خشوع و خصوع دل میں خوف اور عاجزی کی ایک کیفیت کا نام ہے ، دل میں اللہ کی عظمت و ہیبت و کبریائی کوپیش نظر رکھنا اور اعضا سے اس کا اظہار کرنا۔

آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا بے شک نماز سکون عاجزی ، گڑگڑانے ، خو ف اور زہد کا نام ہے۔( سنن ترمذی ج۱، ص ۳۹۴ حدیث ۳۸۵)

قرآن پاک میں خشوع و خضوع سے نماز پڑھنے والوں کو کامیابی کی بشارت دی گئی ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:

قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱)الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)

تَرجَمۂ کنز الایمان :بے شک مراد کو پہنچے ایمان والے جو اپنی نماز میں گڑ گڑا تے ہیں۔(پ۱۸، المؤمنون:۲،۱)

رحمت للعالمین صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان جنت نشان ہے:

جو اچھی طرح وضو کرے پھر ظاہر و باطن کی یکسوئی کے ساتھ دو رکعتیں پڑھے تواس کے لیے جنت واجب ہوجاتی ہے۔( صحیح مسلم حدیث ۲۳۴۔ ص ۱۴۴)

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں، غور و فکر کے ساتھ دو رکعت نفل پڑھنا غافل دل کے ساتھ پوری رات قیام کرنے سے بہتر ہے۔( الزھد لابن المبارک، حدیث ۲۸۸، ص ۹۷)

خشوع و خضوع والی نماز رب کاقرب اس کی مغفرت و رضا دلاتی ہے غموں کو دور کرتی ، گناہوں سےبچاتی، جنت واجب کرواتی اور سنت کا ثواب دلاتی ہے، خشوع و خصوع نماز کی اصل روح ہے۔ اعلیٰ درجے کی نماز وہ ہے جو خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کی جائے اس خشوع و خضوع کی مثال جسم میں روح اور کھانے میں نمک کی سی ہے جسم میں روح نہ ہو تو وہ بے جان کہلاتا ہے اور کھانے میں نمک نہ ہو تو وہ بدمزہ کہلاتا ہے، اسی طرح اگر نماز خشوع و خضوع سے خالی ہیں تو قبولیت کے درجے سے محروم رہتی ہے، اس پر ایمان کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور وہ منہ پر مار دی جاتی ہے اسی نماز سے نہ دینی فائدہ حاصل ہوتا ہے نہ دنیاوی نہ ثواب حاصل ہوتا ہے اور نہ سکون حاصل ہوتا ہے ۔

ہر چیز کے کچھ حقوق ہیں نماز کا حق اس کو خشوع و خضوع سے پڑھناہے اور جو حق کو ضائع کرتا ہے وہ مستحق عتاب ہوتا ہے نہ کہ مستحق ثواب، حضرت سیدنا حسن بصر رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں جو نماز حضور قلب سے نہ پڑھی جائے اس کی سزا جلد ملتی ہے۔( قوت القلوب ج ۲، ص ۱۶۹)

حضرت سیدنا ابودردا رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں۔ آدمی کی سمجھداری سے ہے کہ پہلے ہی اپنا ضروری کام نمٹالے تاکہ نماز شروع کرتے ہوئے ا س کا دل فارغ ہو۔( قوت القلوب ج۲، ص ۱۶۹)

نماز ر ب سے ملاقات و مناجات کا ذریعہ ہے، باتیں خدا سے اور دل میں غیر اللہ کا خیال یہ تو تَرکِ ادب ہے، سرکار صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عبرت نشان ہے، اللہ عَزَّوَجَلَّ اسی نماز کی طرف نظر نہیں فرماتا جس میں بندہ اپنے جسم کے ساتھ دل کو حاضر نہ کرے۔

(کتاب الفقہ علی المذاھب الاربعہ ج ۱، ص ۱۵۹)

حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں: جو خشو ع وخضوع سے نماز نہیں پڑھتا اس کی نماز فاسد ہے۔( قوت القلوب ج ۲، ص ۱۶۱)

بزرگوں کا انداز:

جب سرکار مدینہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نماز ادا فرماتے تو آپ کا سینہ مبارکہ ہانڈی کی طر ح جوش مارتا تھا۔ (مسند امام احمد ج ۵، ص ۵۰۱، حدیث ۱۶۳۲۶)

حضرت یحیی بن زکریا علیہ السَّلام جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اس قدر روتے کہ درخت اور مٹی کے ڈھیلے بھی ساتھ رونے لگتے۔(احیا العلوم ج ۴، ص ۲۲۵)

حضرت سعید تنوخی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ جب نماز پڑھتے تو ( اس قدر روتے کہ رخسا ر سے داڑھی تک مسلسل آنسو گرتے رہتے۔( تاریخ مدینہ دمشق الدین عساکر ج ۲۱، ص ۲۰۳)