نہ کرنے پر سخت وعیدیں بھی بیان کیں۔ کوئی بھی حکمران ان حقوق سے روگردانی کر کے اپنی ذمہ داری پر پورا نہیں اتر سکتا اور نہ ہی ان ذمہ داریوں سے لاپرواہی اسے بلند مقام تک پہنچا سکتی ہے کسی بھی مقام کو حاصل کرنے کے لیے اس کام کو پوری زمہ داری سے ادا کرنا پڑتا ہے اور جب ان حقوق کو پورا کرنا شریعت نے لازم کردیا ہو تو ان حقوق کو پورا کرنا بدرجہ اولیٰ ضروری ہوگا۔ اسی طرح شریعت نے ہر حاکم پر اسکی رعایا کے متعلق حقوق مقرر کیے ہیں جن کو پورا کرنا ہر حاکم پر ضروری ہے

تاجدارِ رسالت ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے ہرشخص نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کے ماتحتوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا،چنانچہ حاکم نگہبان ہے،اس سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ آدمی اپنے اہلِ خانہ پر نگہبان ہے،اس سے اس کے اہلِ خانہ کے بارے سوال کیا جائے گا۔عورت اپنے شوہر کے گھر میں نگہبان ہے، اس سے ا س کے بارے میں پوچھا جائے گا،خادم اپنے مالک کے مال میں نگہبان ہے، اس سے اس کے بارے میں سوال ہو گا،آدمی اپنے والد کے مال میں نگہبان ہے، اس سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا،الغرض تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے اس سے اس کے ماتحتوں کے بارے میں سوال ہوگا۔ (بخاری، 1/309، حدیث: 893)

حاکم پر رعایا کے حقوق بہت سے ہیں جن میں سے چند یہ ہیں:

انصاف کرنا: اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰۤى اَهْلِهَاۙ-وَ اِذَا حَكَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِؕ-اِنَّ اللّٰهَ نِعِمَّا یَعِظُكُمْ بِهٖؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ سَمِیْعًۢا بَصِیْرًا(۵۸) (پ 5، النساء: 58) ترجمہ کنز العرفان: بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں جن کی ہیں ان کے سپرد کرو اور یہ کہ جب تم لوگوں میں فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو بیشک اللہ تمہیں کیا ہی خوب نصیحت فرماتا ہے، بیشک اللہ سننے والا، دیکھنے والا ہے۔

تفسیر صراط الجنان میں ہے: حضرت عبد الله بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک انصاف کرنے والے اللہ کے ہاں نور کے منبروں پر ہوں گے یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی حکومت، اپنے اہل و عیال اور اپنے ماتحت لوگوں میں عدل وانصاف سے کام لیتے تھے۔ (مسلم، ص 783، حدیث: 4721 ملتقطا)

رعایا کی ضروریات کا خیال رکھا جائے: حضرت امیر معاویہ رضی اللہُ عنہ نے فرمایا: میں نے نبیِّ کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: جسے اللہ مسلمانوں کی کسی چیز کا والی و حاکم بنائے پھر وہ مسلمان کی حاجت و ضرورت و محتاجی کے سامنے حجاب کردے(اس طرح کہ مظلوموں، حاجت مندوں کو اپنے تک پہنچنے نہ دے) تو اللہ اس کی حاجت و ضرورت و محتاجی کے سامنے آڑ فرما دے گا چنانچہ حضرت معاویہ نے لوگوں کی حاجت پر ایک آدمی مقرر فرما دیا۔(مراٰة المناجیح، 5/373)

رعایا کی نگہبانی کرے: حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، سیدُ المرسلین ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے کسی رعایا کا حکمران بنایا ہو اور وہ خیر خواہی کے ساتھ ان کی نگہبانی کا فریضہ ادا نہ کرے تو وہ جنت کی خوشبو تک نہ پاسکے گا۔ (بخاری، 4 /456، حدیث: 7150)

نرمی کرنا: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، میں نے حضورِ اقدس ﷺ کو یہ دعا فرماتے ہوئے سنا: اے اللہ! میری امت کا جو شخص بھی کسی پر والی اور حاکم ہو اور وہ ان پر سختی کرے تو تو بھی اس پر سختی کر اور اگر وہ ان پر نرمی کرے تو تو بھی اس پر نرمی کر۔ (مسلم، ص 1061، حدیث: 8127)

اللہ ہمیں شریعت پر عمل کرتے ہوئے تمام حقوق کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین بجاہ النبی الامین ﷺ

حکمرانوں کو اپنی رعایا کے ساتھ نرمی سے پیش آنا چاہیے اور ان کے ساتھ خیر خواہی سے پیش آنا چاہیے اوران کے ساتھ شفقت کا سلوک کرنے کا حکم دینا چاہیے  اپنی رعایا کو دھوکہ دینے سے ایک حکمران کو خود بھی بچانا چاہیے اور دوسروں کو بھی منع کرنا چاہیے ان پر سختی کرنے ان کی مصلحتوں میں کوتاہی کرنے اور ان کی ضروریات کے بارے میں غفلت سے بچانا چاہیے۔ جو حکمران اپنی رعایا کا دھیان نہیں رکھتے ان کی ضروریات میں غفلت کا شکار ہوتے ہیں ان کی اس غفلت پر قرآن مجید میں ممانعت بیان کی گئی ہے اور ان سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے، قرآنی آیات ملاحظہ فرمائیں:

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ اخْفِضْ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَۚ(۲۱۵) (پ 19، الشعراء:215) ترجمہ: اور تم اپنے پروں کو ان کے لیے جھکا دو جو مومنین تمہاری پیروی کریں۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰى وَ یَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِۚ-یَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ(۹۰) (پ 14، النحل: 90) ترجمہ: بے شک اللہ تعالیٰ انصاف احسان اور رشتے داروں کو ادائیگی کا حکم دیتا ہے اور بے حیائ اور گناہ اور سرکشی سے منع کرتا ہے وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔

اب اس بارے میں حدیث شریف ملاحظہ فرمائیں:

1۔ حضرت ابو یعلیٰ معقل بن یسار بیان کرتے ہیں میں نے نبی پاک ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: اللہ تعالیٰ جس بھی بندے کوحکمران مقرر کرتا ہے اور وہ اس حالت میں میں مرے کہ وہ اپنی رعایا کے ساتھ دھوکا کرتا ہو تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت کو حرام قرار دے گا۔ (فیضان ریاض الصالحین، 1/657)

2۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں میں نے نبی پاک ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: آپ نے میرے گھر میں فرمایا تھا: اے اللہ! جو میری امت کے کسی معاملے کا نگران بنے اور ان پر سختی کرے تو اس پر سختی کر اور جو میری امت کے کسی معاملے کا نگران بنے اور وہ ان پر نرمی کرے تو تو اس پر نرمی کر۔ (مسلم، ص 1061، حدیث: 8127)

3۔ حضرت عائذ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے بارے میں منقول ہے: وہ عبیداللہ بن زیاد کے پاس آئے اور ان سے کہا: اے میرے بیٹے! میں نے نبی پاک ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: سب سے برا حکمران، ظالم ہوگا تو تم اس بات سے بچوکہ تم ان میں شامل ہو جاؤ۔ (فیضان ریاض الصالحین، 1/660)

4۔ حضرت ابو مریم الازدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں انہوں نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے کہا، میں نے نبی پاک ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: جو شخص مسلمانوں کا حکمران بنے اور ان کی ضروریات اور مجبوریوں اور غربت سے پردے میں رہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی ضرورت، مجبوری اور غربت سے پردے میں رہے گا تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ایک شخص کو مقرر کیا۔ (فیضان ریاض الصالحین، 1/661)

5۔ ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں وہ ان کے ساتھ خیر خواہی کا سلوک نہیں کرتا تو وہ شخص جنت کی خوشبو بھی نہیں پا سکے گا۔

آخر میں دعا ہے اللہ پاک آقا ﷺ کی امت کی پریشانیوں کودور فرمائے اور ان کے غم کو دور فرمائے اور ہم سب کو جس چیز کا نگران مقرر کیا جائے ہم اس پر پورا اتریں۔ آمین


ہر شخص نگہبان ہے، ہر ایک سے اس کے ماتحت افراد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ جس کے ماتحت جتنے زیادہ ہونگے وہ اتنا ہی زیادہ جوابدہ ہو گا۔ پھر جس خوش نصیب نے  اپنے ماتحتوں اور اپنی رعایا کے ساتھ عدل و انصاف، شفقت و محبت، خیر خواہی، امانتداری اور صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ہو گا وہ دنیا و آخرت میں کامیاب ہو جائے گا، اسے بروزِ قیامت عرشِ الہی کا سایہ نصیب ہو گا اور اُس کا عدل و انصاف اُس کے لئے باعث نجات ہو گا۔ اس کے برعکس جس حاکم نے اپنی رعایا کے ساتھ خیانت، ظلم و ستم، دھوکا دہی، حق تلفی کا مظاہرہ کیا ہو گا، اُن کی حاجات و ضروریات کی طرف کوئی توجہ نہ دی ہو گی تو وہ دنیا و آخرت میں نقصان اُٹھائے گا، محشر کی گرمی میں اس کے لئے کوئی سایہ نہ ہو گا، رحمت خداوندی سے محروم رہے گا اس لئے ہر شخص کو چاہیے کہ اپنے ماتحتوں کے حقوق کی ادائیگی کی بھر پور کوشش کرے، جتنا ہو سکے نرمی سے پیش آئے، شفقت و محبت بھرا انداز اپنا ئے تاکہ دنیا و آخرت میں کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہو سکے گا۔آئیے رعایا کے کچھ حقوق سن لیتے ہیں:

1۔انصاف کرنا: رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک انصاف کرنے والے اللہ کے ہاں نور کے منبروں پر ہوں گے یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی حکومت، اپنے اہل و عیال اور اپنے ماتحت لوگوں میں عدل وانصاف سے کام لیتے تھے۔ (مسلم، ص 783، حدیث: 4721 ملتقطا)

2۔ رعایا کی خبر گیری: ایک مرتبہ امیرُ المؤمنین حضرت فاروق اعظم رضی اللہُ عنہ رات کے اندھیرے میں اپنے گھر سے نکلے اور ایک گھر میں داخل ہوئے پھر کچھ دیر بعد وہاں سے نکلے اور دوسرے گھر میں داخل ہوئے حضرت طلحہ رضی اللہُ عنہ یہ سب دیکھ رہے تھے چنانچہ صبح جب اس گھر میں جا کر دیکھا تو وہاں ایک نابینا اور اپاہج بڑھیا کو پایا اور ان سے دریافت فرمایا کہ اس آدمی کا کیا معاملہ ہے جو تمہارے پاس آتا ہے بڑھیا نے جواب دیا: وہ اتنے عرصہ سے میری خبر گیری کر رہا ہے اور میرے گھر کے کام کاج بھی کرتا ہے حضرت طلحہ رضی اللہُ عنہ اپنے آپ کو مخاطب کر کے کہنے لگے: اے طلحہ! تیری ماں تجھ پر روئے کیا تو امیرُ المؤمنین عمر فاروق رضی اللہُ عنہ کے نقش قدم پر نہیں چل سکتا۔ (اللہ والوں کی باتیں، 1/116، 117)

3۔ دھوکہ نہ دینا: حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جب اللہ اپنے کسی بندے کو رعایا پر حاکم بنائے اور وہ اس حال میں مرے کہ اپنی رعایا کو دھوکا دیتا ہو تو اللہ اس پر جنت حرام فرما دے گا۔ ایک روایت میں ہے کہ وہ خیر خواہی کے ساتھ اُن کا خیال نہ رکھے تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پاسکے گا۔ (بخاری، 4 /456، حدیث: 7150)مسلم شریف کی روایت میں یہ ہے کہ جو مسلمانوں کے اُمور پر والی بنایا جائے، پھر اُن کے لئے کوشش نہ کرے اور اُن سےخیر خواہی نہ کرے تو وہ اُن کے ساتھ جنت میں داخل نہ ہوگا۔ (مسلم، ص 78، حدیث: 366)

حاکموں کے لیے دعائے مصطفی: ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اپنے اس گھر میں رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: اے اللہ! جو میری امت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنے اور پھر ان پر سختی کرے تو تو بھی اسے مشقت میں مبتلا فرما اور جو میری امت کے کسی معاملے کا ذمہ دار بنے اور اور ان سے نرمی سے پیش آئے تو تو بھی اس سے نرمی والا سلوک فرما۔ (مسلم، ص 784، حدیث: 4722)

4۔ رعایا کی مدد کرنا: امیر المؤمنین حضرت علی المرتضی کرم الله وجہہ الكريم ارشاد فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: میری ناراضی اس شخص پر شدت اختیار کرجاتی ہے جوکسی ایسے شخص پر ظلم کرے جو میرے سوا کسی کو مددگار نہیں پاتا۔ (معجم صغير، 1/31، حديث: 71)

5۔ نرمی کرنا: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، میں نے حضورِ اقدس ﷺ کو یہ دعا فرماتے ہوئے سنا: اے اللہ ! ،میری امت کا جو شخص بھی کسی پر والی اور حاکم ہو اور وہ ان پر سختی کرے تو تو بھی اس پر سختی کر اور اگر وہ ان پر نرمی کرے تو تو بھی اس پر نرمی کر۔ (مسلم، ص 1061، حدیث: 8127)

6۔ رعایا کے درمیان درست فیصلہ کرنا: رسول الله ﷺ نے فرمایا کہ جب حاکم فیصلہ کرے تو کوشش کرے کہ درست فیصلہ کرے تو اس کو دو ثواب ہیں اور جب فیصلہ کرے تو کوشش کرے اور غلطی کرے تو اس کو ایک ثواب ہے۔ (مراۃ المناجیح، 5 /422)

7۔ عیب نہ ڈھونڈنا: حاکم کو چاہیے کہ بےوجہ رعایا کی عیب جوئی یا ان کی ٹو میں نہ پڑے حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ حاکم جب لوگوں میں تہمت و شک ڈھونڈنے لگے تو وہ ان کو بگاڑ دے گا۔ (مراۃ المناجیح، 5/408)

پیاری پیاری اسلامی بہنو! اگر ہم اپنے اوپر غور کریں تو تقریبا ہم میں سے ہر ایک کسی نہ کسی طرح حاکم حکمران ہے کوئی آفیسر کوئی استاد، کوئی ناظم اورکوئی والد ہونے کی صورت میں حاکم ہے اگر معاشرے کو پرامن اور خوشگوار بنانا چاہتے ہیں تو اپنے ماتحتوں کے ساتھ حسن سلوک و پیار و محبت و نرمی سے پیش آئیں اور ان کے تمام حقوق ادا کریں اور اسی طرح جو احادیث وغیرہ میں بیان ہوئے ان پر کار بند رہے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


رعایا ایک اصطلاح ہے جو عام طور پر کسی حکومتی یا انتظامی نظام کے تحت لوگوں کے حقوق اور ذمہ داریوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ رعایا کے حقوق مختلف ممالک اور ثقافتوں میں مختلف ہو سکتے ہیں، مگر عموماً یہ حقوق درج ذیل ہوتے ہیں:

1۔ امن و امان: شہریوں کی سلامتی اور تحفظ کی ضمانت۔

2۔ عدالت تک رسائی: انصاف حاصل کرنے کے لیے عدلیہ تک رسائی کا حق۔

3۔ تعلیم: تعلیم حاصل کرنے کا حق اور تعلیمی مواقع۔

4۔ صحت: بنیادی صحت کی خدمات اور علاج کی سہولتیں۔

5۔ ملازمت: مناسب ملازمت اور معاشی مواقع۔

6۔ اظہار رائے: اپنی رائے کے اظہار کا حق اور آزادی۔

7۔ آزادی: ذاتی آزادی اور انسانی حقوق کی ضمانت۔

8۔ قانونی تحفظ: قانون کے سامنے برابر ہونے اور ظلم و ستم سے تحفظ کا حق۔

یہ حقوق عام طور پر انسانی حقوق کے اصولوں پر مبنی ہوتے ہیں اور مختلف حکومتی نظاموں اور آئینوں میں مختلف شکلوں میں درج ہوتے ہیں۔

اسلامی تعلیمات میں رعایا کے حقوق پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے، اور اس حوالے سے متعدد احادیث موجود ہیں جو اسلامی ریاست کے حکمرانوں اور عوام کے مابین حقوق اور ذمہ داریوں کو بیان کرتی ہیں۔

1۔ قائدانہ ذمہ داری: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ہر شخص ایک نگران ہے اور ہر شخص اپنی رعیت کے بارے میں جوابدہ ہے۔ (بخاری، 1/309، حدیث: 893)اس حدیث کے ذریعے یہ پیغام ملتا ہے کہ حکمرانوں کو اپنی رعایا کی فلاح و بہبود کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔

2۔ عدالت اور انصاف: نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ظلم کرنا قیامت کے دن اندھیرے میں ہوگا۔ (مسلم، ص 1394، حدیث: 2578) اس حدیث میں ظلم اور انصاف کی اہمیت کو بیان کیا گیا ہے اور حکمرانوں پر لازم ہے کہ وہ عدل و انصاف قائم کریں۔

3۔ خدمت خلق: حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: سب سے بہتر لوگ وہ ہیں جو لوگوں کے فائدے کے لیے سب سے زیادہ مفید ہوں۔ یہ حدیث حکمرانوں اور عوام دونوں کو ایک دوسرے کی مدد اور خدمت کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔

4۔ مشاورت: نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: مسلمان کا اپنے بھائی کے ساتھ مشورہ کرنا اس کے ساتھ احسان ہے۔ اس حدیث کے ذریعے مشاورت اور مشترکہ فیصلوں کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے، جو کہ حکومت اور رعایا کے مابین تعلقات میں بھی اہمیت رکھتی ہے۔

یہ احادیث اسلامی اصولوں پر مبنی ہیں جو کسی بھی حکومتی یا انتظامی نظام میں رعایا کے حقوق اور ذمہ داریوں کو متعین کرتی ہیں اور انصاف و خدمت پر زور دیتی ہیں۔

نظامِ سلطنت رعایا و حکمرانوں کے باہمی تعاون سے ہی چلتا ہے۔ مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے تو حُکّام اپنی رعایا کے ساتھ مخلص نظر ہی نہیں آتے حالانکہ ہر نگران سے اس کے ماتحت افراد کے متعلق سوال ہو گا اس لیے ہر ایک کو اپنے ماتحتوں کے حقوق کا خیال رکھنا ہے تاکہ آخرت میں سرخروئی نصیب ہو۔

آئیے رعایا کے چند حقوق ملاحظہ کرتے ہیں:

1)خیر خواہی کرنا: حکام کو اپنی رعایا سے محبت و خیر خواہی سے پیش آنا چاہیے۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: کوئی بندہ جسے اللہ تعالیٰ کسی رعیت کا والی بنائے پھر رعایا کی خیر خواہی نہ کرے مگر وہ جنت کی خوشبو نہ پائے گا۔ (مسلم، ص 78، حدیث: 366)

2) عدل و انصاف کرنا: آقا کریم ﷺ نے فرمایا: بے شک انصاف کرنے والے اللہ کے ہاں نور کے منبروں پر ہوں گے یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی حکومت، اپنے اہل و عیال اور اپنے ماتحت لوگوں میں عدل و انصاف سے کام لیتے تھے۔ (مسلم، ص 783، حدیث: 4721 ملتقطا)

3) ظلم وزیادتی سے بچنا: رعایا کا حق ہے کہ اس پر ظلم و جبر سے بچا جائے۔ حضرت عائذ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ عبید اللہ بن زیاد کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا: اے لڑکے! میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: بے شک بد ترین حکمران وہ ہیں جو رعایا پر ظلم کریں پس تو اپنے آپ کو ان میں شامل ہونے سے بچا۔ (فیضانِ ریاض الصالحین، 5/657)

4) حاجت و ضرورت پوری کرنا: حضرت عمرو بن مرہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت معاویہ سے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جسے اللہ مسلمانوں کی کسی چیز کا والی و حاکم بنائے پھر وہ مسلمان کی حاجت و ضرورت کے سامنے حجاب کر دے تو اللہ اس کی حاجت و ضرورت و محتاجی کے سامنے آڑ فرما دے گا چنانچہ حضرت معاویہ نے لوگوں کی حاجت پر ایک آدمی مقرر کر دیا۔ (مراۃ المناجیح، 5/419)

5) دھوکہ دینے سے بچنا: محبوب رب الانعام ﷺ نے فرمایا: جب اللہ اپنے کسی بندے کو رعایا پر حاکم بنائے اور وہ اس حال میں مرے کہ اپنی رعایا کو دھوکا دیتا ہو تو اللہ اس پر جنت حرام فرما دے گا۔ ایک روایت میں ہے کہ وہ خیر خواہی کے ساتھ اُن کا خیال نہ رکھے تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پا سکے گا۔ مسلم شریف کی روایت میں یہ ہے کہ جو مسلمانوں کے اُمور پر والی بنایا جائے، پھر اُن کے لیے کوشش نہ کرے اور اُن سے خیر خواہی نہ کرے تو وہ اُن کے ساتھ جنت میں داخل نہ ہوگا۔ (فیضانِ ریاض الصالحین، 5/654)

ربِ کائنات سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ایسے حکمران عطا فرمائے جو رعایا کے حقوق ادا کریں۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ

حقوق العباد کا معاملہ بڑا نازک ہے، ہمیں ہر وقت اس معاملے میں احتیاط کرنی چاہیئے۔ بندوں کے دل ہماری وجہ سے نہ دکھیں نہ ہی کسی طرح کی کوئی تکلیف ہماری وجہ سے کسی مخلوق کو پہنچے۔ حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ مومن وہ ہے جس سے لوگ بے خوف رہیں اور مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے لوگ محفوظ رہیں۔ (مسند امام احمد، 4/308، حدیث: 12562)

ہم انسان ہیں اور کبھی ہم سے بتقاضہ بشریت کسی ذات کو تکلیف پہنچ جائے تو ہمیں چاہیے کہ فوراً معذرت کرلیں اور رب کی بارگاہ میں توبہ و تائب ہوتے رہیں اور جب معذرت کی جائے تو چاہیے کہ اسے (وہ شخص) قبول کرے اگر کوئی معافی مانگنے آئے تو چاہیے کہ اسے مایوس نہ کریں بلکہ اسے معاف کردیں۔ حدیث پاک میں ہے: جس کے پاس اس کا بھائی معذرت کرنے کے لئے آیا تواسے چاہیے کہ اپنے بھائی کو معاف کردے، خواہ وہ جھوٹاہو یا سچا۔ جو معاف نہیں کرے گا حوض کوثرپر نہ آسکے گا۔ (مستدرک، 5/213، حدیث: 7340)

ایک اور جگہ پر حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک معاف کر دینے سے بندے کی عزت ہی میں اضافہ فرماتا ہے۔ (مسلم، ص 1071، حدیث: 6592)

اس فرمان عالی شان کی وضاحت یہ ہے کہ جو شخص معاف و درگزر کرتا ہے تو ایسے شخص کا مقام و مرتبہ لوگوں کے دلوں میں بڑھ جاتا ہے، ایک معنی اس کا یہ بھی ہے کہ اس سے مراد اخروی اجر اور وہاں کی عزت ہے۔ (دلیل الفالحین، 4 / 538 ملخصاً)

اے عاشقان رسول! افسوس! کہ آج بات بات پر ناراض یا بدگمان ہوکر تعلقات قطع کر دیئے جاتے ہیں۔ معافی مانگنے کی زحمت بھی نہیں اٹھائی جاتی اور کوئی معافی مانگ بھی لے تو اسے رسوا کیا جاتا ہے۔ اے عاشقان رسول! ان احادیث مبارکہ کی روشنی میں غور کریں تو ہمارے لئے اجر ہی اجر ہے۔ معافی مانگنے پر بھی اور معاف کر دینے پر بھی۔ اور جو اپنے بھائی کی معذرت قبول نہ کرے اس کے لئے سخت وعیدیں بھی ہیں۔

یاد رہے! اپنے ذاتی حقوق تو معاف کرنے میں ہماری عزت ہے لیکن شرعی حقوق پامال کرنے والوں کو رعایت دینے سے جرائم میں اضافہ ہوتا ہے لہٰذا ایسے لوگوں کو شرعی تقاضوں کے مطابق سزا ہی دی جائے گی۔

اللہ رب العزت ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ

دعوتِ اسلامی کے تعلیمی بورڈ کنزُالمدارس کے تحت سالانہ امتحانات جاری

Tue, 4 Feb , 2025
91 days ago

دعوتِ اِسلامی کے تعلیمی بورڈ ”کنزُالمدارس “ کے تحت سالانہ امتحانات جاری

ملک بھر میں 786 امتحانی مراکز میں 1 لاکھ 68 ہزار 449 امیدوار امتحانات میں حصہ لے رہے ہیں

(رپورٹ: مولانا عمر فیاض مدنی)

دعوتِ اسلامی کے تعلیمی بورڈ کنزالمدارس بورڈکے تحت یکم فروری 2025ء سے سالانہ امتحانات کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ امتحانات کے لئے ملک بھر میں 786 امتحانی مراکزقائم کئے گئے ہیں جن میں 1 لاکھ 68 ہزار 449 امیدوار امتحانات میں حصہ لے رہے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق1 لاکھ 68 ہزار 449 امیدواروں میں سے تجوید و قرأت ، درسِ نظامی ، تخصصات اور کلیۃ الشریعۃ کے طلبہ و طالبات کی تعداد 90ہزار 417 ، ناظرہ و حفظ ِقرآنِ پاک کا امتحان دینے والے طلبہ و طالبات کی تعداد 69 ہزار 501 اور شارٹ کورسز مثلا امامت کورس اور فیضانِ شریعت کورس کا امتحان دینے والے طلبہ و طالبات کی تعداد 8ہزار 393 ہے۔

امتحان کے کامیاب وشفاف انعقاد کے لئے تمام انتظامات کو حتمی شکل دے دی گئی ہے اور امتحان کو کنزالمدارس بورڈکے جاری کردہ قوانین کے تحت منعقد کرانے کے لئے تمام امتحانی مراکز میں امتحانی عملے کا تقرر شفافیت سے مکمل کر لیا گیا ہے۔ تقریبا3 0ہزار 758 افراد پر مشتمل ناظمینِ امتحانات اور اساتذۂ کرام کا عملہ طلبہ کرام کی رہنمائی اور نظم و ضبط کو بہتر بنانے کے لئے اپنے فرائضِ منصبی نبھاررہاہے ۔ پرچہ اپنے مقررہ وقت صبح8:30 بجے سے شروع ہوکر 11:30 تک جاری رہتا ہے جس کو حل کرنے کے لئے طلبہ و طالبات دلجمعی سے پرچہ حل کرتے نظر آرہے ہیں۔

دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے رکن اور صدر کنز المدارس بورڈمولانا حاجی محمد جنید عطاری مدنی نے اسلام آباد میں قائم جامعۃ المدینہ کے امتحانی مرکز کا دورہ کیا اور انتظامات کا جائزہ لیا۔ اس موقع پر مدنی خبروں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ الحمدللہ تھوڑے ہی عرصے میں اِس قدر منظم اور پروفیشنل انداز سے کام کرنا یہ کنز المدارس بورڈ کی شاندار کامیابی ہے۔ اللہ پاک امتحان دینے والے امیدواروں کو کامیابیوں سے ہمکنار فرمائے۔ انہوں نے کہا کہ امیر اہل سنت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ بڑی پیاری بات بیان فرماتے ہیں کہ یہ دنیا کے امتحان ہمیں آخرت کے امتحان کی یاد دلاتے ہیں ۔ اس دنیا کے امتحانات میں اگر ناکام ہوبھی گئے تو دوسرا آپشن موجود ہے کہ دوبارہ امتحان دیا جاسکتا ہے لیکن آخرت کا امتحان ایک بار ہی ہے اور اس میں کامیابی کے سوا کوئی دوسرا آپشن یا کوئی دوسرا حل نہیں ہے۔

اس موقع پر ڈائریکٹنگ اسٹاف نیشنل انسٹیٹیوٹ آف پبلک ایڈمنسٹریشن ڈاکٹر محمد فاروق کا کہنا تھا کہ جس طرح کنزالمدارس بورڈ کے امتحانی سینٹرز میں ٹیکنالوجی کااستعمال کیا جارہا تھا میں نے کسی Public Sector Examination میں ٹیکنالوجی کا ایسا استعمال نہیں دیکھا۔ امتحانات کا اس طرح انعقاد کرنا سب کے لئے ایک یونیک مثال ہے،سینٹرز میں Administrative control بھی اپنی مثال آپ تھا جبکہ اسٹاف کا اسٹوڈنٹس کے ساتھ رویہ نہایت شائستہ اور Helpful نظر آیا۔

ڈائریکٹر کیریکولم اینڈ اسسمنٹ کنزالمدارس بورڈ پروفیسر محمد طاہر صدیقی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امتحان سیلف اسسمنٹ کے لئے بھی ہوتاہے جبکہ اس کی آؤٹ پُٹس کیریکولم کی بنیاد بنتی ہیں ۔ ہم جب کیریکولم بناتے ہیں تو ایک طرف ہمیں یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ ہماری اقدار کیا ہیں ؟ ہم نے ان کو ٹارگٹ کرنا ہوتا ہے اور دوسری طرف ہم نے حالاتِ حاظرہ کو بھی مدِ نظر رکھنا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا میں Supervisory Staff سے درخواست کروں گا کہ مکمل شفافیت کے ساتھ اس Examination Systemکو کامیاب کریں اور اسٹوڈنٹس کو تاکیدکروں گا کہ وہ کوشش کریں کہ انہوں نے جو پورے سال سیکھا پڑھا ہے اس کی ریفلکشن ان کے آؤٹ پُٹ سے نظر آئے۔


دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے مكتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 862 صفحات پر مشتمل کتاب سیرت مصطفے ﷺ صفحه 604صفحہ 605 پر ہے: حضور نبی اکرمﷺ ایک سفر میں آرام فرما رہے تھے کہ غورث بن حارث نے آپ ﷺ کو شہید کرنے کے ارادے سے آپ ﷺ کی تلوار لے کرنیام سے کھینچ لی، جب سرکار نامدار ﷺنیند سے بیدار ہوئے توغورث کہنے لگا: اے محمد ﷺ !اب آپ ﷺکومجھ سے کون بچا سکتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: الله۔ نبوت کی ہیبت سے تلوار اس کے ہاتھ سے گر پڑی اور سر کار عالی وقار ﷺ نے تلوار ہاتھ مبارک میں لے کر فرمایا: اب تمہیں میرے ہاتھ سے کون بچانے والاہے؟ غورث گڑ گڑا کر کہنے لگا: آپ ﷺہی میری جان بچائیے۔ رحمت عالم ﷺنے اس کو چھوڑ دیا اور معاف فرما دیا۔ چنانچہ غورث اپنی قوم میں آ کر کہنے لگا کہ اے لوگو! میں ایسے شخص کے پاس سے آیا ہوں جو دنیاکے تمام انسانوں میں سب سے بہتر ہے۔ (الشفا، 1/106)

سلام اس پر کہ جس نے خوں کے پیاسوں کو قبائیں دیں

سلام اس پر کہ جس نے گالیاں سن کر دعائیں دیں

میٹھی میٹھی اسلامی بہنو! دیکھا آپ نے مدنی آقا ﷺ نے قاتلانہ حملے کی کوشش کرنے والے کو معاف فرما دیا اور اس سے کیسا حسن سلوک فرمایا، میٹھے مصطفی ﷺکی دیوانیو ! خواہ کوئی آپ کو کتنا ہی ستائے، دل دکھائے ! عفو و درگزر سے کام لیجئے اور اس کے ساتھ محبت بھر اسلوک کرنے کی کوشش فرمائیے۔

معاف کرنے سے عزت بڑھتی ہے۔ خاتم المرسلين، رحمةٌ للعلمین ﷺ کا فرمان رحمت نشان ہے: صدقہ دینے سے مال کم نہیں ہوتا اور بندہ کسی کا قصور معاف کرے تو اللہ اس (معاف کرنے والے) کی عزت ہی بڑھائے گا اورجوالله کے لیے تواضع ( یعنی عاجزی ) کرے، اللہ اسے بلند فرمائے گا۔ (مسلم، ص 1397، حدیث: 2588)

گالیوں بھرے خطوط پر اعلیٰ حضرت کا عفو و درگزر: کاش ! ہمارے اندر یہ جذبہ پیدا ہو جائے کہ ہم اپنی ذات اور اپنے نفس کی خاطر غصہ کرنا ہی چھوڑ دیں۔ جیسا کہ ہمارے بزرگوں کا جذبہ ہوتا تھا کہ ان پر کوئی کتنا ہی ظلم کرے یہ حضرات اس ظالم پر بھی شفقت ہی فرماتے تھے۔ چنانچہ حیات اعلیٰ حضرت میں ہے: میرے آقا اعلیٰ حضرت علیہ رحمۃ الرحمن کی خدمت میں ایک بار جب ڈاک پیش کی گئی تو بعض خطوط مغلظات ( یعنی گندی گالیوں ) سے بھر پور تھے۔ معتقدین برہم ہوئے کہ ہم ان لوگوں کے خلاف مقدمہ دائر کریں گے۔ امام اہلسنت نے ارشاد فرمایا: جو لوگ تعریفی خطوط لکھتے ہیں پہلے ان کو جا گیریں تقسیم کر دو، پھر گالیاں لکھنے والوں پر مقدمہ دائر کر دو۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت، 1/43 ملخصاً)

مطلب یہ کہ جب تعریف کرنے والوں کو تو انعام دیتے نہیں پھر برائی کرنے والوں سے بدلہ کیوں لیں!

احمد رضا کا تازہ گلستاں ہے آج بھی خورشید علم ان کا درخشاں ہے آج بھی

جنت پانے کے تین نسخے: آخری نبی ﷺ نے فرمایا: تین باتیں جس شخص میں ہوں گی اللہ پاک ( قیامت کے دن ) اس کا حساب بہت آسان طریقے سے لے گا اور اس کو (اپنی رحمت سے ) جنت میں داخل فرمائے گا۔ میں نے عرض کی: یا رسول اللہ ﷺوہ کون سی باتیں ہیں؟ فرمایا: جو تم سے قطع تعلق کرے (یعنی تعلق توڑے ) تم اس سے ملاپ کرو، جو تمہیں محروم کرے تم اسے عطا کرو اور جوتم پر ظلم کرے تم اس کو معاف کردو۔ (معجم اوسط، 1/263، حديث: 909)

حضرت مولینا روم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

تو برائے وصل کردن آمدی نے برائے فصل کردن آمدی یعنی تو جوڑ پیدا کرنے کیلئے آیا ہے تو ڑ پیدا کرنے کیلئے نہیں آیا )۔ (مثنوی، 1/173)

مدنی وصیتیں: فرمان امیر اہلسنت الحمد لله! عاشق مدینہ عفی عنہ ( امیر اہل سنت نے بطور عاجزی یہاں پر سگ مدینہ کا لفظ استعمال فرمایا ہے) نے رضائے الہی پانے کی نیت سے اپنے قرضداروں کو پچھلے قرضوں، مال چرانے والوں کو چوریوں، ہر ایک کو غیبتوں، تہمتوں، تذلیلوں، ضربوں سمیت تمام جانی مالی حقوق معاف کئے اور آئندہ کیلئے بھی تمام تر حقوق پیشگی ہی معاف کر دیئے ہیں، چنانچہ عاشقان رسول کی مدنی تحریک دعوت اسلامی کے مکتبۃ المدینہ کے رسالے مدنی وصیت نامہ (16 صفحات ) صفحہ 9 پر عزت و آبرو اور جان کے متعلق ہے: مجھے جو کوئی گالی دے، برا بھلا کہے ( غیبتیں کرے )، زخمی کر دے یا کسی طرح بھی دل آزاری کا سبب بنے میں اسے اللہ پاک کے لئے پیشگی معاف کر چکا ہوں، مجھے ستانے والوں سے کوئی انتقام نہ لے۔ بالفرض کوئی مجھے شہید کر دے تو میری طرف سے اسے میرے حقوق معاف ہیں۔ ورثا سے بھی درخواست ہے کہ اسے اپنا حق معاف کر دیں (اور مقدمہ وغیرہ دائر نہ کریں )۔ اگر سرکار مدینہ ﷺ کی شفاعت کے صدقے محشر میں خصوصی کرم ہوگیا تو ان شاء اللہ اپنے قاتل یعنی مجھے شہادت کا جام پلانے والے کو بھی جنت میں لیتا جاؤں گا بشرطیکہ اس کا خاتمہ ایمان پر ہوا ہو۔ (اگر میری شہادت عمل میں آئے تو اس کی وجہ سے کسی قسم کے ہنگامے اور ہڑتالیں نہ کی جائیں۔ اگر ہڑتال اس کا نام ہے کہ لوگوں کا کاروبار زبردستی بند کروایا جائے۔ نیز دکانوں اور گاڑیوں پر پتھراؤ وغیرہ ہو تو بندوں کی ایسی حق تلفیوں کو کوئی بھی مفتیِ اسلام جائز نہیں کہہ سکتا۔ اس طرح کی ہڑتال حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔

پیاری اسلامی بہنو! جیساکہ ہم نے پڑھا کہ کسی کی غلطی پر معاف کردینےکی بہت فضیلت ہے وہیں کسی کی معذرت پر اس کو معاف نہ کرنے کی وعید بھی موجود ہے جیسا کہ ہمارے مکی مدنی آقا میٹھے میٹھے ﷺنے ارشاد فرمایا ہے: جو کوئی اپنے مسلمان بھائی سے معذرت کرے اور وہ بلا اجازت شرعی اس کا عذر قبول نہ کرے تو اسے حوض کوثر پر حاضر ہونا نصیب نہ ہوگا۔ (معجم اوسط، 2/376، حدیث: 6295 )

یااللہ! ہماری صفوں میں اتحاد پیدا فرما۔ یااللہ! ہمیں ذہنی ہم آہنگی نصیب فرما۔

تو بے حساب بخش کہ ہیں بے شمار جرم دیتی ہوں واسطہ تجھے شاہ حجاز کا


معذرت کا معنی معافی مانگنا ہے کس چیز کی؟کسی کے ساتھ تلخ کلامی کر دی تو معافی مانگنا، کسی کا دل دکھا دیا، کسی کو برا بھلا کہا وغیرہ کی معافی مانگنا۔ کہتے ہیں انسان خطا کا پتلا ہے۔ شیطان کے لیے ہمیں بہلانا پھسلانا کوئی مشکل کام نہیں اور اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ الشَّیْطٰنَ كَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِیْنًا(۵۳) (پ 15، بنی اسرائیل: 53) ترجمہ: بے شک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔

کبھی انسان کو انا کے نام پر دوسروں کے ساتھ تعلق توڑنے کو کہتا ہے اور کبھی انسان کے اندر غرور و تکبر پیدا کر کے انہیں لوگوں کی دل آزاری کرنے کو کہتا ہے۔ ایسے میں ہم جیسے کمزور نفس کے مالک سے یہ خطا سرزد ہو جاتی ہے۔ تو ایسے میں کیا کیا جائے شرمندگی محسوس ہو رہی ہے اپنے کیے کی لیکن کیا وہ میری معافی قبول کرے گا۔

معافی قبول ہونے کے مراحل: معافی قبول ہونے کا پہلا مرحلہ شرمندگی ہے دوسرا مرحلہ معافی مانگنا ہے اس شخص سے جس کی دل آزاری کی ہے اور تیسرا مرحلہ جو کہ سب سے بڑا درجہ ہے کہ جس سے معافی مانگی جارہی ہے وہ اسے معاف کر دے۔

شیطان کے بہلاوے: لیکن اب یہاں پر بھی شیطان ہمیں چھوڑ تو نہیں سکتا اب ہم سب لوگوں کی طرح اس کی بھی ایک ڈیوٹی ہے اور شیطان اپنی اس ڈیوٹی کو پورے خشوع و خضوع سے ادا کرتا ہے: ارے تم کیوں معاف کرو گے اسے اس نے تمہیں یہ کہا اس نے تمہیں وہ کہا جہاں بھر کی ساری اس کی برائیاں لا کر پیش کر دے گا اور بعض لوگ پھر نفس کے بہکاوے میں آکر معاف نہیں کرتے۔

افسوس !ہم اس معاملے میں یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اللہ کو رحم کرنا بے حد پسند ہے اور یہ اس رحمان کی صفت بھی ہے۔ ہم بھی تو خطا کرتے ہیں بار بار خطا کرتے ہیں اور بار بار اللہ سے معافی مانگتے ہیں جو خطا نہ کرے وہ تو فرشتہ ہوا انسان تھوڑی، ہاں دل ازاری ہوتی ہے لوگوں کے رویے سے ان کے جملے سے ان کی باتوں سے لیکن اگر بندہ آپ سے معافی مانگ لے شرمندگی کا اظہار کرے تو پھر اس سے بڑی بات کیا ہو سکتی ہے۔

نبی کے خاطر معاف کرنا: معاف کر دیں لوگوں کو یہ سوچ کر کہ آپ ﷺ جب تک ساری امتی جنت میں نہ چلے جائیں تب تک جنت میں نہیں جائیں گے آخری امتی کے جنت میں داخل ہونے تک انتظار کرتے رہیں گے اور یہ نہ ہو کہ یہ وہ شخص ہو جس نے ہم سے معافی مانگی ہو اور ہم نے اسے معاف نہ کیا ہو اور اب وہ اس کا حساب دے رہا ہو۔


معذرت قبول نہ کرنا معافی قبول نہ کرنے کے معنی میں ہی آتا ہے اگر کوئی سچے دل سے معذرت کرے تو اس کی معذرت قبول کر لی جائے اگر کوئی معذرت کرے ہم سے اپنی کسی غلطی کی تو ہم اسے معاف نہ کریں اس کی معذرت قبول نہ کریں تو ہو سکتا ہے معذرت کرنے والے کی دل آزاری ہو اور اگر کوئی غلطی کرے تو معذرت نہ کرے تو ہمیں اس کے بارے میں اپنے دل میں کوئی بدگمانی نہیں رکھنی چاہیے بلکہ اسے معاف کر دینا چاہیے اور درگزر کرنا چاہیے اگر کوئی ہم سے معذرت کرے تو ہمیں اسے معاف کر دینا چاہیے بندہ کیا چیز ہے جب رب تعالی بندے کی سچے دل کی ایک معذرت معافی کو قبول کر سکتا ہے تو بندہ پھر کیوں نہیں کسی کو معاف کر سکتا یا کسی کی معذرت قبول نہیں کرتا معافی معذرت توبہ کرنا تینوں ایک ہی معنی میں آتے ہیں توبہ رب تعالی کی ذات سے کی جاتی ہے اور معذرت وغیرہ رب تعالی کے بندوں سے کی جاتی ہے اگر ہم سے کوئی غلطی گناہ وغیرہ سرزد ہو جائے توتوبہ معذرت کے بارے میں حدیث مبارکہ ہے: گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے گویا اس نے گناہ کیا ہی نہیں۔ (ابن ماجہ، 4/491، حدیث: 4650)

توبہ یعنی معذرت کی ترغیب: توبہ کی بڑی اہمیت ہے اور یہ اللہ پاک کا ہم پر کرم ہے کہ اس نے ہمیں توبہ جیسی نعمت عطا فرمائی ہے بندہ کتنا خوش نصیب ہے کہ اگر بتقائے بشریت اس سے جھوٹ غیبت شراب نوشی یا کوئی اور گناہ سرزد ہو جائے اور پھر وہ اللہ کی بارگاہ میں شرمندہ ہو کر معافی مانگ لے تو اسے معافی مل جاتی ہے۔ اپنے گناہوں غلطیوں کو یاد رکھیں اور فورا سے گناہوں کی معافی اور غلطیوں کی معذرت کر لیا کریں نہ جانے کب زندگی ختم ہو جائے تو ہمیں اپنی گناہوں اور غلطیوں سے معذرت کرنے کا موقع ہی نہ ملے اس بارے میں ایک نوجوان کا واقعہ بیان کرتی ہوں جو اپنے گناہ یاد رکھتا اور لکھتا تھا، چنانچہ

ایک نوجوان اللہ پاک سے بہت ڈرتا تھا اور جب بھی اس سے کوئی گناہ سرزد ہوتا تو اسے اپنی ڈائری میں لکھ لیتا ایک بار جب اس نوجوان سے کوئی گناہ سرزد ہوا اور اس نے حسب معمول اپنی اس گناہ کو لکھنے کے لیے اپنی ڈائری کھولی تو اس پر پارہ 19 سورہ فرقان کی آیت نمبر 70 کا یہ حصہ تحریر تھا: ترجمہ کنز العرفان: تو ایسوں کی برائیوں کو اللہ نیکیوں سے بدل دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (مکاشفۃ القلوب، ص 27)

اگر گناہوں کو یاد رکھنے سے رب تعالیٰ کی ذات بندے کو بخش سکتی ہے تو پھر اپنے گناہوں سے توبہ معذرت کرنے پر بھی ضرور بخش دے گی مگر توبہ اور معذرت سچے دل سے ہو دوسروں کو ان کے گناہوں اور غلطی پر شرمندہ نہیں کرنا چاہیے کہ وہ معذرت کریں یا معافی مانگیں بلکہ اصلاح کا ایک طریقہ ہوتا ہے اس بارے میں حدیث مبارکہ بھی ہے: جس نے اپنے بھائی کو ایسے گناہ پر شرم دلائی جس سے وہ توبہ کر چکا ہے تو مرنے سے پہلے وہ خود اس گناہ میں مبتلا ہو جائے گا۔ (ترمذی، 4/662، حدیث: 2513)

شرحِ حدیث: گناہ سے وہ گناہ مراد ہے جس سے وہ توبہ کر چکا ہے یا وہ پرانا گناہ جسے لوگ بھول چکے یا خفیہ گناہ جس پر لوگ مطلع نہ ہوں اور عار دلانا توبہ کرانے کے لیے نہ ہو محض غصہ اور جوش غضب سے ہو یہ کوئی اور خیال میں رہیں مزید یہ کہ ایسا شخص اپنی موت سے پہلے یہ گناہ خود کرے گا اور اس میں بدنام ہوگا مظلوم کا بدلہ ظالم سے خود رب تعالی لیتا ہے۔ (مراۃ المناجیح، 6/473)


ہمارے پیارے نبی، مکی مدنی مصطفے ﷺ ہم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا: کیا میں تمہیں بتاؤں کہ تم میں برا شخص کون ہے؟ صحابہ نے عرض کیا جی ہاں اگر آپ اس کو بہتر سمجھے۔ حضور پاکﷺ نے فرمایا وہ شخص جو قصور کرنے والے کے عذر کو تسلیم نہ کرئے معذرت کو قبول نہ کرئے اور خطا کو معاف نہ کرے وہ تم میں سب سے برا ہے۔ شیطان انسان کا دشمن ہے وہ کبھی بھی نہیں چاہتا کہ مسلمان آپس میں مل کر رہیں اور یہ بھی درست ہے کہ کسی کو معاف کرنا نفس پر بہت گراں گزرتا ہے لیکن پیاری اسلامی بہنو! ہمیں چاہیے کہ معاف کرنے کے فضائل پر اور اللہ پاک سے بہترین اجر کی امید رکھتے ہوئے دوسروں کو معاف کر دیں آئیے اس ضمن میں چند آیات اور احادیث مبارکہ جان لیتے ہیں:

آیات کریمہ:

وَ جَزٰٓؤُا سَیِّئَةٍ سَیِّئَةٌ مِّثْلُهَاۚ-فَمَنْ عَفَا وَ اَصْلَحَ فَاَجْرُهٗ عَلَى اللّٰهِؕ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ(۴۰) (پ 25، الشوریٰ:40)ترجمہ کنز العرفان: اور برائی کا بدلہ اس کے برابر برائی ہے تو جس نے معاف کیا اور کام سنواراتو اس کا اجر اللہ (کے ذمہ کرم) پر ہے، بیشک وہ ظالموں کوپسند نہیں کرتا۔

پیاری اسلامی بہنو! اس آیت پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ پاک ظالم کو پسند نہیں فرماتا اور معاف کرنے والوں کا اجر اسی کے ذمۂ کرم پر ہے۔

2۔اور ارشاد فرمایا: وَ لْیَعْفُوْا وَ لْیَصْفَحُوْاؕ-اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۲۲) (پ 18، النور:22) ترجمہ کنز الایمان: اور چاہیے کہ معاف کریں اور درگزر یں کیاتم اسے دوست نہیں رکھتے کہ اللہ تمہاری بخشش کرے اور اللہ بخشنے والامہربان ہے۔

حضرت عبد الله بن مسعود سے روایت ہے، نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک الله تعالیٰ درگزر فرمانے والا ہے اور درگزر کرنے کو پسند فرماتا ہے۔ (مستدرك، 5 / 546، حدیث: 8216)

احادیث مبارکہ:

1۔ جو شخص اپنے (مسلمان) بھائی کے سامنے عذر پیش کرے اور وہ اسے معذور نہ سمجھے یا وہ اس کا عذر قبول نہ کرے تو اس پر ٹیکس وصول کرنے والے کی مثل گناہ ہوتا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/668، حدیث: 3718)2۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ پر جو زیادتی بھی کی گئی میں نے کبھی آپ ﷺ کو اس زیادتی کا بدلہ لیتے ہوئے نہیں دیکھا بہ شرطیکہ اللہ کی حدود نہ پامال کی جائیں اور جب اللہ کی حد پامال کی جاتی تو آپ ﷺ اس پر سب سے زیادہ غضب فرماتے، اور آپ کو جب بھی دو چیزوں کا اختیار دیا گیا تو آپ ان میں سے آسان کو اختیار فرماتے بہ شرطیکہ وہ گناہ نہ ہو۔

پیاری اسلامی بہنو! اگر احادیث مبارکہ اور دیگر کتب کا مطالعہ کیا جائے تو معاف کرنے کے اور بھی بہت فضائل موجود ہیں۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں عفو و درگزر سے کام لیتے ہوئے معاف کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

معذرت کے معنی:  معذرت عربی زبان کا لفظ ہے الزام سے بری ہونا عذر قبول کرنا معذرت کے معنی میں آتے ہیں اور اعتذار کے معنی ہیں عذر بیان کرنا۔ آج کل معذرت بھی مشروط ہوتی ہے یعنی کہنے والا کہتا ہے اگر میری بات سے کسی کی یا فلاں شخص کی دل ازاری ہوئی ہے تو میں معذرت خواہ ہوں اس کے واضح یہ معنی یہ ہیں کہ وہ اپنی بات کی صحت پر اصرار کر رہا ہوں اور اس کے کلام سے جو معنی سننے اور پڑھنے والے کو واضح طور پر سمجھ میں اآا ہے اسے ان کے فہم کا تصور قرار دیتا ہے لہذا یہ معذرت کسی بھی صورت میں معافی نہیں ہے۔ معافی اسے کہتے ہیں جب انسان اپنی غلطی کا اعتراف کرے اس پر نادم ہو اور غیر مشروط طور پر اس کی معافی مانگے البتہ غیر مشروط طور پر اپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے جو معذرت کی جائے یا معافی مانگی جائے وہ قابل تحسین ہے اور ایسے شخص کی معذرت قبول کرنا شریعت کی نظر میں پسندیدہ امر ہے۔

احادیث مبارکہ:

1۔ حضرت جودان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے اپنے بھائی کے سامنے اپنی کسی غلطی پر معافی مانگ لی اور اس نے یہ معافی قبول نہ کی تو اس پر ایسا ہی گناہ ہوگا جیسے ٹیکس کی وصولی میں خیانت یا زیادتی کرنے والے پر ہوتا ہے۔ (ابن ماجہ، 4/668، حدیث: 3718)

2۔ ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ بیان کرتی ہیں نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تم پاک دامنی اختیار کرو تاکہ تمہاری عورتیں بھی پاک دامن ہوں تم اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو تاکہ تمہاری اولاد بھی تمہارے ساتھ نیک برتاؤ کرے اور جو اپنی کسی غلطی پر اپنے مسلمان بھائی سے معافی مانگے اور وہ اس کی معافی کو قبول نہ کریں تو وہ میرے حوض کوثر پر نہیں آئے گا۔ (معجم اوسط، 4/376، حدیث:6295)

3ـ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے اپنی زبان کو لوگوں کی پردہ دری سے روکے رکھا اللہ تعالی کے قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی فرمائے گا اور جس نے اپنے غصے پر قابو پایا اللہ پاک اپنے عذاب کو اس سے روک دے گا اور جو اللہ رب العزت کے حضور اپنی خطاؤں پر معافی کا طلبگار ہو اللہ پاک اس کی معافی کو قبول فرمائے گا۔ (مراۃ المناجیح، 6/667)

پیاری اسلامی بہنو! دیکھا آپ نے حضورﷺ نے اپنے مسلمان بھائی کی معذرت قبول نہ کرنے کو حوض کوثر سے سیراب ہونے کی محرومیت کا سبب قرار دیا ہے اور اللہ پاک بھی بروز قیامت ایسے شخص کو معاف نہیں کرے گا لہذا ہمیں چاہیے ایک دوسرے سے دل کی گہرائیوں سے معافی مانگیں اور ایک دوسرے کو معاف کر دیں تاکہ بروز قیامت ہماری اس پر پکڑ نہ ہو۔ آئیے چند اور احادیث مبارکہ جان لیتے ہیں:

4۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ اس آدمی پر رحم کرے جس نے اپنے بھائی کی عزت یا مال کے معاملے میں نا انصافی کی ہو اور پھر اس کے پاس جا کر معذرت کر لی ہو قبل اس کے کہ وہ دن آ جائے جس میں اس کا مواخذہ کیا جائے اور جہاں نہ دینار ہوگا نہ درہم وہاں تو معاملہ یوں حل کیا جائے گا کہ اگر اس ظالم کے پاس نیکیاں ہوئیں تو اس سے نیکیاں لے لی جائیں گی اور اگر اس کے پاس نیکیاں نہ ہوئیں تو مظلوم لوگ اپنی برائیاں اس پر ڈال دیں گے۔

5۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ایسی بات سے اجتناب کر جس پر معذرت کرنا پڑے۔ (مسند امام احمد، 9/130، حدیث: 23557)

اللہ پاک ہمیں معافی مانگنے اور معاف کرنے کی توفیق عطا فرمائے دین کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔