کلمہ اسلام کے بعد اسلام کا سب سے بڑا رکن نماز ہے, نماز ہر عاقل, بالغ, مسلمان, مرد و عورت پر فرض عین ہے بلاشبہ نماز کے بے شمار فضائل و برکات ہیں .

نماز میں اللہ کریم کی خوشنودی ہے,

نماز مکی مدنی آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے,

نماز انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت ہے,

نماز مومن کی معراج ہے,

نماز جنت کی کنجی ہے,

الغرض نماز اللہ پاک کی بارگاہ میں حاضری کا نام ہے.

اسی طرح نماز میں خشوع و خضوع کی بھی اہمیت ہے علامہ بدر الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں نماز میں خشوع مستحب ہے.

میرے آقا اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں نماز کا کمال, نماز کا نور, نماز کی خوبی, فہم و تدبر, حضور قلب (یعنی خشوع) پر ہے مطلب یہ ہے کہ اعلی درجے کی نماز وہی ہے جو خشوع کے ساتھ ادا کی جائے.

اللہ کریم نے سورہ مؤمنون کی ابتدائی دس آیات میں ایمان والوں کے جو اوصاف بیان فرمائے ہیں ان میں سب سے پہلا وصف یہ بیان ہوا کہ ایمان والے خشوع وخضوع کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں چنانچہ سورۃ المؤمنون کی آیت نمبر 1 اور 2 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱)الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲) تَرجَمۂ کنز الایمان: بےشک مراد کو پہنچے ایمان والے جو اپنی نماز میں گڑگڑاتے ہیں۔

بے شک مراد کو پہنچے ایمان والے جو اپنی نماز میں گڑگڑاتے ہیں تفسیر صراط الجنان صفحہ نمبر 494 پر ہے : اس آیت میں ایمان والوں کو بشارت دی گئی ہے بے شک وہ اللہ پاک کے فضل سے اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے اور ہمیشہ کے لیے جنت میں داخل ہوکر ہر ناپسندیدہ چیز سے نجات پا جائیں گے.

مولا سے اپنے ملتا ہے بندہ نماز میں

اٹھ جاتا ہے جدائی کا پردہ نماز میں

خشوع وخضوع کسے کہتے ہیں؟ :

خشوع کا لغوی معنی ہے عاجزی کا اظہار کرنا تابع و فرمانبرداری کرنا نماز میں خشوع و خضوع سے مراد یہ ہے کہ اللہ پاک کی عظمت پیش نظر ہو دنیا سے توجہ ہٹی ہو نماز میں دل لگا ہو نماز کی ادائیگی کی مکمل رعایت کرے سکون سے کھڑا ہو جسم اور کپڑوں کے ساتھ نہ کھیلے کوئی عبث اور بیکار کام نہ کرے بدن میں عاجزی ہو اور دل میں گڑ گڑانے کی کیفیت پیدا کرے.

نماز کیسی ہونی چاہیے ؟

آداب دین کے صفحہ نمبر 30 پر ہے نمازپڑھنے والے کو چاہئے کہ عاجزی اور خشوع و خضوع کی کیفیت پیدا کرے اور حضور قلب کے ساتھ نماز پڑھے وسوسوں سے بچنے کی کوشش کرے ظاہری اور باطنی طور پر توجہ سے نماز پڑھے اعضا پرسکون رکھے نگاہیں نیچی رکھے قیام میں دایاں یعنی سیدھا ہاتھ بائیں یعنی الٹے ہاتھ پر رکھے تلاوت میں غوروفکر کرتے ہوئے اور خوفزدہ ہوکر تکبیر تحریمہ کہے خشوع وخضوع کے ساتھ رکوع کرے وقت کے ساتھ تسبیح پڑھے اورتشہد اور اس طرح پڑھے جسے اللہ پاک کو دیکھ رہا ہے رحمت خداوندی کی امید رکھتے ہوئے سلام پھیرے اس خوف سے پلٹے کہ نہ جانے میری نماز قبول بھی ہوئی ہے یا نہیں اور اور رضائے الہی طلب کرنے کی کوشش کرے.

آپہنچا خاص اپنے شہنشاہ کے حضور

جب بندہ ہاتھ باندھ کے آیا نماز میں

فضائلِ خشوع:

خشوع کے ساتھ نماز ادا کرنا عمر میں اضافے کا سبب ہے خشوع کے ساتھ نماز ادا کرنا رزق میں وسعت کا ذریعہ ہے دعوت اسلامی کے مکتبۃالمدینہ کی کتاب راہ علم کے صفحہ نمبر 92 پر ہے رزق میں وسعت کا طویل ترین ذریعہ یہ ہے کہ انسان نمازکو خشوع وخضوع کے ساتھ تعدیل ارکان کا لحاظ رکھتے ہوئے اور تمام واجبات وسنن کی ادائیگی کی پوری طرح رعایت کرتے ہوئے ادا کرے۔ اسی کتاب کے صفحہ نمبر 87 پر ہے نماز کو خشوع وخضوع کے ساتھ ادا کرنا اور تحصیل علم میں لگے رہنا فکر و غم کو دور کردیتا ہے الغرض خشوع وخضوع کے ساتھ نماز ادا کرنا گناہوں کے کفارے کا سبب ہے ۔

چنانچہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ جس مسلمان پر فرض نماز کا وقت آئے اور وہ اچھی طرح وضو کر کے خوشی کے ساتھ نماز پڑھے اور درست طریقے سے رکوع کرے تو نماز اس کے پچھلے گناہوں کا کفارہ ہو جاتی ہے جب تک وہ کسی کبیرہ گناہ کا ارتکاب نہ کرے اور یہ ہمیشہ ہی ہوتا ہے (مسلم صفحہ 116 حدیث 543)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اندازِ نماز:

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :سرکار صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے اور ہم آپ سے گفتگو کر رہے ہوتے لیکن جب نماز کا وقت آتا تو گویا آپ ہمیں نہیں پہچانتے اور ہم آپ کو نہیں پہچانتے اس قدر ۔۔۔ (احیاء العلوم جلد 1 صفحہ 205)

بزرگان دین کا انداز:

بزرگ حضرت مسلم بن یسار رضی اللہ عنہ اس قدر انہماک سے نماز پڑھتے کہ اپنے قرب و جوار کی بھی خبر نہ رہتی ایک دن نماز میں مشغول تھے کہ قریب آگ بھڑک اٹھی لیکن انہیں احساس تک نہ ہوا حتیٰ کہ لوگوں نے آ کر آگ بجھادیں (اللہ والوں کی باتیں جلد 2 صفحہ 447 )

حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام جب نماز میں کھڑے ہوتے تو آپ کے دل کی آواز دو میل کے فاصلے پر سنائی دیتی تھی.

امام حاتم عصمرحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے ان کی نماز کا حل پوچھا تو فرمایا کہ جب نماز کا وقت آتا ہے تو میں وضو کا عمل کرکے اس جگہ آتا ہوں جہاں نماز پڑھنے کا ارادہ ہو وہاں آکر بیٹھتا ہوں یہاں تک کہ میرے تمام اعضاء مطمئن ہوجائیں پھر میں نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہوں اور کعبہ شریف کو اپنے سامنے اور پل صراط کو اپنے قدموں تلے تصور کرتا ہوں اور جنت کو اپنی داہنی طرف اور دوزخ کو اپنے بائیں طرف اور ملک الموت کو پشت کے پیچھے تصور کرتا ہوں اور اس نماز کو سب سے پچھلی نماز جانتا ہوں اور خوف ورجا کے ساتھ کھڑا ہوکر اللہ اکبر بلند آواز کے ساتھ کہتا ہوں اور قراءت اچھی طرح پڑھتا ہوں اور رکوع تواضع کے ساتھ کرتا ہوں اور بائیں طرف سرین پر بیٹھ کر پاؤں کو بچا لیتا ہوں اور دہانے یعنی سیدھے انگوٹھے کو کھڑا رکھتا ہوں اور ساری نماز میں اخلاص کی کوشش کرتا ہوں پھر میں نہیں جانتا کہ میری نماز قبول ہوئی یا نہیں (احیاء العلوم جلد 1 صفحہ 206)

سبحان اللہ ہمارے بزرگان دین کا خوف خدا اتنا زیادہ اور اس قدرد انہماک کے ساتھ نماز ادا کرنے کے باوجود نماز قبول نہ ہونے کا خوف رکھتے تھے یہ صاحبان اعلی درجے کی نماز پڑھنے کے باوجود اللہ رب العزت کی بارگاہ میں اس قدر عاجزی کرتے تھے اس قدر قابل رشک اور لائق تقلید انداز میں نماز ادا فرماتے تھے اور ہماری حالت یہ ہے کہ نماز میں کبھی بدن کو تو کبھی لباس کو سہلاتے ہیں نماز میں بے توجہی اس قدر ہے کہ نماز کی رکعات تک بھول جاتے ہیں اور نماز میں وہ باتیں یاد آتی ہے جو نماز کے باہر یاد نہیں آتی غفلت کے ساتھ نماز پڑھنے کے باوجود ہمارے دل میں یہ خوف نہیں آتا کہیں میری نماز میرے منہ پر ہی نہ مار دی جائے.

پیارے نمازیوں نماز تو اللہ پاک سے مناجات اس کے ذکر کا نام ہے تو پھر غفلت کے ساتھ کیسے ادا ہو جائے گی چنانچہ حدیث پاک میں ہے اللہ پاک ایسی نماز کی طرف نظر عنایت نہیں فرماتا جس میں بندہ اپنے بدن کے ساتھ دل کو حاضر نہ کرے ۔ایک اور روایت میں ہے کہ نماز کا فرض ہونا اور حج اور طواف کا حکم ہونا اور دوسرے ارکان کا مقرر کرنا صرف ذکر الہی کے قائم کرنے کے لئے ہے (احیاء العلوم)

ہوں میری ٹوٹی پھوٹی نماز خدا قبول

ان دو کا صدقہ جن کو کہا شاہ نے میرے پھول

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں دلجمعی کے ساتھ خشوع وخضوع کے ساتھ نماز ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین