سمیر قریشی(درجۂ سادسہ، جامعۃُ المدینہ فیضان اولیاء
احمد آباد گجرات ہند)
الحمد لله، الله پاک کی بے شمار نعمتوں میں سے زبان بھی ایک
عظیم نعمت ہے ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ پاک کی اس عظیم نعمت کو اس کی اطاعت میں استعمال
کریں اور اسے جھوٹ وغیرہ بڑے گنا ہوں سے بچائیں۔ جھوٹ ایک ایسی بری چیز ہے کہ ہر
مذہب والے سے اس کی برائی کرتے ہیں۔ تمام ادیان ( دین کی جمع) میں یہ حرام ہے۔
جھوٹے شخص پر سے لوگوں کا اعتماد ختم ہو جاتا ہے۔ اسلام نے جھوٹ سے بچنے کی بہت
تاکید کی۔ قراٰن مجید میں بہت مواقع پر اس کی مذمت فرمائی گئی اور جھوٹ بولنے
والوں پر خدا کی لعنت آئی۔ نیز احادیث میں بھی جگہ بجگہ جھوٹ کی مذمت اور اس کی
برائی کی گئی ہے۔ جھوٹ سے بچنے اور سچ کا جذبہ پانے کیلئے جھوٹ کی تعریف اور چند
حدیثیں ذکر کی جاتی ہے تاکہ مسلمان انہیں پڑھے اور اس کی توفیق سے ان پر عمل کریں ۔
جھوٹ کی تعریف: کسی کے بارے میں خلاف حقیقت خبر دینا۔ قائل جھوٹا اس وقت
ہوگا جبکہ (بلا ضرورت ) جان بوجھ کر جھوٹ بولے ۔ (76 کبیرہ گناہ ،ص99 )
غیبوں کی خبر دینے والے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص جھوٹ بولنا چھوڑ دے اور وہ باطل چیز ہے اس کیلئے
جنت کے کنارے میں مکان بنایا جائے گا اور جس نے جھگڑا کرنا چھوڑا اور وہ حق پر ہے
اس کیلئے وسط جنت میں مکان بنایا جائے گا اور جس نے اپنے اخلاق اچھے کیے اس کیلئے
جنت کے اعلی درجۂ میں مکان بنایا جائے گا۔( مشکاة شریف، باب حفظ اللسان، ص 412 ) یعنی
جنت کا ادنی درجۂ کیونکہ کنارہ ادنی ہوتا ہے ، درمیاں اعلی مگر کنارے سے مراد جنت
کا اندرونی کنارہ ہے نہ کے بیرونی جنت اور یہاں حق سے مراد دنیاوی حقوق ہیں نہ کہ
دینی حقوق ، جو دین حق کو برباد کرنا چاہے اس کا مقابلہ بقدر طاقت زبان قلم تلوار
سے ضرور کریں۔( مراة المناجيح، 6/ 364 )
(2) خاتم النبین رحمۃُ اللعالمین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ارشاد فرماتے ہیں: صدق کو لازم کرلو، کیونکہ سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے ۱؎ اور نیکی جنت کا راستہ دکھاتی ہے ۔آدمی برابر سچ بولتا رہتا ہے اور سچ بولنے کی
کوشش کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ پاک کے نزدیک صدیق لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹ سے بچو، کیونکہ جھوٹ
فُجور کی طرف لے جاتا ہے اور فجور جہنم کا راستہ دکھاتا ہے۳؎ اور آدمی برابر جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ بولنے کی کوشش کرتا ہے، یہاں تک
کہ اللہ پاک کے نزدیک کذّاب لکھ دیا جاتا ہے۔ ۔( مشکوٰۃ شریف، باب حفظ اللسان،ص 412 )
مراۃ المناجیح میں ہے : یعنی جو شخص سچ بولنے کا عادی ہو جاوے
اللہ پاک اسے نیک کار بنادے گا اس کی عادت اچھے کام کرنے کی ہوجاوے گی، اس کی برکت
سے وہ مرتے وقت تک نیک رہے گا برائیوں سے بچے گا۔ اور
جو اللہ کے نزدیک صدیق ہو جاوے اس کا خاتمہ اچھا ہوتا ہے اور وہ ہر قسم کے عذاب سے
محفوظ رہتا ہے ہر قسم کا ثواب پاتا ہے اور دنیا بھی اسے سچا کہنے اچھا سمجھنے لگتی
ہے، اس کی عزت لوگوں کے دلوں میں بیٹھ جاتی ہے۔جھوٹا آدمی آگے چل کر پکا فاسق و
فاجر بن جاتا ہے جھوٹ ہزار ہا گناہوں تک پہنچا دیتا ہے، تجربہ بھی اسی پر شاہد ہے۔
سب سے پہلے جھوٹ شیطان نے بولا کہ حضرت آدم علیہ السلام سے کہا کہ میں تمہارا خیر
خواہ ہوں پہلا تقیہ پہلا جھوٹ شیطان کا کام تھا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پھر یہ
شخص ہر قسم کے گناہوں میں پھنس جاتا ہے اور قدرتی طور پر لوگوں کو اس کا اعتبار نہیں
رہتا لوگ اس سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔ ( مرآۃ المناجیح، 6/358 )
(3) نور والے آقا محمد مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا: خرابی ہے اس کے لئے جو بات کرے تو جھوٹ بولے تاکہ اس سے قوم کو
ہنسائے ،اس کے لئے خرابی ہے اس کے لئے خرابی ہے ۔(مشکوٰة شریف، باب حفظ اللسان، ص412)
(4) دونوں عالم کے مالک و مختار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
سے پوچھا گیا: کیا مومن بزدل ہوتا ہے؟ فرمایا: ہاں پھر عرض کی گئی کیا مومن بخیل
ہوتا ہے ؟ فرمایا: ہاں۱؎ پھر کہا گیا کیا مومن کذاب ہوتا ہے؟ فرمایا :نہیں ۔۲؎(
مشکوة شریف ،باب حفظ اللسان، ص414 )۱؎ یعنی مسلمان میں بزدلی یا کنجوسی فطری طور
پر ہوسکتی ہے کہ یہ عیوب ایمان کے خلاف نہیں لہذا مؤمن میں ہوسکتی ہیں۔ ۲؎ کذاب فرماکر اس طرف اشارہ
ہے کہ مؤمن گاہے بہ گاہے جھوٹ بول لے تو ہوسکتا ہے مگر بڑا جھوٹا ہمیشہ کا جھوٹا
ہونا جھوٹ کا عادی ہونا مؤمن ہونے کی شان کے خلاف ہے،یہاں بھی وہ ہی مراد جو ابھی
پہلی حدیث میں عرض کیا گیا یا مؤمن سے مراد کامل الایمان لہذا حدیث پر یہ اعتراض
نہیں کہ بہت مسلمان جھوٹے ہوتے ہیں۔(مرآۃ المناجیح ، 6 / 376 )
(5) ہم غریبوں کی مدد کرنے والے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو فرشتہ اس سے ایک میل
دور ہو جاتا ہے ۱؎۔ اس بدبو کی وجہ سے جو آتی ہے۲؎ ۔( مشكوٰة باب حفظ اللسان ،ص
413 ) ۱؎ فرشتے سے مراد یا تو نیکیاں
لکھنے والا فرشتہ ہے یا حفاظت کرنے والا فرشتہ یا کوئی خاص رحمت کا فرشتہ، گناہ
لکھنے والا فرشتہ دور نہیں ہوتا فرشتوں کے مزاج مختلف ہیں۔ میل سے مراد یا تو یہ ہی
شرعی میل ہے یعنی فرسخ کا تہائی حصہ یا مراد ہے تاحد نظر زمین۔ ۲؎ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اچھی
بری باتوں نیک و بد اعمال میں خوشبو اور بدبو ہے بلکہ ان میں اچھی بری لذتیں بھی ہیں
مگر یہ صاف دماغ والوں کو صاف طبیعت والوں کو ہی محسوس ہوتی ہیں۔( مرآۃ المناجیح ،
6/ 369 )