کتاب اللہ
کے 5 حقوق از بنت ِ طارق محمود، فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ
سیالکوٹ
(1) کتاب الله پر ایمان لانا (2) کتاب اللہ
کو پڑھنا (3) کتاب الله کو سمجھنا (4) کتاب الله کے احکام کے مطابق اپنی زندگی
گزارنا (5) کتاب اللہ کو دوسروں تک پہنچا نا۔
کتاب
الله کی اہمیت:کتاب
الله روحانی اور جسمانی دونوں قسموں کی بیماریوں کے لیے شفا ہے اور خود جناب نبی
کریم ﷺنے مشکلات، بیماریوں اور آفات میں کتاب الله کے ذریعےعلاج کی تلقین فرمائی
ہے۔ کتاب الله کے سامنے کوئی باطل نہیں ٹھہر سکتا۔ ظالموں کی طاقت، جابروں کی تدبیریں
اور دشمنوں کی سازشیں کتاب الله کے سامنے بلبلے سے بھی زیادہ کمزور ہیں۔ کتاب اللہ کا نور بد خواہوں کی آنکھوں کو بے نور کر
دیتا ہے۔ ہم نے کتاب اللہ کے سامنے بارہا طاقتوردشمنوں کو خائب و خاسر ہوتے دیکھا۔
افریقہ کا کالا جادوکتاب اللہ کی آیت کے سامنے ہم نے خود ٹوٹتے، بکھرتے اوربھاگتے
دیکھا۔ ہندوستان کے جوگی، پنڈت اور سادھو اس کلام کے سامنے بے بس ہو گئے اور برہمن
پکار اُٹھے کہ یہ بہت اعلیٰ کلام ہے ہم اس
کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ مگر آج کئی مسلمان کتاب الله کو چھوڑ کر نا پاک سفلی علوم
کا سہارا لیتے ہیں۔کتاب اللہ اپنی پوری قوت، شفا، شان اور تاثیر کے ساتھ موجود ہے۔
مگر مسلمان جاہل اور لالچی عاملوں کے درپر اپنا ایمان،عقیدہ اور مال تباہ کر رہے ہیں۔
آؤ مسلمانو!کتاب الله کی طرف لوٹ آؤ۔ یہ سچی،
پختہ اور مضبوط کتاب ہم سب کے لیے رحمت بھی ہے اور شفا بھی۔ دیکھورب کریم خود
فرمارہا ہے: وَ نُنَزِّلُ مِنَ
الْقُرْاٰنِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَۙ- (پ
15، بنی اسرائیل: 82) ترجمہ کنز الایمان: اور ہم قرآن میں اتارتے ہیں وہ چیز جو ایمان
والوں کے لیے شفا اور رحمت ہے۔ امت کے اہلِ علم میں شفاء بالقر آن کا ہمیشہ معمول
رہا ہے۔اس کی برکت اور افادیت سے کسی مسلمان کو انکار نہیں ہو سکتا۔
قرآن کو درست پڑھنے کی ترغیب اور غلط پڑھنے کا وبال:ایسے بہت سارے الفاظ ہیں کہ جس میں معنی بدل جاتے ہیں، جیسے
کہ ہم قُلْ هُوَ اللّٰهُ
اَحَدٌۚ(۱) پڑھتے ہیں اور بعض لوگ اَحَدکو اَھَدپڑھتے ہیں۔اَحَدٌاوراَھَدٌ میں بڑا فرق ہے۔ اب یہ تو اللہ کی شان ہے:اللّٰهُ اَحَدٌ (اللہ اکیلا ہے ) اور اَھَدکے معنی بنتے ہیں:بزدل،
کمزور۔ تو اگر معنی جانتے ہوئے کوئی اَھَدپڑھے گاتو اسلام
سے ہی گیا اور وہ کافر ہو گیا، کیونکہ وہ معنی بالکل چینج ہیں الٹ ہیں اور بالکل
فاسد معنی ہیں۔ اِسی طرح ہمارےہاں الحمد للّٰه کیساحال ہے اگر جلدی میں کہہ دیا الھمدللّٰه تو معنی
بالکل تباہ ہو گئے۔ الحمدللہ خوبی، شکر کے معنی میں بھی آتا ہے اور الحمد لله تمام خوبیاں
الله کے لیے ہیں۔ اب جلدی میں جب ہم ہمد پڑھتے ہیں خصوصاً میمن برادری، گجراتی برادری وہ ھمد پڑھتے ہیں ان کا
ح نہیں نکلتا۔احد کو بھی
معاذ الله اھد پڑھتے ہیں
اور الحمد کو بھی الھمد پڑھتے ہیں تو حمد کے معنی ہیں خوبی
جبکہ ھمد معنی دیھمی
آگ بالکل معنی تباہ ہو گئے۔ اب جیسا کہ قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌۚ(۱) قُلْ کے معنی کہہ دیں بعض پڑھتے بھی گجراتی لوگ ہیں وہ قُلْ کی جگہ کُلْ پڑھتے ہیں
اور لکھتے بھی کُلْ ہی ہیں۔ کُلْتو اب غلط ہو گیا۔ قُلْ کے معنی کہہ دیں اور کُلْ کے معنی کھالو یہ عربی لفظ ہے کل یعنی کھا کُلوا کھاؤ واشربواپیو،قالوا یعنی انہوں نے کہا۔ اورکالواانہوں نے ناپا۔ علیم یعنی جاننے والا یہ اللہ کی صفت ہے اور
اگر بولیں گے الیم الف سے تو اس کے معنی دردناک، یہ لفظ عذاب کے ساتھ آتا ہےعَذَابٌ اَلِيْمٌ کتنا فرق پڑ جاتا ہے علیم اور الیم میں (اللہ پاک ہمیں درست
مخارج کے ساتھ قرآن پڑھنے کی توفیق عطافرمائے۔
احادیث کی روشنی میں تلاوتِ قرآن کے فضائل:
فرمانِ مصطفیٰ ﷺہے:قرآنِ پاک کی تلاوت کیا کرو کیونکہ یہ
قیامت کے دن تلاوت کرنے والوں کی شفاعت کرے گا۔ (مسلم)
رسول اللہ ﷺ
نے ارشاد فرمایا: جب کوئی شخص قرآن شریف پڑھتا
ہے تو فرشتہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان (یعنی پیشانی) کو ( احتراماً) بوسہ دیتا
ہے۔
رسول اللهﷺ نے
ارشاد فرمایا:قرآن پڑھو کیونکہ قیامت کے دن یہ اپنے پڑھنے والے کا سفارشی بن کر
آئے گا۔(صحیح مسلم)
رسول اللهﷺنے
ارشاد فرمایا:قرآنِ کریم کی تلاوت اور الله پاک کے ذکر کا اہتمام کیا کرو۔ اس عمل
سے آسمانوں میں تمہارا ذکر ہو گا اور یہ عمل زمین میں تمہارے لیے ہدایت کا نور
ہوگا۔(بیہقی)
رسول اللہ ﷺ
نے ارشاد فرمایا: بلند آواز سے قرآن کی تلاوت کرنے والا علانیہ صدقہ کرنے والےکی
طرح ہے اور پوشیدہ آواز میں تلاوت کرنے والا مخفی انداز میں صدقہ کرنے والے کی طرح
ہے۔
قرآنِ پاک دیکھ کر پڑھنا:رسول اللہﷺ نے
فرمایا: جو شخص قرآن پاک دیکھ کر پڑھنے کا عادی ہوتا ہے، اللہ پاک اس کو اس کی
آنکھوں سے فائدہ اٹھانے کا موقع دیتا ہے جب تک وہ دنیا میں رہے (یعنی اس کی آنکھوں
کی بینائی موت تک باقی رہتی ہے۔)
تلاوت
قرآن کا اجر و ثواب: حضرت ابن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول
اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص قرآن کا ایک حرف پڑھے تو اس کے لیے ہر حرف کے
عوض ایک نیکی ہے۔(اور یہ ایک نیکی ا لله پاک کے قانون کرم کے مطابق دس نیکیوں کے
برابر ہے۔ یعنی قرآن کےہر حرف کے عوض دس نیکیاں ملتی ہیں۔مزید وضاحت کے لیے آپ ﷺ
نے ارشاد فرمایا:میں یہ نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے
(بلکہ )الف ایک حرف ہے لام ایک حرف ہے اورمیم ایک حرف ہے۔( اس طرح الم
پڑھنے والا بندہ تیس نیکیوں کے برابر ثواب حاصل کرنے کا مستحق ہوگا۔(ترمذی،دارمی)
کتاب
اللہ پر ایمان لانا: الله پاک کی کتاب پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ
اس کے تمام احکام اور سب تقاضوں پر عمل کیا جائے اور ان کی خلاف ورزی نہ کی جائے۔
اس چیز کو سامنے رکھتے ہوئے ہر مسلمان کو غور کرنا چاہیے کہ وہ اپنی زبان سے قرآن
مجید پر ایمان لانے کا جو دعوی کر رہا ہے، کیا اس کی عملی حالت اس دعوے کی تصدیق کر رہی ہے یا نہیں؟ (صراط الجنان،1/172)
کتاب
الله کو پڑھنا اور دوسروں تک پہنچانا،عمل میں لانا:
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللهﷺ سے سنا ہے: عنقریب
وہ وقت آنے والا ہے جب کہ فتنے برپا ہوں گے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول الله پھر اُن
فتنوں سے نکلنے کا کیا ذریعہ ہے ؟ رسول اللهﷺ نے فرمایا: کتاب اللہ کیونکہ اس میں
تم سے قبل کے حالات اور تم سے بعد کی خبریں اور تمہارے مابین معاملات ( موجودہ امور)
کا حکم ہے اور وہ قول فیصل ہے کہ کوئی ہزل (یعنی ظرافت، ہنسی مذاق) نہیں۔ جو جبار
شخص اسے چھوڑ دے گا اللہ پاک اس کو ختم کر دے گا اور جو شخص قرآن کے سواکسی اور
کتاب میں ہدایت کو تلاش کرے گا اللہ پاک اس کوگمراہ کردے گا۔ قرآن ہی ایسی چیز ہے
کہ اس کو نفسانی خواہشات لغزش میں نہیں لا سکتیں۔ زبانیں اس کے ساتھ ملتبس نہیں ہو
سکتیں۔ علما اس کے علم سے مستغنی نہیں ہوتے اور وہ باوجود کثرت سےتلاوت کرنے، بار بار پڑھے جانے کے پرانا نہیں
ہوتا اور اس کے عجائبات ختم ہونے میں نہیں آتے۔ اس کے مطابق کہنے والا سچا اور اس
پر عمل کرنے والا مستحق اجرہوتا ہے اور اس کے موافق حکم دینے والا عادل ہوتا ہے
اور اس کی جانب دعوت دینے والا راہ راست کی طرف ہدایت پاتا ہے۔خَیْرُکُمْ مَّنْ تَعَلَّمَ الْقُرْاٰنَ وَعَلَّمَہٗتم میں سے بہتر شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔(بخاری،3
/ 410)
کتاب
اللہ کو سمجھنا:
قرآن پاک کا اصل مزہ تو تب ہے جب قرآن پاک کو ٹھہر ٹھہر کر اور سمجھ کر پڑھا جائے۔ارشادِ
باری ہے: وَ اِذَا قُرِئَ
الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَ اَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ(۲۰۴) (پ 9،الاعراف:204) ترجمہ کنز الایمان: اور
جب قرآن پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر سنو اور خاموش رہو کہ تم پر رحم ہو۔
جب تم
کسی چیزکو چھوڑ دیتے ہو تو وہ مرجھاجاتی ہے
لیکن
جب تم قرآن کو چھوڑتے ہو تو تم مرجھا جاتے ہو