محمد شبیر رضا عطاری (درجہ سابعہ، مرکزی جامعۃُ المدینہ
فیضانِ مدینہ فیصل آباد، پاکستان)
قراٰنِ پاک اللہ پاک کی وہ مقدس کتاب ہے جو آخری نبی محمد
عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر نازل کی گئی، اعتقادات و عبادات ہوں یا
معاملات ہر لحاظ سے ایک مسلمان کی رہنما ہے۔ اس کے حقوق کو خود قراٰن نے اورصاحبِ قراٰن
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بیان فرمایا۔ لہٰذا قراٰن کے حوالہ سے جن باتوں
کا لحاظ ایک مسلمان کو رکھنا چاہیے ان کا ذکر کیا جاتا ہے۔
(1)قراٰن کے متعلق
عقیدہ: اسلام میں عقائد کو بنیادی حیثیت حاصل ہے اور انہی پر اعمال
کا دار و مدار ہے، اس مناسبت سے سب سے پہلے قراٰن ِپاک کا وہ حق ذکر کیا جاتا ہے جو
عقائد سے متعلق ہے ۔ چنانچہ
قراٰنِ پاک میں ارشاد رب العباد ہے: اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ
لَحٰفِظُوْنَ(۹) ترجمۂ کنزالعرفان:بیشک ہم نے اس قرآن کو نازل کیا ہے اور
بیشک ہم خود اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔(پ14،الحجر:9) بہارِ شریعت میں ہے کہ : جو یہ کہے کہ اس (قراٰن)کے
کچھ پارے یا سورتیں یا آیتیں بلکہ ایک حرف بھی کسی نے کم کردیا، یا بڑھا دیا، یا
بدل دیا، قطعاً کافر ہے۔ ( بہارِ شریعت، 1/ 31) لہٰذا قراٰن کا اوّل حق یہ ہے کہ
اسے کامل اور تحریف سے پاک جانا جائے اور اس میں تبدیلی یا تحریف کے معتقِد کو
کافر جانا جائے۔
(2)طہارت کو ملحوظ
رکھنا : طہارت کو اسلام میں نمایاں حیثیت حاصل ہے حتی کہ نبی پاک صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اسے آدھا ایمان قرار دیا ۔ ( المعجم الکبیر للطبرانی،
حدیث: 3423) تو جس طرح نماز ،طواف کعبہ اور دیگر عبادات میں طہارت کو لازم فرمایا
ایسے ہی قراٰن چھونے کے لیے وضو کو لازم فرمایا ۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے : لَّا یَمَسُّهٗۤ
اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَؕ(۷۹) ترجمۂ کنزالایمان : اسے نہ
چھوئیں مگر با وضو۔
بہار شریعت میں ہے: قراٰن عظیم چھونے کے لیے وضو کرنا فرض
ہے۔ (بہارِ شریعت 1/301 ) لہذا قراٰن کا ایک حق یہ بھی قرار پایا کہ اسے بغیر وضو
نہ چھوا جائے۔
(3)قراٰن کودرست
مخارج سے پڑھنا اور سمجھنا :قراٰنِ پاک کو
جیسے ظاہری و باطنی طہارت کو ملحوظ رکھتے ہوئے پڑھنا چاہیے اسی طرح درست مخارج کا
لحاظ بھی لازم ہے اور اس کی خود قراٰنِ پاک میں ترغیب ہے۔چنانچہ ارشاد رب العلمین
ہے: وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًاؕ(۴) ترجمۂ کنز
الایمان: اور قراٰن خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔(پ29،المزمل:4) بلکہ مخارج سے غفلت برتنے والوں پر حضرت انس رضی اللہُ عنہ کے قول کے مطابق خود قراٰن
لعنت کرتا ہے۔ (احیاء العلوم، 1/879، مکتبۃ المدینہ ) مزید یہ کہ قراٰن کو سمجھ کر
پڑھنا نیکیوں اور ذوق میں اضافہ کا باعث بنتا ہے ۔ قراٰنِ کریم میں ہے: اَفَلَا
یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰى قُلُوْبٍ اَقْفَالُهَا(۲۴) ترجمۂ
کنزُالعِرفان: تو کیا وہ قرآن میں غور وفکر نہیں کرتے؟ بلکہ دلوں پر ان کے تالے
لگے ہوئے ہیں ۔(پ26،محمد : 24)
(4)تعلیماتِ قراٰن پر
عمل: نزولِ قراٰن کا مقصد مسلمانوں کے عقائد و اعمال کی اصلاح
کرنا اور انہیں تقوی کے لباس سے آراستہ کرنا ہے۔ لہٰذا فقط تلاوت یا اس کی تفسیر
سے آگاہی ناکافی ہے بلکہ اس پر عمل لازم اور علم کے نافع ہونے کی سند ہے کیونکہ
علم نافع وہی ہے جو عمل پر ابھارے ۔قراٰنِ پاک کی متعدد آیات میں اس مضمون کو بیان
کیا گیا ۔ چنانچہ
ارشاد قراٰنی ہے۔: قُرْاٰنًا
عَرَبِیًّا غَیْرَ ذِیْ عِوَجٍ لَّعَلَّهُمْ یَتَّقُوْنَ(۲۸) ترجمۂ کنزُالعِرفان: عربی
زبان کا قرآن جس میں کوئی ٹیڑھا پن نہیں تاکہ وہ ڈریں ۔(پ26، الزمر: 28) لہذا تعلیماتِ قراٰن پر عمل
بھی قراٰن کے اہم حقوق میں سے ہے۔
(5)قراٰن کی تعلیم کو
عام کرنا : علم و عمل کے بعد اسے دوسروں تک پہنچانے کا مرحلہ آتا ہے،جس
کا قراٰنِ پاک میں کئی مقامات پر حکم وارد ہوا ۔ چنانچہ ارشاد رب لم یزل ہے: ترجمۂ
کنزُالعِرفان:اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلاؤ ۔(پ14،النحل:
125)
پھر سورة النور کی آیت نمبر 34 میں قراٰنی آیات کو ”موعظة
للمتقین“ فرمایا گیا ،ان دونوں آیات کا حاصل یہ ہے کہ قراٰن کے
ذریعے لو گوں کو رب کے راستے کی طرف بلاؤ لہٰذاقراٰنی آیات کا علم سیکھنے والوں کو
چاہیے کہ وہ اس کی دوسروں کو تعلیم دیں اور نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کے اس فرمان ”خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہٗ “ ( بخاری شریف: 5027) ”یعنی تم میں بہتر وہ ہے جو قراٰن
سیکھے اور دوسروں کو اس کی تعلیم دے “ کے مطابق بہترین لوگوں میں شامل ہوں ۔
اللہ پاک ہمیں اسلام و قراٰن پر قائم رہنے ،اس کی تلاوت
کرنے، اسے سمجھنے، اس پر عمل کرنے اور دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عطافرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم