جاننا چاہیے کہ نماز تمام عبادتوں میں افضل و اشرف اور اتم و اکمل عبادت ہے اور نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا: جُعِلَتْ قُرَّهُ عَيْنِي فِي الصَّلوۃ نماز میں میری آنکھوں کی ٹھنڈک رکھی گئی ہے۔

(سننِ کبری للنسائی،5/280،حدیث:8888)

حضور اکرم ﷺ خانہ دل میں جو خوشی و مسرت، آنکھوں کی روشنی اور خوش دلی رکھتے اور جوذوق و مشاہدہ اس وقت میں پاتے وہ کسی عبادت اور کسی وقت میں نہ پاتے ۔قرۃ العین،مقصود اور غیب سے نور پانے میں فرحت و سرور سے کنایہ ہے۔قرۃ،قَربفتح قاف سے بنا ہے جس کے معنی قرار و ثبات کے ہیں۔ اس لیے کہ نظارہ محبوب سے آنکھ کو جتنا قرار وسکون ملتا ہے کسی اور چیز سے حاصل نہیں ہوتا اور حالت سرور خوش حالی میں اپنی جگہ ساکن رہتی ہےاور غیر محبوب پر نظر ڈالنے سے نظر پراگندہ اور متلاشی محبوب رہتی ہے اور حزن و خوف کی حالت میں لرزاں و سرگرداں ہوتی ہے۔یا قرۃ یہ،قُر بضم قاف سے بنا ہے جس کے معنی ٹھنڈک کے ہیں اور محب کی لغت میں آنکھوں کی ٹھنڈک محبوب کے مشاہدہ سے ہوتی ہے ۔

اعداء کے دیکھنے میں گرمی و سوزش ہوتی ہے۔ اسی بنا پر فرزند کو قرۃ العین کہتے ہیں۔ نماز میں ظاہر و باطن اور قلب و جوارح سب کے سب بدرگاہ قرب و عزت حق سبحانہ متوجہ و مشغول ہیں۔اللہ پاک نے ہر نمازی کے لیے ایک رکعت میں وہ تمام عبادتیں جمع فرمادی ہیں جو تمام فرشتوں میں جدا جدا بنائی گئی ہیں، یہ ایسا مجموعہ عبادات ہے جو کسی اور عبادت میں جمع نہیں ہے۔طہارت،صحت استقبال قبلۂ استفتاح،یعنی تکبیر تحریمہ،تکبیرات،قرأت قیام رکوع،سجود،تسبیح،دعا توجہ حضور قلب اور خشوع و خضوع وغیرہ ہر ایک ان میں سے مستقل عبادت ہے۔ کس خوبی سے ان سب کو ایک ہی طریقہ عبادت میں جمع فرمایا ہے اور اس جامعیت کیسا تھ یہ کتنی عجیب خوبی ہے کہ یہ حضور ﷺ کی اس نماز کے مشابہ ہے جس کی حقیقت تمام برکات و کمالات کی جامع ہے اور اسی تعلق و مناسبت سے حضور اکرم ﷺ نے قرۃ العین فرمایا۔

(مدارج النبوہ،ص431)

حضور ﷺ کی مبارک حیات ہمارے لیے مشعل راہ اور عمل کے لیے بہترین نمونہ ہے۔ آئیے!حضور ﷺ نماز سے کس قدر محبت فرماتے اور اس کی کتنی تاکید فرماتے اس کے بارے میں پڑھتی ہیں:

نماز اور ماتحتوں کا خیال رکھو:ام المومنین حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ نبیِ کریم ﷺ اپنے مرضِ وصال(یعنی جس بیماری میں ظاہری وفات شریف ہوئی اُس)میں فرماتے تھے:نماز کو پابندی سے ادا کرتے رہو اور اپنے غلاموں کا خیال رکھو ۔(ابن ماجہ، 2 / 282 ،حدیث:1625)

حضرت علامہ مولانا مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں:یعنی نماز کی پابندی و حفاظت کرو مرتے دم تک نہ چھوڑو ۔معلوم ہوا کہ نماز بڑا ہی اہم فریضہ ہے کہ حضور ﷺ نے خصوصیت سے اس کی وصیت فرمائی،سعادت مند اولاد باپ کی وصیت سختی سے پوری کرتی ہے ۔ سعادت مند امتی وہ ہے جو حضور ﷺ کی اس وصیت پر سختی سے پابندی کرے،اللہ پاک توفیق دے۔

(مراۃ المناجیح،5/166 مختصر)

مبارک پاؤں پر ورم آجاتا:ہمارے پیارے آقا ﷺ کی رات کی نمازوں کی کیفیت اللہ اللہ!حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ بیان فرماتے ہیں کہ مصطفےٰ جانِ رحمت ﷺ نے رات کی نماز میں اتنا طویل قیام فرمایا کہ مبارک قدم سوج گئے ۔عرض کی گئی:آقا!آپ اتنی تکلیف کیوں اُٹھاتے ہیں ؟ آپ تو بخشے بخشائے ہیں! ارشاد فرمایا:کیامیں شکر گزار بندہ نہ بنوں ؟(مسلم،ص1160،حدیث:7126)

مرحبا!کیا خوب ہے!اللہ والوں کی نماز ان کے صدقے ہم کو بھی دے یا خدا سوز و گداز

حکیم الامت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتےہیں: یعنی میری یہ نماز مغفرت کے لئے نہیں بلکہ مغفرت کے شکریہ کے لئے ہے۔خیال رہے کہ ہم لوگ عبد ہیں حضور ﷺ عبدہ ہیں،ہم لوگ شاکر ہو سکتے ہیں حضور ﷺ شکور ہیں یعنی ہر طرح ہر وقت ہر قسم کا اعلیٰ شکر کرنے والے مقبول بندے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جنت کی لالچ میں عبادت کرنے والے تاجر ہیں ۔ دوزخ کے خوف سے عبادت کرنے والے عبد ہیں مگر شکر کی عبادت کرنے والے احرار ہیں ۔ (مراۃ المناجیح، 2/254)

رات کے قیام میں سجدے کو لمبا کرنا:حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:رسول اللہﷺ رات کو گیارہ رکعات پڑھا کرتے تھے۔یہ آپ کی(رات کی)نماز تھی۔اس میں آپ اتنا طویل سجدہ کرتے کہ اپنا سر مبارک اٹھانے سے پہلے تم میں سے کوئی پچاس آیات پڑھ لے،نیز فجر سے پہلے دو سنت ادا کرتے،پھر اپنی دائیں کروٹ پر لیٹ جاتے حتی کہ مؤذن آپ کو نماز فجر کی اطلاع دیتا۔( بخاری، 1/669)

حضورﷺ نے ہزاروں نمازیں ادافرمائیں:شبِ معراج پانچوں نمازیں فرض ہونے کے بعد ہمارےپیارے پیارے آقا،مکی مدنى مصطفى ﷺ نے اپنی حیات ظاہری(یعنی دُنیوی زندگی)کےگیارہ سال چھ ماہ میں تقریباً 20 ہزار نمازیں ادا فرمائیں(در مختار،2/6 ماخوذا،وغیرہ)تقریباً 500 جمعے ادا کئے(مراٰۃ المناجیح،2/346) اور عید کی 9نمازیں پڑھیں ۔(سیرت مصطفٰے،ص 249 ملخصاً)قرآنِ کریم میں نماز کا ذکر سینکڑوں جگہ آیا ہے۔

اے خوش نصیب عاشقاتِ نماز!میرے آقا ،اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:نماز پنج گانہ(یعنی پانچ وقت کی نمازیں)اللہ پاک کی وہ نعمت عظمی ہے کہ اس نے اپنے کرم عظیم سے خاص ہم کو عطا فرمائی ہم سےپہلےکسی امت کو نہ ملی ۔(فتاویٰ رضویہ، 5/43)

اللہ کریم ہمیں نعمتوں کی قدردان بنائے،پانچوں نمازوں کی پابند بنائے اور حضور ﷺ کی سنتوں پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین