خشوع کے معنی ہیں۔ دل کا فعل اور ظاہری اعضا (یعنی ہاتھ) کا عمل۔

(تفسیر کبیر ج،۸،ص۲۵۹)

دل کا فعل یعنی اللہ پاک کی عظمت بیش نظر ہو، دنیا سے توجہ ہٹی ہوئی ہو اور نماز میں دل لگا ہو، اور ظاہری اعضا کا عمل یعنی سکون سے کھڑا رہا ، ادھر ادھر نہ دیکھے،اپنے جسم اور کپڑوں کے ساتھ نہ کھیلے اور کوئی ثبث و بے کار کام نہ کرے۔

(ماخوذ تقسیم کبیر ج۸،۔ ص ۲۵۹، مدارک ص ۷۵۱ صاوی ج ۴، ص ۱۳۵۶)

نماز میں خشوع مستحب ہے، علامہ بدر الدین عینی رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں نماز میں خشوع مستحب ہے۔(عمدة القاری ۱ ص۳۹۱ تحت الحدیث ۷۴۱)

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ لکھتے ہیں مطلب یہ کہ اعلیٰ درجے کی نماز وہ ہے جو خشوع کے ساتھ ادا کی جائے۔(فتاویٰ رصویہ ج ۴، ص ۲۰۵)

اللہ کریم پارہ۱۸، سورة المؤمنون کی آیت ۱ اور ۲ میں ارشاد فرماتا ہے:

قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱)الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)

تَرجَمۂ کنز الایمان : بے شک مراد کو پہنچے ایمان والے جو اپنی نماز میں گڑ گڑاتے ہیں۔

تفسیر صراط الجنان، جلد ۶، ۴۹۶، پر ہے اس آیت میں ایمان والوں کو بشارت ( یعنی خوش خبری) دی گئی ہے کہ بے شک وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے اور ہمیشہ کےلیے جنت میں داخل ہو کر ناپسندیدہ چیز سے نجات پا جائیں گے۔

مزید صفحہ ۴۹۶ پر ہے ایمان والے خشوع کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں، اس وقت ان دلوں میں اللہ کریم کا خوف ہوتا ہے اور ان کے اعضا ساکن ( یعنی ٹھہرے ) ہوتے ہیں۔

نماز میں ظاہری و باطنی:

خشوع کسے کہتے ہیں :

نماز میں خشوع ظاہری بھی ہوتا ہے اور باطنی بھی، ظاہری خشوع یہ ہے کہ نماز کے آدا ب کی مکمل رعایت کی جائے مثلا نظر جائے نماز سے باہر نہ جائے اور آنکھ کے کنارے سے کسی طرف نہ دیکھے، آسمان کی طرف نظر نہ اٹھائے کوئی عبث و بیکار کام نہ کرے کوئی کپڑا شانوں ( یعنی کندھوں) پر اس طرح نہ لٹکائے کہ اس کے دونوں کنارے لٹکتے ہوں( ہاں! اگر ایک کنارا دوسرا کندھے پر ڈال دیا اور دوسرا لٹک رہا ہے تو حرج نہیں) انگلیاں نہ چٹخائے اور اس قسم کی حرکات سے باز رہے۔

باطنی خشوع یہ ہے کہ اللہ پاک کی عظمت پیش نظر ہو، دنیا سے توجہ ہٹی ہوئی ہو اور نماز میں دل لگا ہو۔(تفسیر صراط الجنان ج ۴، ص ۴۹۴)

خشوع سے نماز پڑھنا گناہوں کا کفارہ:

امیر المومنین حضرت سیدنا عثمان ابن عفان رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اللہ پاک کے پیارے نبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ فرماتے سنا کہ جس مسلمان پر فرض نماز کا وقت آئے اور وہ اچھی طرح وضو کرکے خشوع کے ساتھ نماز پڑھے اور درست طریقے سے رکوع کرے تو وہ نماز اس کے پچھلے گناہوں کا کفارہ ہوجاتی ہے جب تک کہ وہ کسی کبیرہ گناہ کا ارتکاب نہ کرے اور یہ (یعنی گناہوں کی معافی کا سلسلہ ) ہمیشہ ہی ہوتا ہے۔ (کسی زمانے کے ساتھ خاص نہیں ہے)

(مسلم ص ۱۱۶، حدیث ۵۱۳)

شعر:

مصطفے کے سب صحابی جنتی ہیں لاجزم

سب سے راضی حق تعالیٰ سب پہ ہے اس کا کرم