جھوٹ ایک ایسا معاشرتی ناسور ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں بہت ساری خرابیاں پیدا ہوتی ہیں جھوٹے آدمی سے لوگوں کا اعتبار اٹھ جاتا اور اللہ کی ناراضگی کے ساتھ ساتھ معاشرے میں بھی اپنا وقار کھو بیٹھتا ہے اور لوگ اس سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔

جھوٹ کی تعریف :بات کا حقیقت کے خلاف ہونا جھوٹ ہے۔(حدیقہ ندیہ ، 2 / 400) جھوٹ اپنے بدترین انجام اور برے نتیجے کی وجہ سے (ام الخبائث) تمام برائیوں کی جڑ ہےکہ اِس سے چغلی کا دروازہ کھلتا ہے، چغلی سے بغض پیدا ہوتاہے، بغض سے دشمنی ہوجاتی ہے جس کے ہوتے ہوئے امن و سکون قائم نہیں ہوسکتا۔(ادب الدنیا و الدین ، ص413)

جھوٹ کی مذمت پر پانچ فرامین مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پیش خدمت ہیں:

(1)صدق کو لازم پکڑ لو :رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’صدق کو لازم کرلو، کیونکہ سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے اور نیکی جنت کا راستہ دکھاتی ہے ۔آدمی برابر سچ بولتا رہتا ہے اور سچ بولنے کی کوشش کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک صدیق لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹ سے بچو، کیونکہ جھوٹ فُجور کی طرف لے جاتا ہے اور فجور جہنم کا راستہ دکھاتا ہے اور آدمی برابر جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ بولنے کی کوشش کرتا ہے، یہاں تک کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک کذّاب لکھ دیا جاتا ہے۔(بخاری، کتاب الادب، باب قول اللہ تعالی: یا ایّہا الذین آمنوا اتقوا اللہ وکونوا مع الصادقین، 4 / 125، الحدیث: 653)

(2) جنت کے کنارے میں مکان:امام الانبیاء صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص جھوٹ بولنا چھوڑ دے اور جھوٹ باطل ہی ہے (یعنی جھوٹ چھوڑنے کی چیز ہی ہے) اس کے لیے جنت کے کنارے میں مکان بنایا جائے گا اور جس نے جھگڑا کرنا چھوڑا حالانکہ وہ حق پر ہو یعنی حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا نہیں کرتا، اس کے لیے جنت کے وسط میں مکان بنایا جائے گا اور جس نے اپنے اَخلاق اچھے کیے، اس کے لیے جنت کے اعلیٰ درجے میں مکان بنایا جائے گا۔(ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی المراء، 3/ 400، الحدیث: 2000)

(3)سب سے بڑی خیانت :کریم آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا ’’بڑی خیانت کی یہ بات ہے کہ تو اپنے بھائی سے کوئی بات کہے اور وہ تجھے اس بات میں سچا جان رہا ہے اور تو اس سے جھوٹ بول رہا ہے۔( ابوداؤد، کتاب الادب، باب فی المعاریض، 4 / 381، الحدیث: 4971)

(4)ہنسانے کے لیے جھوٹ بھولنا:حضورِ انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’بندہ بات کرتا ہے اور محض اس لیے کرتا ہے کہ لوگوں کو ہنسائے اس کی وجہ سے جہنم کی اتنی گہرائی میں گرتا ہے جو آسمان و زمین کے درمیان کے فاصلہ سے زیادہ ہے اور زبان کی وجہ سے جتنی لغزش ہوتی ہے، وہ اس سے کہیں زیادہ ہے جتنی قدم سے لغز ش ہوتی ہے۔( شعب الایمان، 4/ 213، الحدیث: 4832)

(5) مومن جھوٹا نہیں ہو سکتا :مؤمن کی شان جھوٹ سے کس قدر بلند اور پاک ہوتی ہے اس کا اندازہ اس فرمانِ مصطفے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے لگائیے چنانچہ بارگاہِ رسالت میں عرض کی گئی : یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! کیا مؤمن بزدل ہو سکتا ہے؟ اِرشاد فرمایا : ہاں، پوچھا گیا : کیا مؤمن بخیل ہو سکتا ہے؟ اِرشاد فرمایا : ہاں، پوچھا گیا : کیا مؤمن جھوٹا ہو سکتا ہے؟ تو حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا : نہیں۔ (مُؤطّا امام مالک ، 2 / 468 ، حدیث : 1913)

یعنی مسلمان میں بزدلی یا کنجوسی فطری طور پر ہوسکتی ہے کہ یہ عُیوب اِیمان کے خِلاف نہیں، لہٰذا مؤمن میں ہوسکتی ہیں۔ (ہاں!) مگر بڑا جھوٹا، ہمیشہ کا جھوٹا ہونا، جھوٹ کا عادی ہونا مؤمن ہونے کی شان کے خِلاف ہے۔ ‘‘( مراٰۃ المناجیح ، 6 / 477)