نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اللہ پاک کا آخری نبی ماننا اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے اور آپ علیہ سلام کے بعد کسی طرح کا کوئی نیا نبی و رسول نہ آیا اور نہ ہی آ سکتا ہے ۔ خود تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مبارک زبان سے آخری نبی ہونے کو بیان فرمایا ہے۔

ختم نبوت کے سات حروف کی نسبت سے سات فرامین آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم :۔

(1) فیاتون محمداً فیقولون یا محمد انت رسول اللہ و خاتم الانبیاء

اولین و آخرین نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور آکر عرض کریں گے "حضور اللہ پاک کے رسول اور تمام انبیاء علیہم السلام کے خاتم ہیں ہماری شفاعت فرمائیں"

( صحیح بخاری کتاب التفسیر سورہ بنی اسرائیل ص، 685)

(2) نحن الآخرون السابقون یوم القیامۃ، ہم زمانے میں سب سے پچھلے اور قیامت میں سب سے اگلے ہیں۔( صحیح بخاری جلد 1 ص 120)

(3) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے چھ چیزوں میں انبیا کرام علیہم السلام پر فضیلت دی گئی ہے: (۱) مجھے جامع کلمات عطا کئے گئے(۲) رعب کے ساتھ میری مدد کی گئی (۳)مال غنیمت میرے لئے حلال کردیا گیا ہے (۴)روئے زمین کو میرے لئے مسجد اور پاک کرنے والی چیز بنادیا گیا ہے (۵) مجھے تمام مخلوق کی طرف مبعوث کیا گیا ہے (۶) اورمجھ پرنبیوں کا سلسلہ ختم کردیا گیا ہے۔“

(صحیح مسلم صفحہ 199،مشکوٰۃ ،جلد 1، صفحہ512)

(4) و انا خاتم النبیین و لا فخر ، میں تمام پیغمبروں کا خاتم ہوں اور بطور فخر نہیں کہتا۔

( سنن دارمی 3/31 ،حدیث نمبر: 50)

(5)انّ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کتب مقادیر الخلق قبل ان یخلق السمٰوٰت و الأرض بخمسین الف سنۃ فکان عرشہ علی الماء ،و من جملۃ ما کتب فی الذکر و ھو ام الکتاب ان محمداً خاتم النبیین ، اللہ پاک نے آسمان و زمین کی پیدائش سے پچاس ہزار سال پہلے خلق کی تقدیر لکھی اور اس کا عرش پانی پر تھا۔ ان تحریرات میں سے لوح محفوظ میں یہ بھی لکھا :بے شک محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہے۔ (المواھب اللدنیۃ 3/57)

(6) ذھبت النبوۃ فلا نبوۃ بعدی الا المبشرات الرویا الصالحۃ، نبوت گئی اب میرے بعد نبوت نہیں مگر بشارتیں ہیں وہ اچھا خواب ہے کہ انسان آپ (خود) دیکھے یا اس کے لیے دیکھا جائے۔ ( المعجم الکبیر للطبرانی 3/1035 حدیث :2051)

(7) انّ الرسالۃ و النبوۃ قد انقطعت فلا رسول بعدی و لا نبی، بیشک رسالت و نبوت ختم ہو گئی اب میرے بعد نہ کوئی رسول نہ نبی۔( جامع الترمذی، 2/51)