کمرے
کے باہر مریض اور ڈاکٹر کی آپس میں گفتگو صاف سُنائی دے رہی تھی۔
مریض:ڈاکٹر
صاحب پچھلے 6دن سے باقاعدگی سے دوا لے رہا ہوں مگر کوئی خاص فرق نہیں پڑ رہاآخر
آپ کیسی دوا دے رہے ہیں پیسہ بھی پانی کی طرح برباد ہو رہا ہے اور تکلیف بھی اپنی
جگہ موجود ہے۔ آپ لوگ تو پیسے والے ہیں آپ کو کیا فرق پڑتا ہے؟ مرتا تو غریب ہے۔
ڈاکٹر:
آپ پریشان نہ ہوں اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ آپ جلد ٹھیک
ہوجائیں گے۔
مریض:
یہ بات تو آپ نے پچھلی بار بھی کہی تھی، مجھے لگتا ہے کہ مجھے ڈاکٹر بدلنا پڑے گا
یہ آپ کے بس کی بات نہیں ہے۔
ڈاکٹر:
شفاء دینے والی ذات اللہ کی ہے دوا
دینا میرا کام ہے۔ آپ تھوڑا صبر سے کام لیجئے، جلد آپ کی تکلیف دور ہوجائے گی۔
مریض:
(غصّے سے جھنجلاتے ہوئے) رہنے دیجئے مجھے یہاں آنا ہی نہیں چاہئے تھا، بلا وجہ
اپنا وقت اور پیسہ برباد کیا۔
اسلم(جوکہ
ڈاکٹر صاحب کا معاون ملازم تھا) باہر کھڑا سوچ رہا تھا کہ یہ ڈاکٹر صاحب کا حوصلہ
ہےجو مریضوں کی کڑوی باتیں برداشت کرلیتے ہیں۔
تمام
مریضوں سے فارغ ہونے کے بعد جب اسلم ڈاکٹر صاحب کے لئے چائے لے کر اندر کلینک میں
داخل ہوا تو پوچھے بنا نہ رہ سکا۔
ڈاکٹر
صاحب آپ مریضوں کی کڑوی باتیں برداشت کرکے کس طرح مسکرا لیتے ہیں؟ مجھ سے تو کوئی
ایسے بات کرے تو میں اُسے چھوڑوں نہیں۔
یہ
مریض آپ کی نرمی کا ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ آپ بھی سخت
جواب دیا کریں، شرافت کا زمانہ نہیں ہے۔
ڈاکٹر
صاحب (مسکراتے ہوئے اسلم سے گویا ہوئے) دیکھو اسلم ہم لوگوں کو کڑوی دوا کھلاتے
ہیں تو جواب میں کڑوی باتیں ہی مِلیں گی ناں؟
یہ
ہمارے پیشے کا حصہ ہے کہ ہم مریضوں سے خوش اخلاقی کا مظاہرہ کریں تاکہ اس کا آدھا
مرض تو حسنِ اخلاق سے ہی مِٹ جائے۔ اصل میں بیماری کے باعث چِڑ چِڑا پن انسان کی
طبیعت میں آجاتا ہے مگر ہم تو صحت مند ہیں ہم تو خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرسکتے ہیں۔
اسلم:
ڈاکٹر صاحب مان گئے آپ کو۔ آپ نے تو مجھے لاجواب کردیا لیکن میں تو اچھے کے ساتھ
اچھا اور برے کے ساتھ برا کرنے کا قائل ہوں۔
ڈاکٹر
صاحب: مفسرِ شہیر مفتی احمد یار خان علیہ الرَّحمہ فرماتے
ہیں: خوش خلقی کا ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ کسی کو جانی، مالی، عزت کی ایذا نہ دے جبکہ
اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ بُرائی کا بدلہ بھلائی سے کرے، یہ بہت اعلیٰ چیز ہے جسے خدا
تعالیٰ نصیب کرے۔ (مراٰۃ المناجیح،
6/461۔ تکلیف نہ دیجئے،ص:14)
اسلم:
لیکن ہمیں اس سے کیا فائدہ حاصل ہوگا؟
ڈاکٹر
صاحب: حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے فرمایا: ”میزانِ عمل میں حسنِ اخلاق سے زیادہ
وزنی کوئی چیز نہیں۔“(سنن ابی داؤد، باب فی حسن الخلق، 8/279، حدیث:1672)
اسلم:
لیکن میزانِ عمل کو تو دوسری نیکیوں سے بھی وزن دار کیا جاسکتا ہے، پھر خوش اخلاقی
ہی کیوں؟ مجھ سے تو کسی کی غلط بات برداشت ہی نہیں ہوتی، میرے گھر والوں کو بھی
پتا ہے کہ میں غصے میں کچھ نہیں دیکھتا۔
ڈاکٹر
صاحب: لیکن بہتر تو وہی ہے جو بُرائی کے بدلے میں بھلائی کرے، بھلائی کے بدلے
بھلائی کرنا کونسا کمال ہے؟
حضور
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ”بندہ حسنِ اخلاق کی وجہ سے تہجد
گزار اور سخت گرمی میں روزے کے سبب پیاسا رہنے والے کے درجے کو پالیتا ہے۔ (کتاب حسن اخلاق،ص16)
اسلم
نے تائید کے انداز میں سرہلایا
ڈاکٹر
صاحب: مزید سنو! حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تم لوگوں کو اپنے
اموال سے خوش نہیں کرسکتے لیکن تمہاری خندہ پیشانی اور خوش اخلاقی انہیں خوش
کرسکتی ہے۔(کتاب حسن اخلاق، ص20،المستدرک للحاکم، کتاب العلم، 1/329،حدیث:435)
اور
ایک جگہ فرمایا: مسلمانوں میں سب سے زیادہ اچھا وہ ہے جس کے اخلاق سب سے زیادہ
اچھے ہیں۔(حسنِ اخلاق،ص17)