حضور نبیِ کریم، مکی مدنی مصطفےٰﷺ دین کی تعلیم و تبلیغ کی رات دن کی مصروفیات کے باوجود اللہ پاک کی بہت زیادہ عبادت کیا کرتے تھے۔آپ اعلانِ نبوت سے پہلے بھی غارِ حرا میں قیام ومراقبہ اور ذکروفکر کے طور پر اللہ کریم کی عبادت میں مصروف رہتے تھے۔آپ بعض اوقات ساری ساری رات عبادتِ الٰہی میں گزار دیتے اور طویل قیام فرمانے کی وجہ سے آپ کے قدمین شریفین سوج جاتے تھے۔چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:رسول اللہﷺ نماز میں اس قدر قیام فرماتے کہ مبارک پاؤں سوج جاتے ،ایک مرتبہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا  نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ!آپ ایسا کر رہے ہیں۔ حالانکہ اللہ پاک نے آپ کے سبب آپ کے اگلوں اور پچھلوں کے گناہ بخش دئیے ہیں!تو آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا میں اللہ پاک کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟(مسلم،ص1160،حدیث:7126)

نبی کریمﷺ کی نماز سے محبت:

اللہ کریم کے آخری نبیﷺ کو نماز سے اس قدر محبت تھی کہ اللہ پاک کے آخری نبیﷺ نے نماز کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک فرمایا۔(معجم کبیرہ،20/420،حدیث:1012)جب نماز کا وقت ہوتا تو آقا کریمﷺ حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرماتے: اے بلال!اٹھو اور نماز سے ہمیں راحت پہنچاؤ۔

(ابوداود،4/385، حدیث:4986)

نبی کریمﷺ کی نماز کی کیفیت:

حضرت عبداللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ اللہ پاک کے آخری نبیﷺ کی نماز کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ایک مرتبہ میں اللہ پاک کے آخری نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نماز پڑھ رہے تھے اور رونے کی وجہ سے آپ کے سینے مبارک سے ایسی آواز آ رہی تھے جیسی ہنڈیا کی ہوتی ہے۔

(ابوداود،1/342، حدیث:904)

ان دونوں روایات سے حضور پاکﷺ کی نماز سے محبت اور خشوع وخضوع کا اندازہ ہوتا ہے۔آقا کریمﷺ کی امتی ہونے کے ناطے ہمیں بھی نماز کو واقعی اپنی راحت و سکون کا ذریعہ بنانا چاہیے۔ حضور پاکﷺ نے ارشاد فرمایا: اَلصَّلاۃ نُورٌ یعنی نماز نور ہے۔(مسلم،ص115،حدیث534)ہم سب جانتی ہیں کہ لائٹ کا مقصد روشنی دینا ہے اور اسی مقصد کو حاصل کرنے کیلئے عموماً ٹیوب لائٹ بلندی پر لگائی جاتی ہے لیکن جب یہ ٹیوب لائٹ خراب ہو کر روشنی دینا چھوڑ دیتی ہے تو ہم اسی ٹیوب لائٹ کو اتار کر کوڑا دان پھینک دیتی ہیں کیونکہ اصول یہ ہے کہ بے مقصد چیز کو کوئی مقام نہیں دیا جاتا ۔ہم انسانوں کو پیدا کیے جانے کا مقصد اللہ رب العزت کی عبادت کرنا ہے اور عبادت میں نماز کو بہت زیادہ اہمیت اور فضیلت حاصل ہے۔ اللہ پاک کے پیارے نبی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تو اپنے لیے اور اپنی اولاد کیلئے نماز کے بارے میں دعا بھی کی جس کا ذکر قرآنِ پاک میں کچھ یوں ہے:رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوةِ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ ﳓ رَبَّنَا وَ تَقَبَّلْ دُعَآءِ(۴۰) (پ13،ابراہیم:40)ترجمہ: اے ہمارے رب مجھے نماز کا قائم کرنے والا رکھ اور کچھ میری اولاد کو اے ہمارے رب اور ہماری دعا سن لے۔

حقوق اللہ میں نماز کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ روزِ قیامت تمام حقوق اللہ میں سب سے پہلے اسی کے متعلق سوال کیا جائے گا۔چنانچہ حدیثِ پاک میں ہے : کل قیامت کے دن بندے سے سب سے پہلے اس کی نماز کے بارے میں سوال ہو گا۔(نسائی،ص652،حدیث:3997)اس حدیثِ پاک کے تحت حضرت علامہ عبد الرؤف منافی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:بیشک نماز ایمان کی علامت ہے اور اصل عبادت ہے۔

(التیسیر، 1/391)

رحمتِ عالم نورِ مجسمﷺ نے نماز کو نور قرار دیا ہے اس کی وضاحت ملاحظہ کیجئے:جیسے روشنی گڑھوں میں گرنے سے بچاتی ہے ایسے ہیں نماز بے حیائی اور اس جیسے کئی گناہوں کے گڑھے میں گرنے سے بچاتی ہے۔ قیامت کے دن نمازی کیلئے اجر وثواب نور بن کر ظاہر ہوگا نمازیوں کے چہرے بروزِ قیامت نور کی طرح چمک رہے ہوں گے۔نورِ نماز دنیا و آخرت میں نمازی کے چہرے سے ظاہر ہوگا۔نماز مسلمان کے دل، چہرے،قبر اور قیامت کی روشنی ہے۔(شرح نووی،2/101 ماخوذاً)( مراۃ المناجیح،1/232ماخوذاً)

ذرا غور کیجئے کہ نماز قیامت کے دن نور بن کر ظاہر ہوگی اور نمازی بخش دئیے جائیں گے۔نمازی نماز کے ذریعے اپنی قبر کو روشن کرتی اور راحت پاتی ہے۔ ہم نماز میں اتنی سستی کرتی ہیں کہ ذہن بناتی ہیں کہ کل پڑھ لیں گی لیکن کیا یہ نہیں سوچتیں کہ کل آئے گی بھی یا نہیں!اس لئے ہمیں بھی حضور پاکﷺ کی امتی ہونے کی ناطے نماز کو باقاعدگی سے پڑھنا چاہیے کیونکہ نماز سے انسان کو دلی سکون حاصل ہوتا ہے اور انسان کی مشکلات آسانیوں میں بدل جاتیں ہیں۔چونکہ نماز مومن کی معراج ہے اسی لئےنماز نمازی کےلئے ذریعہ نجات ہوگی ۔ اللہ پاک ہمیں حقیقی معنوں میں پانچ وقت کی نماز پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین