اسلام نے ہر ذمہ دار پر اسکے ماتحت کے حقوق مقرر کیے ہیں اور ان کو ادا کرنا بھی لازم کیا ہے اور ادا نہ کرنے پر سخت وعیدیں بھی بیان کیں۔ کوئی بھی حکمران ان حقوق سے روگردانی کر کے اپنی ذمہ داری پر پورا نہیں اتر سکتا اور نہ ہی ان ذمہ داریوں سے لاپرواہی اسے بلند مقام تک پہنچا سکتی ہے کسی بھی مقام کو حاصل کرنے کے لیے اس کام کو پوری زمہ داری سے ادا کرنا پڑتا ہے اور جب ان حقوق کو پورا کرنا شریعت نے لازم کردیا ہو تو ان حقوق کو پورا کرنا بدرجہ اولیٰ ضروری ہوگا۔ اسی طرح شریعت نے ہر حاکم پر اسکی رعایا کے متعلق حقوق مقرر کیے ہیں جن کو پورا کرنا ہر حاکم پر ضروری ہے

تاجدارِ رسالت ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے ہرشخص نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کے ماتحتوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا،چنانچہ حاکم نگہبان ہے،اس سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ آدمی اپنے اہلِ خانہ پر نگہبان ہے،اس سے اس کے اہلِ خانہ کے بارے سوال کیا جائے گا۔عورت اپنے شوہر کے گھر میں نگہبان ہے، اس سے ا س کے بارے میں پوچھا جائے گا،خادم اپنے مالک کے مال میں نگہبان ہے، اس سے اس کے بارے میں سوال ہو گا،آدمی اپنے والد کے مال میں نگہبان ہے، اس سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا،الغرض تم میں سے ہر شخص نگہبان ہے اس سے اس کے ماتحتوں کے بارے میں سوال ہوگا۔ (بخاری، 1/309، حدیث: 893)

حاکم پر رعایا کے حقوق بہت سے ہیں جن میں سے چند یہ ہیں:

انصاف کرنا: اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰۤى اَهْلِهَاۙ-وَ اِذَا حَكَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِؕ-اِنَّ اللّٰهَ نِعِمَّا یَعِظُكُمْ بِهٖؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ سَمِیْعًۢا بَصِیْرًا(۵۸) (پ 5، النساء: 58) ترجمہ کنز العرفان: بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں جن کی ہیں ان کے سپرد کرو اور یہ کہ جب تم لوگوں میں فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو بیشک اللہ تمہیں کیا ہی خوب نصیحت فرماتا ہے، بیشک اللہ سننے والا، دیکھنے والا ہے۔

تفسیر صراط الجنان میں ہے: حضرت عبد الله بن عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک انصاف کرنے والے اللہ کے ہاں نور کے منبروں پر ہوں گے یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی حکومت، اپنے اہل و عیال اور اپنے ماتحت لوگوں میں عدل وانصاف سے کام لیتے تھے۔ (مسلم، ص 783، حدیث: 4721 ملتقطا)

رعایا کی ضروریات کا خیال رکھا جائے: حضرت امیر معاویہ رضی اللہُ عنہ نے فرمایا: میں نے نبیِّ کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: جسے اللہ مسلمانوں کی کسی چیز کا والی و حاکم بنائے پھر وہ مسلمان کی حاجت و ضرورت و محتاجی کے سامنے حجاب کردے(اس طرح کہ مظلوموں، حاجت مندوں کو اپنے تک پہنچنے نہ دے) تو اللہ اس کی حاجت و ضرورت و محتاجی کے سامنے آڑ فرما دے گا چنانچہ حضرت معاویہ نے لوگوں کی حاجت پر ایک آدمی مقرر فرما دیا۔(مراٰة المناجیح، 5/373)

رعایا کی نگہبانی کرے: حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، سیدُ المرسلین ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے کسی رعایا کا حکمران بنایا ہو اور وہ خیر خواہی کے ساتھ ان کی نگہبانی کا فریضہ ادا نہ کرے تو وہ جنت کی خوشبو تک نہ پاسکے گا۔ (بخاری، 4 /456، حدیث: 7150)

نرمی کرنا: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، میں نے حضورِ اقدس ﷺ کو یہ دعا فرماتے ہوئے سنا: اے اللہ! میری امت کا جو شخص بھی کسی پر والی اور حاکم ہو اور وہ ان پر سختی کرے تو تو بھی اس پر سختی کر اور اگر وہ ان پر نرمی کرے تو تو بھی اس پر نرمی کر۔ (مسلم، ص 1061، حدیث: 8127)

اللہ ہمیں شریعت پر عمل کرتے ہوئے تمام حقوق کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین بجاہ النبی الامین ﷺ