عبدالوحید رضا عطاری( درجہ ثالثہ مرکزی جامعۃ المدینہ
فیضان عثمان غنی بارشی مہاراشٹرا )
خوفِ خدا کی تعریف :
خوف
سے مرادہ وہ قلبی کیفیت ہے جو کسی ناپسندیدہ امر کے پیش آنے کی توقع کے سبب پیدا
ہو، مثلاً پھل کاٹتے ہوئے چھری سے ہاتھ کے زخمی ہوجانے کا ڈر۔ جبکہ خوفِ خدا کا
مطلب یہ ہے کہ اللہ تَعَالٰی کی بے نیازی، اس کی ناراضگی، اس کی گرفت اور اس کی
طرف سے دی جانے والی سزاؤں کا سوچ کر انسان کا دل گھبراہٹ میں مبتلا ہو جائے۔
(نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ200)
اللہ
پاک قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ (پ22،
الاحزاب:70)
ترجمۂ کنزالایمان:’’اے ایمان والو
اللہ سے ڈرو۔‘‘
اللہ پاک ارشاد
فرماتا ہے:
وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِۚ(۴۶) (پ27، الرحمٰن: 46)
ترجمۂ کنزالایمان:
’’اور جو اپنے ربّ کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرے اس کے لیے دو جنتیں ہیں۔‘‘
حکمت کی اصل خوفِ خدا ہے:
اللہ
کہ آخری نبی مکی مدنی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’حکمت کی اصل اللہ پاک کا خوف
ہے۔‘‘
سرکارِ
مدینہ راحت قلب وسینہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ عَنْہ سے فرمایا: ’’اگر تم
مجھ سے ملنا چاہتے ہو تو میرے بعد بھی اللہ پاک سے بہت ڈرتے رہنا۔‘‘
(نجات
دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ201)
خوفِ خدا کا حکم:
خوفِ
خدا تمام نیکیوں اور دنیا وآخرت کی ہر بھلائی کی اصل ہے، خوفِ خدا نجات دلانے اور
جنت میں لے جانے والا عمل ہے۔ پھر خوف کے تین درجات ہیں:
(۱) ضعیف: (یعنی کمزور) یہ وہ خوف ہے جو
انسان کو کسی نیکی کے اپنانے اور گناہ کو چھوڑنے پر آمادہ کرنے کی قوت نہ رکھتا
ہو، مثلاً جہنم کی سزاؤں کے حالات سن کر محض جھرجھری لے کر رہ جانا اور پھرسے
غفلت ومعصیت (گناہ)میں گرفتار ہوجانا۔
(۲) معتدل: (یعنی متوسط) یہ وہ خوف ہے جو
انسان کو نیکی کے اپنانے اور گناہ کو چھوڑنے پر آمادہ کرنے کی قوت رکھتا ہو،
مثلاً عذابِ آخرت کی وعیدوں کو سن کر ان سے بچنے کے لیے عملی کوشش کرنا اور اس کے
ساتھ ساتھ ربّ تَعَالٰی سے اُمید رحمت بھی رکھنا۔
(۳) قوی: (یعنی مضبوط) یہ وہ خوف ہے جو
انسان کو ناامیدی، بے ہوشی اور بیماری وغیرہ میں مبتلا کردے، مثلاً اللہ تَعَالٰی
کے عذاب وغیرہ کا سن کر اپنی مغفرت سے ناامید ہوجانا۔ یہ بھی یاد رہے کہ اِن سب میں
بہتر درجہ ’’معتدل‘‘ ہے کیونکہ خوف ایک ایسے تازیانے (کوڑے)کی مثل ہے جو کسی جانور
کو تیز چلانے کے لیے مارا جاتا ہے، لہٰذا اگر اس تازیانے کی ضرب (چوٹ)اتنی ضعیف
(کمزور) ہو کہ جانور کی رفتار میں ذرہ بھر
بھی اضافہ نہ ہو تو اس کا کوئی فائدہ نہیں اور اگر یہ اِتنی قوی ہو کہ جانور اس کی
تاب نہ لاسکے اور اتنا زخمی ہوجائے کہ اس کے لیے چلنا ہی ممکن نہ رہے تو یہ بھی
نفع بخش نہیں اور اگر یہ معتدل ہو کہ جانور کی رفتار میں بھی خاطر خواہ اضافہ
ہوجائے اور وہ زخمی بھی نہ ہو تو یہ ضرب بے حد مفید ہے۔
(نجات
دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ201۔202)
خوفِ خدا پیدا کرنے کے (8) طریقے:
(1)ربّ تَعَالٰی کی بارگاہ میں سچی توبہ کرلیجئے:جس
طرح طویل دنیاوی سفر پر تنہا روانہ ہوتے وقت عموماًہماری یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہی
سامان ساتھ رکھیں جو مفید ہو۔ نقصان دہ اشیاء ساتھ نہیں رکھتےتاکہ ہمارا سفر قدرے
آرام سے گزرے اور ہمیں زیادہ پریشانی کا سامنا نہ کر نا پڑے، بالکل اسی طرح سفرِ
آخرت کو کامیابی سے طے کرنے کی خواہش رکھنے والے کو چاہیے کہ روانگی سے قبل
گناہوں کا بوجھ اپنے کندھوں سے اتارنے کی کوشش کرے کہ کہیں یہ بوجھ اسے تھکا کر
کامیابی کی منزل پر پہنچنے سے محروم نہ کر دے۔ اس بوجھ سے چھٹکارے کا ایک طریقہ یہ
ہے کہ بندہ اپنے پروردگار عَزَّ وَجَل کی بارگاہ میں سچی توبہ کرے کیونکہ سچی توبہ
گناہوں کو اس طرح مٹا دیتی ہے جیسے کبھی کیے ہی نہ تھے ۔ چنانچہ فرمانِ مصطفےٰ
صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہے: ’’گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا
ہے جیسےاس نے گناہ کیا ہی نہ ہو۔‘‘
(2)خوفِ خدا کے لیے بارگاہ ربّ العزت میں دعا کیجئے:یوں
دعا کیجئے: اے میرے مالک عَزَّ وَجَل! تیرا یہ کمزور وناتواں بندہ دنیا وآخرت میں
کامیابی کے لئے تیرے خوف کو اپنے دل میں بسانا چاہتاہے۔ اے میرے ربّ عَزَّوَجَل! میں
گناہوں کی غلاظت سے لتھڑا ہوا بدن لیے تیری پاک بارگاہ میں حاضر ہوں۔اے میرے پرورد
گار عَزَّ وَجَل!مجھے معاف فرمادے اور آئندہ زندگی میں گناہوں سے بچنے کے لئے اس
صفت کو اپنانے کے سلسلے میں بھرپور عملی کوشش کرنے کی توفیق عطافرمادے اور اس کوشش
کو کامیابی کی منزل پر پہنچادے۔ اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ !مجھے اپنے خوف سے معمور
دل، رونے والی آنکھ اور لرزنے والا بدن عطا فرما ۔آمین
یارب ! میں تیرے خوف سے روتا رہوں ہر دم
دیوانہ شہنشاہِ مدینہ کا بنا دے
(3)خوفِ خدا کے فضائل پیش نظر رکھیے: فطری طور پر
انسان ہر اس چیز کی طرف آسانی سے مائل ہوجاتا ہے جس میں اسے کوئی فائدہ نظر آئے۔
اس تقاضے کے پیش نظر ہمیں چاہیے کہ قرآن واحادیث میں بیان کردہ خوفِ خدا کے فضائل
پیش نظر رکھیں، چند فضائل یہ ہیں:خوفِ خدا رکھنے والوں کے لیے دو جنتوں کی بشارت دی
گئی ہے۔ خوفِ خدا رکھنے والوں کو آخرت میں کامیابی کی نوید (خوشخبری)سنائی گئی
ہے۔ خوفِ خدا رکھنے والوں کو جنت کے باغات اور چشمے عطا کیے جائیں گے۔ خوفِ خدا
رکھنے والے آخرت میں امن کی جگہ پائیں گے۔ خوفِ خدا رکھنے والوں کو مددوتائید
الٰہی حاصل ہوتی ہے۔خوفِ خدا رکھنے والے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے پسندیدہ بندے ہیں۔
خوفِ خدا اَعمال میں قبولیت کا ایک سبب ہے۔خوفِ خدا رکھنے والے بارگاہ الٰہی میں
مکرم ہیں۔خوفِ خدا رکھنے والے دنیا وآخرت میں کامیاب وکامران ہیں۔ خوفِ خدا جہنم
سے چھٹکارے کا سبب ہے۔ خوفِ خدا ذریعہ نجات ہے۔
(4) خوفِ خدا کی علامات پر غور کیجئے: جب کسی چیز کی
علامات پائی جائیں گیں تو وہ شے بھی خود بخود پائی جائے گی۔ حضرت سیدنا فقیہ
ابواللیث سمرقندی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ الْقَوِی فرماتے ہیں: اللہ عَزَّ وَجَلَّ
کے خوف کی علامت آٹھ چیزوں میں ظاہر ہوتی ہے: (1) انسان
کی زبان میں، اس طرح کہ ربّ تَعَالٰی کا خوف اس کی زبان کو جھوٹ، غیبت، فضول گوئی
سے روکے گا اور اسے ذکرُاللہ، تلاوتِ قرآن اور علمی گفتگو میں مشغول رکھے گا۔(2)اس کے شکم میں، اس طرح کہ وہ اپنے پیٹ
میں حرام کو داخل نہ کرے گا اور حلال چیز بھی بقدرِ ضرورت کھائے گا۔(3)اس کی آنکھ میں، اس طرح کہ وہ اسے
حرام دیکھنے سے بچائے گا اور دنیا کی طرف رغبت سے نہیں بلکہ حصولِ عبرت کے لیے دیکھے
گا۔(4)اس کے ہاتھ میں، اس طرح کہ وہ کبھی بھی
اپنے ہاتھ کو حرام کی جانب نہیں بڑھائے گا بلکہ ہمیشہ اِطاعت الٰہی میں استعمال
کرے گا۔ (5) اس کے قدموں میں، اس طرح کہ وہ انہیں
اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی نافرمانی میں نہیں اٹھائے گا بلکہ اس کے حکم کی اِطاعت کے لیے
اٹھائے گا۔(6)اس کے دل میں، اس طرح کہ وہ اپنے دل سے
بغض، کینہ اور مسلمان بھائیوں سے حسد کرنے کو دور کردے اور اس میں خیرخواہی اور
مسلمانوں سے نرمی کا سلوک کرنے کا جذبہ بیدار کرے۔ (7)اس
کی اطاعت و فرمانبرداری میں، اس طرح کہ وہ فقط اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رِضا کے لیے
عبادت کرے اور رِیاء ونفاق سے خائف رہے۔(8) اس
کی سماعت میں، اس طرح کہ وہ جائز بات کے علاوہ کچھ نہ سنے۔
(5)جہنم کے عذابات پر غوروتفکر کیجئے:جہنم کے
عذابات پر غور کرنے کے لیے پانچ فرامین مصطفےٰ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پیش خدمت ہیں: ٭دوزخیوں میں سب سے ہلکا عذاب جس کو ہوگا اسے آگ
کی جوتیاں پہنائی جائیں گی جس سے اس کا دماغ کھولنے لگے گا۔٭دوزخیوں میں بعض وہ
لوگ ہوں گے جن کے ٹخنوں تک آگ ہوگی اور بعض لوگ وہ ہوں گے جن کے زانوؤں تک آگ
کے شعلے پہنچیں گے اور بعض وہ ہوں گے جن کی کمرتک ہوگی اور بعض لوگ وہ ہوں گے جن
کے گلے تک آگ کے شعلے ہوں گے۔ ٭ اگر اس زرد پانی کا ایک ڈول جو دوخیوں کے زخموں
سے جاری ہوگا، دنیا میں ڈال دیاجائے تو دنیا والے بدبودار ہوجائیں۔٭دوزخ کی آگ
ہزار سال تک بھڑکائی گئی یہاں تک کہ سرخ ہوگئی، پھر ہزار سال تک بھڑکائی گئی یہاں
تک کہ سفید ہوگئی، پھر ہزار سال تک بھڑکائی گئی یہاں تک کہ سیاہ ہوگئی، پس اب وہ
نہایت سیاہ ہے۔٭دوزخ میں بختی اونٹ کے برابر سانپ ہیں، یہ سانپ ایک بارکسی کو کاٹے
تو اس کا درد اور زہر چالیس برس تک رہے گا اور دوزخ میں پالان باندھے ہوئے خچروں کی
مثل بچھو ہیں تو اُن کے ایک بار کاٹنے کا درد چالیس سال تک رہے گا۔
(6)خوفِ خدا کے بارے میں بزرگانِ دِین کے اَحوال کا مطالعہ کیجئے: چند
اَحوال پیش خدمت ہیں:٭حضرت سیدنا ابراہیم خلیلُ اللہ عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو خوفِ خدا
کے سبب اس قدر گریہ وزاری فرماتے کہ ایک میل کے فاصلے سے اُن کے سینے میں ہونے والی
گڑگڑاہٹ کی آواز سنائی دیتی۔ ایک دن حضرت سیدنا داود عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام لوگوں کو نصیحت کرنے اور خوفِ خدا
دِلانے کے لیے گھرسے باہر تشریف لائے تو آپ کے بیان میں اس وقت چالیس ہزار لوگ
موجود تھے، جن پر آپ کے پُراَثر بیان کی وجہ سے ایسی رقت طاری ہوئی کہ تیس ہزار
لوگ خوفِ خدا کی تاب نہ لاسکے اور انتقال کر گئے۔ حضرت سیدنا یحییٰ عَلٰی
نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جب نماز کے لیے
کھڑے ہوتے تو خوفِ خدا کے سبب اس قدر روتے کہ درخت اور مٹی کے ڈھیلے بھی آپ کے
ساتھ رونے لگتے۔ حضرت سیدنا شعیب عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام خوفِ
خدا سے اتنا روتے تھے کہ مسلسل رونے کی وجہ سے آپ کی اکثر بینائی رخصت ہوگئی۔
ایک
بار حضور نبی رحمت شفیع اُمت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ایک
جنازے میں شریک تھے، آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم قبر کے
کنارے بیٹھے اور اتنا روئے کہ آپ کی چشمانِ اَقدس (مبارک آنکھوں)سے نکلنے والے
آنسوؤں سے مٹی نم ہوگئی، پھر فرمایا: اے بھائیو! اس قبر کے لیے تیاری کرو۔
حضرت
سیدنا جبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام نے ایک بار بارگاہِ رِسالت میں عرض کی: جب سے
اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے جہنم کو پیدا فرمایا ہے، میری آنکھیں اس وقت سے کبھی اس
خوف کے سبب خشک نہیں ہوئیں کہ مجھ سے کہیں کوئی نافرمانی نہ ہوجائے اور میں جہنم میں
نہ ڈال دیا جاؤں۔
(7)خود اِحتسابی کی عادت اپناتے ہوئے فکرمدینہ کیجئے:اپنی
ذات کا محاسبہ کرلینے کی عادت اپنا لینے سے بھی خوفِ خدا کے حصول کی منزل پر
پہنچنا قدرے آسان ہوجاتا ہے، فکرمدینہ کا آسان سا مطلب یہ ہے کہ انسان اُخروی
اعتبار سے اپنے معمولات زندگی کا محاسبہ کرے، پھر جو کام اس کی آخرت کے لیے نقصان
دہ ثابت ہوسکتے ہیں، انہیں درست کرنے کی کوشش میں لگ جائے اور جو اُمور اُخروی
اِعتبار سے نفع بخش نظر آئیں، اِن میں بہتری کے لیے اِقدامات کرے، مدنی اِنعامات
پر عمل کرے۔
(8)خوفِ خدا رکھنے والوں کی صحبت اِختیار کیجئے: ایسے
نیک لوگوں کی صحبت میں بیٹھنا بھی بندے کے دل میں خوفِ خدا بیدار کرنے میں بہت
مددگار ثابت ہوگا۔ ہر صحبت اپنا اثر رکھتی ہے، مثال کے طور پر اگر آپ کو کبھی کسی
میت والے گھر جانے کا اتفاق ہوا ہو تو وہاں کی فضا پر چھائی ہوئی اداسی دیکھ کر
کچھ دیر کے لئے آپ بھی غمگین ہوجائیں گے اور اگر کسی شادی پر جانے کا اتفاق ہوا
ہو تو خوشیوں بھرا ماحول آپ کو بھی کچھ دیر کے لئے مسرور کر دے گا ۔بالکل اسی طرح
اگر کوئی شخص غفلت کا شکارہو کر گناہوں پر دلیرہوجانے والے لوگوں کی صحبت میں بیٹھے
گا ،تو غالب گمان ہے کہ وہ بھی بہت جلد انہی کی مانندہوجائے گا اور اگر کوئی شخص ایسے
لوگوں کی صحبت اختیارکرے گا جن کے دل خوفِ خدا سے معمور ہوں، اُن کی آنکھیں اللہ
تَعَالٰی کے ڈر سے روئیں تو امید ہے کہ یہی کیفیات اس کے دل میں بھی سرایت کر جائیں
گی ۔اِنْ شَاءَاللہ عَزَّوَجَل
(نجات
دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ203تا209)
خوفِ خداعَزَّوَّجَلَّ میں رونے والوں کا بیان:
سب
خوبیاں اللہ عزَّوَجَلَّ کے لئے ہیں جس نے خائفین کی آنکھوں کوخوفِ وعیدسے رُلایا
تو ان کی آنکھوں سے چشموں کی مانند آنسوجاری ہوگئے اور اُن ہستیوں کی آنکھوں سے
آنسوؤں کے بادل برسائے جن کے پہلُو بستروں سے جدارہتے ہیں، انہوں نے”تقویٰ” کو
اپنا فخریہ لباس بنایا، خوف نے اُن کی نیند اور اُونگھ اُڑا دی، جب لوگ خوش ہوتے ہیں
تو وہ غمگین ہوتے ہیں۔ آنسوؤں نے ان کی نیند اور سکون ختم کر دیا پس وہ غمگین اور
دَرد بھرے دل سے روتے ہیں، انہوں نے آہ وبُکا کو اپنی عادت اور آنسوؤں کو پانی بنا
لیا۔ ان کے دن غم میں کٹتے اور راتیں پھوٹ پھوٹ کر رونے میں گزرتی ہیں، وہ آہ وزاری
سے سَیر نہیں ہوتے۔ پاک ہے وہ ذات جس نے انسان کو ہنسایااور رُلایااورزندگی اور
موت عطا فرمائی اورماضی و مستقبل کاعلم سکھایا۔ انہوں نے اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے
عہد کیا تو اس کو وفاکرنے والا پایا ۔اس سے معاملہ کیا تو ساری زندگی نفع دینے
والا پایا۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں ربّ ِ عظیم عَزَّوَجَلَّ نے ارشاد فرمایا:
اِذَا تُتْلٰى عَلَیْهِمْ اٰیٰتُ الرَّحْمٰنِ خَرُّوْا سُجَّدًا وَّ
بُكِیًّا۩(۵۸)
ترجمۂ
کنزالایمان :جب ان پر رحمن کی آیتیں پڑھی جاتیں گرپڑتے سجدہ کرتے اور روتے۔(
پ16،مریم :58)
(یہ آیتِ سجدہ ہے اسے
پڑھنے،سننے والے پرسجدہ کرناواجب ہے)
اُن
میں سے ہر ایک اپنا چہرہ خاک پر رکھ دیتا ہے اور جب وہ اپنے آپ کو رنجیدگی سے خالی
پاتے ہیں تو روتے اور گریہ وزاری کرتے ہیں اور جب اپنے گناہوں کے متعلق سوچتے ہیں
توخوب گِڑگِڑاتے ہیں اور آنسوؤں سے ان کی پلکیں زخمی ہوجاتی ہیں ۔ وہ سب بادشاہِ
حقیقی کی بارگاہ میں پلکوں کے بادلوں سے آنسو بہاتے اور روتے روتے ٹھوڑی کے بل گر
پڑتے ہیں اور اہل صدق ووفا کے متعلق سرکار علیہ الصلٰوۃوالسلام کا یہ فرمان کہ
”اگر تمہیں رونا نہ آئے تو رونے والی صورت بنا لو۔ (سنن ابن ماجۃ ، ابواب
الزھد،باب الحزن والبکاء،الحدیث4196،ص2732)
سنتے
ہیں تورونے سے نہیں اُکتاتے ۔ اوران میں سے ہرایک اپنی لغزش پرروتاہے ۔سبھی اس کی
سطوت و اقتدار سے خوف زدہ رہتے ہیں جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وَ
هُمْ مِّنْ خَشْیَتِهٖ مُشْفِقُوْنَ(۲۸)
ترجمۂ
کنزالایمان :اور وہ اس کے خوف سے ڈر رہے ہیں۔ (پ17،
الانبیآء:28)
پاک
ہے وہ ذات جس نے اپنے بندوں کو ہر طرح کی آزمائشوں میں مبتلا فرمایایہاں تک کہ
اپنے مقرب انبیاء کرام علیہم السلام کو بھی آزمایا اور حضرتِ سیِّدُنا آدم علیہ
السلام کو جنت سے اُتارا گیا توابوالبشر ہونے کے با وجود چالیس سال تک روتے رہے۔
حضرتِ سیِّدُنا یعقوب علیہ السلام حضرتِ سیِّدُنا یوسف علیہ السلام کے غم میں اس
قدر روئے کہ آپ علیہ السلام کی آنکھیں سفید ہو گئیں اورجب دوسرے بیٹوں نے اُن کو
آپ علیہ السلام سے دورکردیاتو آپ علیہ السلام نے اُن سے فرمایا:
اِنَّمَاۤ اَشْكُوْا بَثِّیْ وَ حُزْنِیْۤ
اِلَى اللّٰهِ وَ اَعْلَمُ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(۸۶)
ترجمۂ کنزالایمان : میں تو اپنی پریشانی اور غم
کی فریاد اللہ ہی سے کرتا ہوں ۔اور مجھے اللہ کی وہ شانیں معلوم ہیں جو تم نہیں
جانتے۔(پ13،یوسف:86)
جب
بھائیوں نے دیکھا کہ حضرت سیِّدُنا یعقوب علیہ السلام صرف حضرت سیِّدُنا یوسف علیہ
السلام سے ہی زیادہ محبت کرتے ہیں تو انہوں نے آپ علیہ السلام کو گہرے کنوئیں میں
ڈال دیا، وَ جَآءُوْۤ اَبَاهُمْ عِشَآءً
یَّبْكُوْنَؕ(۱۶)
ترجمۂ
کنزالایمان : اور رات ہوئے اپنے باپ کے پاس روتے ہوئے آئے۔” ( پ12،یوسف:16)
حضرتِ
سیِّدُنایزیدرقاشی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ اپنی موت کے وقت رونے لگے تو ان سے عرض کی
گئی:”آپ کیوں روتے ہیں؟” تو ارشادفرمایا: ”میں اس وجہ سے روتا ہوں کہ اب مجھے
راتوں کے قیام، دن کے روزوں اور ذکر کی مجالس میں حاضری کا موقع نہ ملے گا۔
حضرتِ
سیِّدُنا عامربن قیس رحمۃ اللہ علیہ کا وقتِ وصال قریب آیا تو رونے لگے۔آپ رحمۃاللہ
علیہ سے عرض کی گئی: ”کون سی چیز آپ کو رُلارہی ہے ؟ تو آپ رحمۃاللہ علیہ نے
ارشادفرمایا:”میں سخت گرمیوں کے روزوں اور سردیوں میں قیام پر رو رہا ہوں۔ (کیونکہ
اب دوبارہ یہ موقع ہاتھ نہ آئے گا)
حضرتِ
سیِّدُنا ابوشَعْثَاء رحمۃاللہ علیہ اپنی موت کے وقت رونے لگے۔ آپ رحمۃاللہ تعالیٰ
علیہ سے دریافت کیا گیا: ”کون سی چیز آپ کو رُلا رہی ہے ؟تو آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ
نے ارشادفرمایا : ”مجھے راتوں کے قیام کا شوق تھا۔
حضرتِ
سیِّدُناابراہیم بن ادہم علیہ رحمۃاللہ الاکرم فر ماتے ہیں کہ ایک عبادت گزار شخص
بیمارہوگیاتوہم اس کی عیادت کے لئے اس کے پاس گئے۔ وہ لمبی لمبی سانسیں لے کر
افسوس کرنے لگا۔ میں نے اس کو کہا: ”کس بات پر افسوس کر رہے ہو؟”تو اس نے بتایا:
”اس رات پرجو میں نے سو کر گزاری اور اس دن پر جس دن میں نے روزہ نہ رکھا اور اس
گھڑی پر جس میں مَیں اللہ عزَّوَجَلَّ کے ذکر سے غافل رہا۔
ایک
عابد اپنی موت کے وقت رونے لگا۔اس سے وجہ دریافت کی گئی تو اس نے جواب دیا کہ ”میں
اس بات پر روتا ہوں کہ روزے دار روزے رکھيں گے لیکن میں ان میں نہ ہوں گا۔ذاکرین
ذکر کریں گے لیکن میں ان میں نہ ہوں گا۔ نمازی نمازیں پڑھیں گے لیکن میں ان میں نہ
ہوں گا ۔
اے
غافل انسان! ان بزرگوں کودیکھ! مرنے پرکیسے افسُردہ اور نادِم ہو رہے ہیں کہ موت
کے بعد عملِ صالح نہ کر سکیں گے۔ اپنی بقیہ عمرسے کچھ حاصل کرلے اور جان لے کہ جیسا
کریگاویسا بھرے گا۔کیا تو ان لوگوں کی قبروں سے گزرتے ہوئے عبرت حاصل نہیں کرتا؟ کیا
تو نہیں دیکھتا کہ وہ اپنی قبروں میں اطمینان سے ہیں لیکن پھر بھی تمہاری طرف
لوٹنے کی خواہش کرتے ہیں،وہ فوت شدہ اعمال کی تلافی چاہتے ہیں۔ کتنے واعظین نے وعظ
کیا ،ڈرایا اور موت نے کتنی مِٹی کو آباد کر دیا؟ کیا تیرے پاس ایسے کان نہیں جو
نصیحت کو سنیں؟کیا توایسی آنکھ نہیں رکھتا جو اپنے محبوب کے جدا ہونے پر آنسو
بہائے؟ کیا تیرے پاس ایسا دل نہیں جوخوفِ خدا عَزَّوَجَلَّ سے گِڑگڑائے؟ کیاتجھے
اللہ عزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں توبہ کرنے کی طمع نہیں ؟۔۔۔