قرآنِ کریم وہ
کتاب ہے جو کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ یہ
کتاب تمام آسمانی کتابوں کی سردارہے۔جس طرح اس کا مر تبہ بلند و بالا ہے اسی طرح
کلام اللہ یعنی قرآنِ کریم کے کچھ حقوق بھی ہیں جن کا ادا کرنا ہمارے ذمے لازم ہے،
وہ حقوق یہ ہیں؛ قرآن کی تلاوت کرنا، قرآن کو سمجھنا، قرآن پر عمل کرنا، قرآن کو
دوسروں تک پہنچانا اور قرآنِ کریم پر ایمان
لانا۔
1-سورۂ واقعہ
میں اللہ پاک نے فرمایا: لَّا یَمَسُّهٗۤ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَؕ(۷۹) (پ
27، الواقعہ: 79)ترجمہ كنز العرفان: اسے نہ چھوئے مگر باوضو۔
تفسیر
صراط الجنان:آیت
ِمبارکہ سے معلوم ہوا کہ قرآنِ کریم کو وہ ہاتھ لگائے جو باوضو ہو اور اس پر غسل
فرض نہ ہو۔
نوٹ:قرآنِ کریم کو چھونے کیلئے وضو
کرنا فرض ہے۔
2-سورہ ٔاعراف
آیت نمبر 204 میں اللہ پاک نے فرمایا: وَ اِذَا قُرِئَ
الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَ اَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ(۲۰۴) ترجمہ
كنز العرفان: اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر سنو اور خاموش رہو کہ تم پر
رحم ہو۔
تفسیر
صراط الجنان:اس
کی عظمت و شان کا تقاضہ یہ ہے کہ جب قرآنِ کریم پڑھا جائے تو غور سے سنا جائے اور
خاموش رہا جائے۔
3-سورہ ٔنحل آیت
نمبر 98 میں اللہ پاک نے فرمایا: فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ
بِاللّٰهِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ(۹۸)ترجمہ کنز
الایمان:تو جب تم قرآن پڑ ھو تو اللہ کی پناہ مانگو شیطان مردود سے۔
تفسیر
صراط الجنان:یعنی
قرآنِ کریم کی تلاوت شروع کرتے وقت اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ
الرَّجِیْم
پڑھو۔یہ پڑھنا مستحب ہے۔
4-سورۂ مزمل
آیت نمبر04 میں اللہ پاک نے فرمایا: وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ
تَرْتِیْلًاؕ(۴) ترجمہ
کنز الایمان: اور قرآن خوب ٹھہرٹھہر کر پڑھو۔
تفسیر
صراط الجنان:اس
کا معنی یہ ہے کہ اطمینان کے ساتھ اس طرح قرآن پڑھو کہ حروف جدا جدا رہیں، جن
مقامات پر وقف کرنا ہے ان کا اور تمام حرکات (اور مدات )کی ادائیگی کا خاص خیال
رکھا جائے۔
5-سورهٔ قيامہ
آیت نمبر16 میں اللہ پاک نے فرمایا: لَا تُحَرِّكْ بِهٖ
لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهٖؕ(۱۶)ترجمہ کنز الایمان:تم یاد کرنے کی جلدی
میں قرآن کے ساتھ اپنی زبان کو حرکت نہ دو۔
شان نزول:جب حضرت جبریل
علیہ السلام رسول اللہ ﷺ کے پاس وحی لےکر آئے تو حضور اقدس ﷺ حضرت جبریل علیہ السلام
کے(پڑھنے کے )ساتھ اپنی زبان اور ہونٹوں کی حرکت دیا کرتے تھے، اس سے آپ ﷺ کو تکلیف
ہوتی تھی۔ تو اللہ پاک نے اپنے حبیب ﷺ کی یہ
مشقت گوارا نہ فرمائی اور سورۂ قیامہ میں یہ آیت ِمبارکہ نازل فرمائی۔
ترغیب:جو شخص یہ چاہتا ہے
کہ اللہ پاک اُسے اپنے وفادار بندوں میں
شمار کرے اور اُسے اپنی ابدی رحمتوں میں حصے دار بنائے تو اس کیلئے لازم ہے کہ قرآنِ کریم کو جس طرح
پڑھنے کا حق ہے اس کو اسی انداز سے پڑھا جائے۔ اگر ہم قرآنِ کریم کو درست انداز میں
پڑھنے میں کامیاب ہوگئے تو ہماری دنیا و آخرت سنور جائیں گی۔
قرآنِ
کریم کو غلط پڑھنے کا و بال: مراٰ ۃ المناجیح جلد 03، حدیث:2135 میں ہے:رسول اللہ ﷺنے فرمایا: اللہ
اس قرآن کے ذریعے کچھ قوموں کو سر بلند کرےگا اور کچھ کو گرا دےگا۔
شرح: گرادے گا سے مراد جو اس سے غافل رہیں یا غلط طرح سمجھیں۔ غلط طور پر عمل کریں وہ دنیا
و آخرت میں ذلیل ہوں گے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ بہت سے قرآن پڑھنے والے ایسے ہیں
جن پر قرآن خود لعنت کرتا ہے۔
آباد
وہی ہے دل کہ جس میں تمہاری یاد ہے جو
یاد سے غافل ہوا ویران ہے برباد ہے
البتہ قرآن کو
سمجھ کر، درست انداز میں پڑھنا چاہیے تاکہ
جو احکام الله پاک نے بیان فرمائے ہیں وہ بآسانی سمجھ سکیں۔ اس کیلئے اس دور کی عظیم
الشان، مقبول عام تفسیر صراط الجنان کا مطالعہ فرمائیں۔ اللہ پاک ہمیں قرآنِ کریم کو سمجھ کر پڑھنے کی توفیق سے
نوازے۔ آمین بجاہِ خاتم النبیین ﷺ