5 ستمبر 2022ء بروز پیر عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کے تحت بذریعہ آن لائن مدنی  مشورہ ہوا جس میں شعبہ فیضان آن لائن اکیڈمی ہوم کلاسز کے شفٹ ناظمین شریک ہوئے۔

اس مدنی مشورے میں رکنِ شعبہ مولانا محمد عامر سلیم عطاری مدنی نے ناظمین سے چند اہم امور پر کلام کرتے ہوئے لرننگ مینجمنٹ سسٹم سافٹ ویئر سمیت اس میں نئی اپڈیٹس کے حوالے سے تبادلۂ خیال کیا۔

مزید رکنِ شعبہ نے ہوم کلاسز کی شفٹوں کے حوالے سے دیگر دینی کاموں کی کارکردگی کا جائزہ لیا اور آئندہ کے اہداف دیئے جس پر ناظمین نے اچھی اچھی نیتیں کیں۔(رپورٹ:محمد وقار یعقوب عطاری مدنی برانچ ناظم فیضان آن لائن اکیڈمی، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


پاکستان کے مختلف شہروں میں سیلاب اور بارشوں سے متأثرہ عاشقانِ رسول کی امداد کے لئے شعبہ ایف جی آر ایف دعوتِ اسلامی کے ذمہ داران فلاحی کاموں میں دن رات کوششیں کر رہے ہیں۔

اس دوران دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے رکن حاجی یعفور رضا عطاری نے ٹک ٹاکرز اور یوٹیوبرز سمیت دیگر اسلامی بھائیوں کےہمراہ پاکستان کے شہر سوات میں سیلاب سے متأثرین کی مدد کے لئے اُن کے درمیان راشن اور رقم تقسیم کی۔بعدازاں رکنِ شوریٰ حاجی یعفور رضا عطاری نے مصیبت زدہ عاشقانِ رسول کے لئے دعا کروائی۔(رپورٹ:محمد ابوبکر عطاری معاون رکن شوری حاجی یعفور رضا عطاری، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


سیلاب زدگان کی امداد اور اُن کی خیر خواہی کرنے کے لئے پچھلے دنوں دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے رکن حاجی یعفور رضا عطاری سوات شہر صوبہ خیبر پختونخواہ کے شیڈول پر تھے۔

اس دوران رکنِ شوریٰ حاجی یعفور رضا عطاری نے شعبہ ایف جی آر ایف کے ذمہ داران کے ہمراہ سوات کے پریشان حال لوگوں کی امداد کرتے ہوئے اُن کی خیر خواہی کی اور سیلاب زدگان کے درمیان رقم کے ساتھ ساتھ ضروریاتِ زندگی کا سامان بھی تقسیم کیا۔بعدازاں وہاں موجود لوگوں نے دعوتِ اسلامی کی دینی و فلاحی خدمات کو سراہتے اپنی نیک خواہشات کا اظہار کیا۔(رپورٹ:محمد ابوبکر عطاری معاون رکن شوری حاجی یعفور رضا عطاری، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


دعوتِ اسلامی کے زیرِ اہتمام پچھلے دنوں ہونے والی بارشوں کے سبب مصیبت زدہ اور پریشان حال لوگوں کی امداد کے لئے شعبہ ایف جی آر ایف کے اسلامی بھائی فلاحی کاموں میں مصروفِ عمل ہے۔

اسی سلسلے میں رکنِ مرکزی مجلسِ شوریٰ حاجی محمد عقیل عطاری مدنی نے ذمہ دار اسلامی بھائیوں کے ہمراہ پنجاب پاکستان کے شہر ڈیرہ غازی خان میں بارش اور سیلاب سے متأثرہ لوگوں سے ملاقات کی۔

اس دوران رکنِ شوریٰ حاجی محمد عقیل عطاری مدنی نے سیلاب متأثرین کی مدد کرتے ہوئے اُن کے درمیان ضروریاتِ زندگی کا سامان اور نقد رقم تقسیم کی۔ ( کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


7 ستمبر 1974ء کو پاکستان میں ریاستی سطح پر قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا تھا جس کی بنا پر ہر سال 7 ستمبر کو ملک بھر میں ”یوم تحفظ ختم نبوت“ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ دعوت اسلامی بھی اس دن کو نہایت مذہبی عقیدت و احترام سے مناتی ہے۔

ہر سال کی طرح اس سال بھی دعوت اسلامی 7 ستمبر 2022ء کو ”یوم تحفظ ختم نبوت“ منانے جارہی ہے۔ اسی مناسبت سے 7 ستمبر 2022ء بدھ کی صبح 10:00 بجے نگران شوریٰ حاجی مولانا محمد عمران عطاری مُدَّ ظِلُّہُ العالی ”یوم تحفظ ختم نبوت“کے موضوع پر خصوصی بیان فرمائیں گے جسے مدنی چینل پر براہ راست نشر کیا جائیگا۔اس پروگرام میں تمام جامعۃ المدینہ کے اساتذۂ اور طلبہ کرام سے بھر پور انداز میں شرکت کرنے کی درخواست ہے۔اس کے علاوہ رات 9:15 بجے مدنی چینل پر پروگرام بنام ”سب سے آخری نبیﷺ“ منعقد کیا جائیگا جس میں شیخ الحدیث والتفسیر مفتی محمد قاسم عطاری مُدَّ ظِلُّہُ العالی ، نگران شوریٰ حاجی مولانا محمد عمران عطاری مُدَّ ظِلُّہُ العالی اور رکن شوریٰ مولانا حاجی عبدالحبیب عطاری ختم نبوت کے حوالے سے گفتگو فرمائیں گے۔



4 اپریل 2022ء  کو کانسٹیبل مشرف چٹھہ کا دوران ڈیوٹی ہارٹ اٹیک کی وجہ سے انتقال ہوگیا ۔ ان کی نماز جنازہ ان کے آبائی گاؤں کلئیر والا میں ادا کی گئی جس میں دعوت اسلامی کے شعبہ رابطہ برائے شخصیات کے ذمہ داران نے بھی شرکت کی اور لواحقین سے ملاقات کرتے ہوئے تعزیت کا اظہار کیا۔ اس موقع پر ڈی پی او حافظ آباد اور دیگر شخصیات سے ملاقات کی۔ دوران ملاقات انہیں ملک و بیرون ملک ہونے والے دعوت اسلامی کے دینی و فلاحی کاموں کے حوالے سے بتایا۔ اس کے علاوہ جامعۃ المدینہ کوٹ گورا اورسیلاب متاثرین کے امدادی کیمپ کا وزٹ کروایا۔(رپورٹ: شعبہ رابطہ برائے شخصیات دعوت اسلامی ڈسٹرکٹ حافظ آباد،کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)


5 ستمبر 2022ء  کو دعوت اسلامی کے شعبہ رابطہ برائے شخصیات ملتان ڈویژن کےذمہ دارفداعلی عطاری نے وفدکےہمراہ ڈپٹی کمشنررائےیاسرحسین بھٹی سے ان کے آفس میں ملاقات کی۔

دوران ملاقات دعوت اسلامی کےتحت ہونیوالےفلاحی کاموں بالخصوص موجودہ سیلابی صورتحال میں دعوت اسلامی کےتحت ریلیف کےکاموں کےحوالےسےانہیں بریف کیااورامدادی کیمپ پروزٹ کی دعوت دی جو انہوں نےقبول کی نیز امدادی کیمپ کاوزٹ بھی کیا۔

اس موقع پر کیمپ انچارج محمد الطاف عطاری نےڈپٹی کمشنرکوامدادی کاموں اور کیمپ پرموجودہ اور روانہ کئے گئےسامان کی تفصیلات سےآگاہ کیا،ڈپٹی کمشنر نےمکمل ریکارڈاورمینجمنٹ کےحوالےسے ذمہ داران کی حوصلہ افزائی کی اور دعوتِ اسلامی کی کوششوں کو خوب سراہا۔(رپورٹ: شعبہ رابطہ برائے شخصیات دعوت اسلامی ڈسٹرکٹ لودہراں،کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)


5ستمبر2022ءکو دعوت اسلامی کی جانب سے ڈسٹرکٹ کورنگی میں سیلاب متاثرین کی امداد کے لئے لگائے گئے کیمپ پر ڈپٹی کمشنر کورنگی سید محمد علی، انڈسٹریل ایریا کانٹی کے صدر سلمان اسلم اور ڈی ایچ او کورنگی ڈاکٹر محمد بخش نے وزٹ کیا۔

شعبہ تاجران کے ذمہ دار فرحان عطاری نے سلمان اسلم کو کیمپ میں دعوت اسلامی کے شعبہ ایف جی آر ایف کے فلاحی ودینی کاموں کے حوالے سے معلومات فراہم کیں جس پر انہوں اپنے تاثرات دیتے ہوئے شعبہ FGRF کی کاوشوں کو سراہا۔ (رپورٹ: غلام محبوب عطاری ڈسٹرکٹ کورنگی کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری) 


ایمان کا لغوی اور اصطلاحی تعریف: ایمان (امن ) سے بنا ہے، جس کے لغوی معنی امن دینا ۔ اصطلاح شریعت میں ایمان ایسے عقائد کا نام ہے جن کے اختیار کرنے سے انسان دائمی عذاب سے بچ جائے۔ جیسے توحید، رسالت حشرونشر ،فرشتے ،جنت و دوزخ اور تقدیر کو ماننا و غیرہ غیرہ ۔ جس کا کچھ ذکر اس آیت میں ہے:اٰمَنَ الرَّسُوْلُ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْهِ مِنْ رَّبِّهٖ وَ الْمُؤْمِنُوْنَؕ-كُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ مَلٰٓىٕكَتِهٖ وَ كُتُبِهٖ وَ رُسُلِهٖ۫-لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِهٖ۫-ترجمۂ کنزالایمان: رسول ایمان لایا اس پر جو اس کے رب کے پاس سے اس پر اُترا اور ایمان والے سب نے مانا اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو یہ کہتے ہوے کہ ہم اس کے کسی رسول پر ایمان لانے میں فرق نہیں کرتے ۔ (پ 3،البقرۃ : 285)

اصطلاح قرآن میں ایمان کی اصل جس پر تمام عقیدوں کا دارومدار ہے یہ ہے کہ بندہ خاتم النبین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو دل سے اپنا حاکم مطلق مانے۔( ماخذ علم القرآن باب الایمان ) تفسیر صراط الجنان: اللہ پاک کی سنت یہ ہے کہ قرآن میں ڈرانے کے ساتھ ترغیب بھی ذکر فرماتا ہے ۔ قرآن پاک میں جہاں کفار کے عذابات کا ذکر ہے وہیں مؤمنین کے لیے بشارتوں کا ذکر ہے۔ ان بشارتوں میں سے دس بشا رتیں درج ذیل ہیں:۔

(1) مؤمنین ہدایت والے ہیں۔ ترجمۂ کنز الایمان : وہ جو بے دیکھے ایمان لائیں اور نماز قائم رکھیں اور ہماری دی ہوئی روزی میں سے ہماری راہ میں اٹھائیں اور وہ کہ ایمان لائیں اس پر جو اے محبوب تمہاری طرف اترا اور جو تم سے پہلے اترااور آخرت پر یقین رکھیں وہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور وہی مراد کو پہنچنے والے۔ (پ1 ، البقرۃ:3،5،4)(2) مؤمنین کامیاب ہیں ۔ ترجمہ کنز العرفان: بے شک (وہ) ایمان والے کامیاب ہوگئے ۔ جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں ۔ (پ18،المؤمنون :2،1) (3) مؤمنین فردوس کی میراث پائیں گے گیا۔ ترجمہ کنز العرفان، یہی لوگ وارث ہیں ۔ یہ فردوس کی میراث پائیں گے وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ (پ18،المؤمنون: 10، 11)(4) مؤمن غلام مشرک سے اچھا ہے ۔ ترجمہ کنز العرفان: بے شک (مؤمن) مسلمان غلام مشرک سے اچھا ہے۔(پ2 ،البقرۃ : 221 )(5) اللہ مؤمنوں کا دوست ہے ۔ ترجمۂ کنز الایمان :اللہ والی ہے مسلمانوں کا انہیں اندھیروں سے نور کی طرف نکالتا ہے۔ (پ3 ،البقرۃ : 257 )

(6)اللہ مؤمنین نے گناہ بخش دے گا ۔ ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کہاکرو۔ اللہ تمہارے اعمال تمہارے لیے سنوار دے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور جو اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے اس نے بڑی کامیابی پائی۔ (پ22 ،الاحزاب 70، 71 ) (7) مؤمنین کے لیے باغات ہیں۔ ترجمۂ کنزالعرفان: اور ان لوگوں کوخوشخبری دو جو ایمان لائے اورانہوں نے اچھے عمل کئے کہ ان کے لئے ایسے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔جب انہیں ان باغوں سے کوئی پھل کھانے کو دیا جائے گا تو کہیں گے، یہ تو وہی رزق ہے جو ہمیں پہلے دیا گیاتھا حالانکہ انہیں ملتا جلتا پھل (پہلے )دیا گیا تھا اور ان (جنتیوں )کے لئے ان باغوں میں پاکیزہ بیویاں ہوں گی اور وہ ان باغوں میں ہمیشہ رہیں گے۔(پ1 ،البقرۃ : 25 )(8) مؤ منین کے لیے خوف نہیں ۔ ترجمۂ کنزالایمان: سن لو بےشک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خو ف ہے نہ کچھ غم۔ (پ 11،یونس :62) (9) مؤمنین مدد گار ہیں۔ ترجمۂ کنزالایمان: تمہارے دوست نہیں مگر اللہ اور اس کا رسول اور ایمان والے کہ نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ کے حضور جھکے ہوئے ہیں۔ (پ6 ،المائده :55) (10) مؤمنین کے لیے عزت کی روزی ہے۔ ترجمہ : اور جو ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور وہ جنہوں نے رسول اللہ (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کو جگہ دی اور ان کی مدد کی وہ سچے مسلمان ہیں ان کے لئے بخشش ہے اور عزت کی روزی ۔ (پ10 ،الانفال : 74 )

اللہ پاک تمام مؤمنین و مسلمین کی بے حساب مغفرت فرمائے اور ان کا خاتمہ بالخیر فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ رب العزت نے بنی آدم کی تخلیق فرمائی پھر انسانوں کی ہدایت کے لئے وقتاً فوقتاً انبیاء و رسل کو مبعوث فرمایا کہ وہ احکام الہی کو انسانوں تک پہنچادیں اور اپنے علم و حکمت سے ان کی رہنمائی فرمائیں اور انسان اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاکر اپنے قول و فعل سے ان کی پیروی کر کے اللہ پاک کی رضا اور ہمیشہ کا ٹھکانہ جنت حاصل کریں۔ مفتی احمدید خان نعیمی فرماتے ہیں: ایمان ”امن“ سے بنا ہے جس کے لغوی معنی امن دینا ہے ۔ اصطلاح شریعت میں ایمان عقائد کا نام ہے جن کے اختیار کرنے سے انسان دائمی عذاب سے بچ جائے۔ (علم القرآن، ص 24)

قرآن و احادیث میں اسلام قبول کرنے کے فضائل اور اس پر بے شمار بشارت آئیں ہیں۔ جیسے کہ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے اسلام قبول کیا اور اسے بقدر ضرورت رزق ملا پھر اس نے اس پر قناعت کی تو و ہ فلاح پاگیا۔ (المعجم الكبير،18/306،حديث 778)قرآن پاک میں بھی ایمان والوں کے لئے کثیر بشارتیں آئیں ہیں۔ جس میں سے 10 پیش خدمت ہیں:۔

(1) اللہ کی طرف سے صراط مستقیم پر : ایمان والوں کے لئے ایک نوید یہ ہے کہ اللہ پاک نے ان کو صراط مستقیم پر گامزن فرمادیا۔ جیسے کہ اللہ کریم قرآن پاک میں فرماتا ہے : اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ یَلْبِسُوْۤا اِیْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓىٕكَ لَهُمُ الْاَمْنُ وَ هُمْ مُّهْتَدُوْنَ۠(۸۲) ترجمۂ کنز الایمان: وہ جو ایمان لائے اور اپنے ایمان میں کسی ناحق کی آمیزش نہ کی انہیں کے لیے امان ہے اور وہی راہ پر ہیں۔ (پ7،الانعام : 82) (2) اللہ کی بارگاہ میں عزت والے :جو ایمان لائے اور نیک عمال کریں ان کے لئے اللہ پاک کی بارگاہ عزت وجاہت ہے۔ جیسا کہ اللہ پاک قرآن میں فرماتا ہے: اَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللّٰهِؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفَآىٕزُوْنَ(۲۰) ترجمۂ کنز الایمان: اللہ کے یہاں ان کا درجہ بڑا ہے اور وہی مراد کو پہنچے۔(پ10،التوبۃ:20)

(3)رحمت الہی کے امیدوار : رحمت الہی ایمان والوں کے پیش نظر ہے جس کے وہ امیدوار ہیں۔ جیسے اللہ پاک قرآن پاک میں فرماتا ہے: اُولٰٓىٕكَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَ اللّٰهِؕ ترجمہ کنزالایمان: وہ رحمت الہی کے امیدوار ہیں۔(پ 2 ،البقرۃ: 218 )(4) اچھا انجام: ایمان والوں کے لئے ایک خوشخبری یہ ہے کہ ان کے لئے خوشی اور بروز قیامت ان کے لئے اچھا انجام (جنت) ہے جیسا کہ فرمان خداوندی ہے: اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ طُوْبٰى لَهُمْ وَ حُسْنُ مَاٰبٍ(۲۹) ترجمہ کنز الایمان : وہ جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے ان کو خوشی ہے اور اچھا انجام ۔(پ 13 ،الرعد : 29)

(5) بے غم ہونگے : ایمان والوں کے لئے ایک بشارت یہ ہے کہ وہ بروز قیامت بے غم و بے خوف ہونگے۔ جیسا کہ اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ(۲۷۷) ترجمہ کنزالایمان : نہ انہیں کچھ اندیشہ ہو نہ کچھ غم۔(پ2 ، البقرة : 277 ) (6) پاکیزہ بیویاں : ایک خوشخبری ایمان والوں کے لئے یہ بھی ہے کہ ان کے لئے پاکیزہ بیویاں ہیں۔ یعنی جنت میں ان کے لئے حوریں اور ان کی وہ بیویاں جن کا ان سے دنیا میں نکاح تھا جیسا کہ اللہ پاک کے فرمان میں ہے : وَ لَهُمْ فِیْهَاۤ اَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌۗۙ ترجمہ کنزالایمان: اور ان کے لیے ان باغوں میں ستھری بیبیاں ہیں ۔(پ1 ، البقرة : 25 ) (7) بخشش کا سبب : ایمان والوں کے لئے ایک بشارت یہ ہے کہ ایمان لانا ان کی بخشش کا سبب بنے گا۔ چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِۙ-لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ(۹) ترجمۂ کنزالایمان : ایمان والے نیکوکاروں سے اللہ کا وعدہ ہے کہ اُن کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔(پ6 ،المائده : 9)

(8)کامیابی کی بشارت : ایمان والوں کےلیے یہ بشارت بھی ہے کہ حقیقی کامیابی ان کا مقدر ہو گئی۔ جیسے اللہ پاک نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا: وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفَآىٕزُوْنَ(۲۰) ترجمۂ کنزالایمان :اور وہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔(پ 10،التوبۃ : 20)(9)جنت والے: جنت ایک ایسا مقام ہے جو اللہ پاک نے اپنے کرم عظیم سے مؤمنین کو عطا فرمایا۔ چنانچہ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے: وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ۠(۸۲) ترجمہ ٔکنز الایمان : اور جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے وہ جنت والے ہیں انہیں ہمیشہ اس میں رہنا۔(پ1،البقرۃ:82)(10)ایمان والوں کی جنت الفردوس میں مہمان نوازی ہوگی۔ جیسا کہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَانَتْ لَهُمْ جَنّٰتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًاۙ(۱۰۷)ترجمہ کنزالایمان: بے شک جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے فردوس کے باغ ان کی مہمانی ہے۔ (پ 16،الکھف:107)

یاد ر ہے جنت میں داخلے کا حقیقی معیار ایمان صحیح اور عمل صالح ہے اور کسی بھی زمانے اور کسی بھی نسل و قوم کا آدمی اگر صحیح ایمان و عمل رکھتا ہے۔ وہ جنت میں داخل ہو گا۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں نیک اعمال بجالانے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارا خاتمہ بالخیر فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ پاک نے انسان کو تخلیق فرمایا ہے کہ وہ اللہ پاک کی وحدانیت کا اقرار کرے اور اللہ اور اس کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے احکام کو مانے اور جو اللہ اور اس کے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے احکام کو بجالائے وہ ایمان والے ہیں اور اللہ پاک نے ایمان والوں کے لئے قرآن کریم میں بے شمار بشارتیں نازل فرمائیں ہیں۔ جن میں سے 10 بشارتیں ملاحظہ فرمائیں۔

(1) اللہ پاک نے ایمان والوں سے جنت کا وعدہ فرمایا۔ اللہ پاک نے قرآن کریم میں فرمایا : وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَاۤ٘ -اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۴۲)ترجمۂ کنزالایمان: اور وہ جو ایمان لائے اور طاقت بھر اچھے کام کیے ہم کسی پر طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں رکھتے وہ جنت والے ہیں انہیں اس میں ہمیشہ رہنا۔ (پ4،الاعراف :42)

(2)جو اللہ پاک کے سب رسولوں پر ایمان لائے، اللہ پاک نے اس کے لئے بھی قرآن پاک میں خوشخبری سنائی ہے:وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ وَ لَمْ یُفَرِّقُوْا بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْهُمْ اُولٰٓىٕكَ سَوْفَ یُؤْتِیْهِمْ اُجُوْرَهُمْؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا۠(۱۵۲)ترجمۂ کنزالایمان : اور وہ جو اللہ اور اس کے سب رسولوں پر ایمان لائے اور ان میں سے کسی پر ایمان میں فرق نہ کیا انہیں عنقریب اللہ ان کے ثواب دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے (پ6،النسآء:152)

(3) ایک اور مقام پر اللہ پاک نے ارشاد فرمایا : وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَنُدْخِلُهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ ترجمۂ کنزالایمان:اور جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے کچھ دیر جاتی ہے کہ ہم انہیں باغوں میں لے جائیں گے جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں ۔(پ النسآء: 122)(4) اور جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانے اللہ پاک نے اس کے لئے بھی خو شخبری سنائی ہے۔ وَ  مَنْ  یُّطِعِ  اللّٰهَ  وَ  رَسُوْلَهٗ  یُدْخِلْهُ  جَنّٰتٍ  تَجْرِیْ  مِنْ  تَحْتِهَا  الْاَنْهٰرُ  خٰلِدِیْنَ  فِیْهَاؕ-وَ  ذٰلِكَ  الْفَوْزُ  الْعَظِیْمُ(۱۳) ترجمۂ کنزالایمان: اور جو حکم مانے اللہ اور اللہ کے رسول کا اللہ اُسے باغوں میں لے جائے گا جن کے نیچی نہریں رواں ہمیشہ اُن میں رہیں گے اور یہی ہے بڑی کامیابی۔(پ النسآء: 13)

(5) اور ایک مقام پر ارشاد فرمایا: وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَنُدْخِلُهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-لَهُمْ فِیْهَاۤ اَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ٘-وَّ نُدْخِلُهُمْ ظِلًّا ظَلِیْلًا(۵۷) ترجمۂ کنزالایمان: اورجو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کیے عنقریب ہم انہیں باغوں میں لے جائیں گے جن کے نیچے نہریں رواں ان میں ہمیشہ رہیں گے ان کے لیے وہاں ستھری بیبیاں ہیں اور ہم انہیں وہاں داخل کریں گے جہاں سایہ ہی سایہ ہوگا۔(پ النساء:57)(6) اور جو ایمان لائے اللہ پاک اُن کے لئے فرماتا ہے: وَ اَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَیُوَفِّیْهِمْ اُجُوْرَهُمْؕ-وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ(۵۷)ترجمۂ کنز الایمان: اور وہ جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے اللہ ان کا نیگ(اجر) انہیں بھرپور دے گا اور ظالم اللہ کو نہیں بھاتے۔ (پ آل عمرٰن: 57)

(7)ایک اور مقام پر اللہ پاک نے ارشاد فرمایا :یَسْتَبْشِرُوْنَ  بِنِعْمَةٍ  مِّنَ  اللّٰهِ  وَ  فَضْلٍۙ-وَّ  اَنَّ  اللّٰهَ  لَا  یُضِیْعُ  اَجْرَ  الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۷۱)ﮎترجمۂ کنز الایمان: خوشیاں مناتے ہیں اللہ کی نعمت اور فضل کی اور یہ کہ اللہ ضائع نہیں کرتا اجر مسلمانوں کا ۔(پ4، آل عمرٰن: 171)(8)اور اللہ پاک نے ایمان والوں سے وعدہ کیا ہے کہ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِۙ-لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ(۹)ترجمہ کنز الایمان : ایمان والے نیکوکاروں سے اللہ کا وعدہ ہے کہ اُن کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔(پ6،ا لمائدۃ:9)

(9)اور جنہوں نے اللہ کی راہ میں جہاد کیا اُن کے لئے خوشخبری ہے کہ۔اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ الَّذِیْنَ هَاجَرُوْا وَ جٰهَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِۙ-اُولٰٓىٕكَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَ اللّٰهِؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۲۱۸)ترجمہ کنز الایمان: وہ جو ایمان لائے اور وہ جنہوں نے اللہ کے لیے اپنے گھر بار چھوڑے اور اللہ کی راہ میں لڑے وہ رحمتِ الٰہی کے امیداور ہیں اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔(پ2، البقرة :218)(10)اور اللہ پاک نے نماز قائم کرنے والوں کے لئے خوشخبری سنائی ہے۔اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ لَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْۚ-وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ(۲۷۷)ترجمۂ کنزالایمان : بے شک وہ جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے اور نماز قائم کی اور زکٰوۃ دی اُن کا نیگ(اجروثواب) ان کے رب کے پاس ہے اور نہ انہیں کچھ اندیشہ ہو نہ کچھ غم۔(پ 3، البقرۃ :277)


اللہ پاک نے اپنے بندوں کی رہنمائی اور ان کی حقیقی فلاح و کامرانی کے لیے جو صحیفہ خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قلب منیر پر نازل فرمایا، اسے ہم قرآن مجید کے نام سے جانتے ہیں۔ قرآن مجید پوری انسانیت کی رہنمائی کے لیے نازل کیا گیا ہے اور اس میں یہ شخص کے لیے دنیا و آخرت کی فلاح و کامرانی کا سامان مہیا کیا گیا ہے۔ لیکن اس میں کچھ مقامات ایسے ہیں جہاں پر خالق ارض و سماوات نے ” یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا “ کہہ کر بڑے پیارے بھرے انداز میں خاص طور پر ہم مسلمانوں سے خطاب فرمایا ہے ۔ اور ”اے ایمان والو“ کا لقب عطا فرما کر ہماری عزت افزائی فرمائی ہے۔ اب یہ ہمارا فرض ہے کہ بحیثیت مسلمان ہم کم از کم قرآن پاک کی ان آیات کا علم تو حاصل کر ہی لیں کہ جہاں ہمارے رب نے ہمیں خاص طور پر مخاطب کر کے کوئی پیغام عطا فر مایا ہے۔

ایمان کی تعریف: لغت میں تصدیق کرنے (سچا ماننا) کو کہتے ہیں۔( تفسیر قرطبی)

اصطلاحی تعریف: سچے دل سے اُن سب باتوں کی تصدیق کرے جو ضروریات دین سے ہیں۔ (بہار شریعت، 172/1)قرآن کریم میں کئی مقامات پر ایمان والوں کو بشارتیں دی گئی ہیں۔ جس سے ایمان والو کی شان و عظمت مزید بلند و بالا ہو جاتی ہے۔ آئیے قرآن پاک کی جن آیات میں اہل ایمان کو بحیثیت مؤمن جو احکام دیے گئے ہیں اور جن آیات میں مؤمنین کے اوصاف بیان بیان کیے گئے ان کا مطالعہ کرتے ہیں:۔

(1) نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں عرض کرنے کا با ادب طریقہ: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴) ترجمۂ کنز العرفان: اے ایمان والو! راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لئے درد ناک عذاب ہے۔ (پ1،البقرة : 104) شانِ نزول: جب حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو کچھ تعلیم و تلقین فرماتے تو وہ کبھی کبھی درمیان میں عرض کیا کرتے۔ ’’رَاعِنَا یَارَسُوْلَ اللہ‘‘ اس کے یہ معنی تھے کہ یا رسول اللہ ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ، ہمارے حال کی رعایت فرمائیے یعنی کلامِ اقدس کو اچھی طرح سمجھ لینے کا موقع دیجئے۔ یہودیوں کی لغت میں یہ کلمہ بے ادبی کامعنی رکھتا تھا اور انہوں نے اسی بری نیت سے کہنا شروع کردیا۔ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ یہودیوں کی اصطلاح سے واقف تھے۔ آپ نے ایک روز یہ کلمہ ان کی زبان سے سن کر فرمایا: اے دشمنانِ خدا !تم پر اللہ کی لعنت، اگر میں نے اب کسی کی زبان سے یہ کلمہ سناتو اس کی گردن اڑا دوں گا۔ یہودیوں نے کہا: ہم پر تو آپ برہم ہوتے ہیں جبکہ مسلمان بھی تو یہی کہتے ہیں ، اس پر آپ رنجیدہ ہو کر سرکار ِ دوعالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت ِاقدس میں حاضر ہوئے ہی تھے کہ یہ آیت نازل ہوئی جس میں ’’رٰعِنَا‘‘ کہنے کی ممانعت فرمادی گئی اور اس معنی کا دوسرا لفظ ’’انۡظُرْنَا‘‘ کہنے کا حکم ہوا ۔ (قرطبی، البقرۃ، تحت الآیۃ: 104، 1/45-44، الجزء الثانی، تفسیر کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: 104، 1/634، تفسیر عزیزی(مترجم)2/669، ملتقطاً)

(2) صبر اور نماز سے مدد سے چاہنے کا حکم اور صبر والوں کی فضیلت:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِؕ-اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ(۱۵۳)ترجمہ کنز العرفان : اے ایمان والو ! صبر اور نماز سے مدد مانگو بیشک اللہ صابروں کے ساتھ ہے۔ (پ2،البقرة:153) شان نزول: اس آیت میں صبر اور نماز کا ذکر کیا جا رہا ہے کیونکہ نماز ذکر اللہ اور صبر و شکر پر ہی مسلمان کی زندگی کا حل ہوتی ہے۔ اس آیت میں فرمایا گیا کہ صبر اور نماز سے مدد مانگو ۔ صبر سے مدد طلب کرنا یہ ہے کہ عبادات کی ادائیگی، گناہوں سے رکنے اور نفسانی خواہشات کو پورا نہ کرنے پر صبر کیا جائے اور نماز چونکہ تمام عبادات کی اصل اوراہل ایمان کی معراج ہے اور صبر کرنے میں بہترین معاون ہے اس لئے اس سے بھی مدد طلب کرنے کا حکم دیاگیا اور ان دونوں کا بطور خاص اس لئے ذکر کیاگیا کہ بدن پر باطنی اعمال میں سب سے سخت صبر اور ظاہری اعمال میں سب سے مشکل نماز ہے ۔(روح البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ: 153، 1/257، ملخصاً)

(3)حلال رزق کھانے اور اللہ پاک کا شکر ادا کرنے کا حکم : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ وَ اشْكُرُوْا لِلّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ اِیَّاهُ تَعْبُدُوْنَ(۱۷۲) ترجمۂ کنزالعرفان : اپنے ایمان والو ! ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو۔ (پ۲،البقرة : 172) اللہ پاک نے ہمیں کھانے سے منع نہیں فرمایا بلکہ کئی مقامات پررزقِ الٰہی کھانے کا بیان کیا، جیسے سورۂ بقرہ آیت168،سورۂ مائدہ87 ،88،سورۂ اعراف آیت31، 32اورسورۂ نحل آیت 114وغیرہ ۔ الغرض اس طرح کے بیسیوں مقامات ہیں جہاں رزقِ الٰہی سے لطف اندوز ہونے کی اجازت دی گئی ہے۔ صرف یہ شرط لگائی ہے کہ حرام چیزیں نہ کھاؤ، حرام ذریعے سے حاصل کرکے نہ کھاؤ، کھا کر غافل نہ ہوجاؤ، یہ چیزیں تمہیں اطاعت ِ الٰہی سے دور نہ کردیں ، کھا پی کر اللہ پاک کا شکر ادا کرو۔ چنانچہ فرمایا: اور اللہ کا شکر ادا کرو اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو۔ ( تفسیر صراط الجنان، البقرة، تحت الآيۃ: 172)

)4(روزوں کی فرضیت کا بیان: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ(۱۸۳)ترجمۂ کنز العرفان : اے ایمان والو تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔(پ2، البقرة : 183) اس آیت میں روزوں کی فرضیت کا بیان ہے۔ شریعت میں روزہ یہ ہے کہ صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک روزے کی نیت سے کھانے پینے اور ہم بستری سے بچا جائے۔(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: 183، 1/119)

(5) مسلمانوں کو اللہ پاک سے ڈرنے اور بقایا سود نہ پینے کا حکم:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۲۷۸)ترجمۂ کنز العرفان: اے ایمان والو! اگر تم ایمان والے ہو تو اللہ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو۔(پ3، البقرة : 278) اس آیت میں ایمان والے کہہ کر مخاطب کیا اور ایمان کے ایک اہم تقاضے یعنی تقویٰ کا حکم دیا پھر تقویٰ کی روح یعنی حرام سے بچنے کا فرمایا اور حرام سے بچنے میں ایک کبیرہ گناہ سود کا تذکرہ کیا۔ چنانچہ فرمایا گیا کہ اگر سود کے حرام ہونے سے پہلے مقروض پر سود لازم ہو گیا تھا اور اب تک کچھ سود لے لیا تھا اور کچھ باقی تھا کہ یہ سود کے حرام ہونے کا حکم آگیا تو جو سود اس سے پہلے لیا تھا وہ واپس نہ کیا جائے گا لیکن آئندہ بقایا سود نہ لیا جائے گا۔

(6)تقویٰ اور ایمان پہ خاتمے کا حکم: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ(۱۰۲)ترجمۂ کنز الایمان: اے ایمان والو اللہ سے ڈرو جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور ہر گز نہ مرنا مگر مسلمان ۔(پ4،آل عمرٰن:102) تفسیر صراط الجنان: ارشاد فرمایا کہ اللہ پاک سے ایسا ڈرو جیسا ڈرنے کا حق ہے ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ بَقدرِ طاقت اللہ پاک سے ڈرو۔ اس کی تفسیر وہ آیت ہے جس میں فرمایا گیا: فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ ترجمۂ کنزُالعِرفان:تو اللہ سے ڈرو جتنی طاقت رکھتے ہو۔(سورۂ تغابن:16)نیز آیت کے آخری حصے میں فرمایا کہ اسلام پر ہی تمہیں موت آئے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اپنی طرف سے زندگی کے ہر لمحے میں اسلام پر ہی رہنے کی کوشش کرو تاکہ جب تمہیں موت آئے تو حالت ِ اسلام پرہی آئے۔( تفسیر صراط الجنان،آل عمرٰن،تحت الآیۃ:102)

(7)کافروں کی ہدایات پر چلنے کا نقصان: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تُطِیْعُوا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا یَرُدُّوْكُمْ عَلٰۤى اَعْقَابِكُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خٰسِرِیْنَ (۱۴۹) ترجمۂ کنز العرفان: اے اپنے ایمان والو! اگر تم کافروں کے کہنے پر چلے تو وہ تمہیں الٹے پاؤں پھیر دیں گے پھر تم نقصان اٹھا کر پلٹو گے۔ (پ4، آل عمرٰن: 149) یہاں مسلمانوں کو بہت واضح الفاظ میں سمجھایا گیا ہے کہ اگر تم کافروں کے کہنے پر چلو گے یا ان کے پیچھے چلو گے خواہ وہ یہودی ہوں یا عیسائی یامنافق یامشرک، جس کے کہنے پر بھی چلو گے وہ تمہیں کفر ، بے دینی، بدعملی اور اللہ پاک کی نافرمانی کی طرف ہی لے کر جائیں گے اور اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ تم آخرت کے ساتھ ساتھ اپنی دنیا بھی تباہ کربیٹھو گے۔ کتنے واضح اور کھلے الفاظ میں فرمادیا کہ کافروں سے ہدایات لے کر چلو گے تو وہ تمہاری دنیا و آخرت تباہ کردیں گے اور آج تک کا ساری دنیامیں مشاہدہ بھی یہی ہے لیکن حیرت ہے کہ ہم پھر بھی اپنا نظام چلانے میں ، اپنے کردار میں ، اپنے کلچر میں ، اپنے گھریلو معاملات میں ، اپنے کاروبار میں ہرجگہ کافروں کے کہنے پر اور ان کے طریقے پر ہی چل رہے ہیں ، جس سے ہمارا ربّ کریم ہمیں بار بار منع فرمارہا ہے۔ (تفسیر صراط الجنان، آل عمرٰن ،تحت الآیۃ : 149)

(8) اطاعت رسول اور اطاعت امیر کا حکم:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ-فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِؕ-ذٰلِكَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا۠(۵۹) ترجمۂ کنزُالعِرفان :اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور ان کی جو تم میں سے حکومت والے ہیں ۔ پھر اگر کسی بات میں تمہارا اختلاف ہو جائے تو اگر اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو تو اس بات کو اللہ اور رسول کی بارگاہ میں پیش کرو ۔ یہ بہتر ہے اور اس کا انجام سب سے اچھا ہے ۔ (پ5،النسآء : 59)یہاں آیت میں رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت اللہ پاک ہی کی اطاعت ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جس نے میری اطاعت کی اُس نے اللہ پاک کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اُس نے اللہ پاک کی نافرمانی کی ۔ (بخاری، کتاب الجهاد والسیر، باب یقاتل من وراء الامام ویتقی به، 2/ 297،حدیث : 2957)

رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت کے بعد امیر کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے ۔ صحیح بخاری کی سابقہ حدیث میں ہی ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جس نے امیر کی اطاعت کی اُس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اُس نے میری نافرمانی کی ۔ (بخاری، کتاب الجهاد والسیر، باب یقاتل من وراء الامام ویتقی به، 2/ 297، حدیث : 2957)

(9)مال، اولاد اللہ کی یاد سے غافل نہ کریں: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِۚ-وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ(۹)ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کردیں اور جو ایسا کرے گاتو وہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں ۔(پ28،المنٰفقون:9)اس سے پہلی آیات میں منافقوں کے اَحوال بیان کئے گئے اور اب یہاں سے ایمان والوں کو نصیحت کی جا رہی ہے کہ اے ایمان والو! منافقوں کی طرح تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ پاک کے ذکر سے غافل نہ کردے اور جوایسا کرے گا کہ دنیا میں مشغول ہو کر دین کو فراموش کردے گا، مال کی محبت میں اپنے حال کی پروا ہ نہ کرے گا اور اولاد کی خوشی کیلئے آخرت کی راحت سے غافل رہے گاتو ایسے لوگ ہی نقصان اٹھانے والے ہیں کیونکہ اُنہوں نے فانی دنیا کے پیچھے آخرت کے گھرکی باقی رہنے والی نعمتوں کی پرواہ نہ کی۔( خازن، المنافقون، تحت الآیۃ: 9، 4/274، مدارک، المنافقون، تحت الآیۃ: 9، ص1245، ملتقطاً)

(10) مسلمانوں کو اللہ سے ڈرتے رہنے اور فکر آخرت کا حکم : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ لْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍۚ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ (۱۸) ترجمۂ کنزُالعِرفان : اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور ہر جان دیکھے کہ اس نے کل کے لیے آگے کیا بھیجا ہے اور اللّٰہ سے ڈرو بیشک اللہ تمہارے اعمال سے خوب خبردار ہے ۔ (پ28،الحشر : 18) گزشتہ آیات میں یہودیوں کی عہد شکنی اور منافقین کے مکر و فریب کو بیان کیا گیا اور اب یہاں سے ایمان والوں کو نصیحت کی جا رہی ہے ، چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو!تم جو کام کرتے ہو اور جو چھوڑتے ہو ہر ایک میں اللہ پاک سے ڈرو اور اس کے حکم کی مخالفت نہ کرو اور ہر جان دیکھے کہ اس نے قیامت کے دن کے لئے کیا اعمال کیے اور تمہیں مزید تاکید کی جاتی ہے کہ اللہ پاک سے ڈرو اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری میں سرگرم رہو، بیشک اللہ پاک تمہارے اعمال سے خبردار ہے (لہٰذا جب گناہ کرنے لگوتو سوچ لو کہ اللہ پاک ہمارے اس گناہ کو دیکھ رہا ہے ، وہ قیامت کے دن اس کا حساب لے گا اور اس کی سزا دے گا) ۔ ( روح البیان، الحشر، تحت الاٰیۃ : 18، 9 / 447)اللہ پاک اس آیت (یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا) کی برکت سے پورے قرآن مجید کو اس کے حقوق کی رعایت کے ساتھ پڑھنے، اسے سمجھنے اور اس بہ کما حقہ عمل کرنے کی سعادت عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم