آپ کی زندگی کا ہر لمحہ اور ہر عمل عبادت و بندگی کی عظیم مثال ہے۔ نبیِ کریم ﷺ کی نماز سے محبت ایک روشن چراغ کی مانند ہے جو ہمارے لیے رہنمائی ہے۔ نماز چونکہ دین کا ستون ہےلہٰذا نماز آپ کی حیات مبارکہ میں بہت حیثیت رکھتی تھی۔آیت مبارکہ کا ترجمہ:اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِدُلُوْكِ الشَّمْسِ اِلٰى غَسَقِ الَّیْلِ وَ قُرْاٰنَ الْفَجْرِؕ-اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُوْدًا(۷8) (پ15،بنی اسرائیل: 78)ترجمہ:نماز قائم رکھو سورج ڈھلنے سے رات کی اندھیری تک اور صبح کا قرآن بےشک صبح کے قرآن میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔

قَدْ نَرٰى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِی السَّمَآءِۚ-فَلَنُوَلِّیَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضٰىهَا۪-فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِؕ-(پ2،البقرۃ:142)ترجمہ:ہم دیکھ رہے ہیں بار بار تمہارا آسمان کی طرف منہ کرنا تو ضرور ہم تمہیں پھیردیں گے اس قبلہ کی طرف جس میں تمہاری خوشی ہے ابھی اپنا منہ پھیر دو مسجد حرام کی طرف۔

آپ کی نماز سے محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نماز آپ کے دل کا سکون اور روح کی راحت تھی۔یہ وہ عمل تھا جس کے ذریعے آپ اللہ پاک سے براہ راست ہم کلام ہوتے ،اپنی حاجات پیش کرتے اور اللہ کی رضا حاصل کرتے تھے۔ آپ کی نماز کے ساتھ اتنی لگن تھی کہ آپ ساری ساری رات عبادت میں مشغول رہا کرتے تھے یہاں تک کہ نماز کو طویل کرنے کی وجہ سے آپ کے قدم شریف سوج جاتے تھے۔

اللہ کریم کے آخری،نبی محمد عربی ﷺ کی نماز سے بہت محبت تھی اور آپ نے نماز کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک فرمایا۔(معجم کبیر،20 / 420،حدیث:1012)جب نماز کا وقت ہوتا تو حضور ﷺ حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرماتے: اے بلال! اٹھو !اور ہمیں نماز سے راحت پہنچاؤ!

(ابوداود4/385،حدیث: 4986)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے نبیِ کریم ﷺ کی رات کی نماز کے متعلق پوچھا گیا کہ رات کو آقا کریم ﷺ کا کیا معمول تھا؟ تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:حضورﷺ رات کے پہلے حصہ میں سو جاتے پھر اٹھ کر قیام فرماتے تھے اس کے بعد جب سحری کا وقت قریب ہوتا تو وتر عطا فرماتے ،پھر اپنے بستر پر تشریف لے آتے، پھر اگر آپ کو رغبت ہوتی تو اپنی اہلیہ کے پاس جاتے، پھر جب اذان سنتے تو تیزی سے اٹھتے، اگر غسل کی حاجت ہوتی تو غسل فرماتے ورنہ صرف وضو فرما لیتے اور نماز کے لیے تشریف لے جاتے۔(شمائل ترمذی،ص161،حدیث:251)