وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۢ ﳔ بِمَا كَانُوْا یَكْذِبُوْنَ(۱۰) ترجمہ کنزالعرفان: اور ان کے لئے ان کے جھوٹ بولنے کی وجہ سے دردناک عذاب ہے۔ (پ1،البقرۃ:10)جھوٹ ایک ایسا سنگین جرمِ عظیم ہے جو تمام ہی ادیان میں برا جانا جاتا ہے اور حرام ہے۔ قرآن و حدیث میں جھوٹ بولنے والوں کے لیے بہت سخت وعیدات موجود ہیں۔ جیسا کہ آیت میں ذکر ہوا کہ جھوٹ بولنے والوں کے لیے سخت دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔ روزِ محشر انہیں اس عذاب کا مزہ چکھایا جائے گا۔ احادیثِ مبارکہ میں جھوٹے کی شدید مذمت ہوئی ہے۔ احادیثِ کریمہ کی طرف بڑھنے سے پہلے جھوٹ کی تعریف سمجھتے ہیں: تعریف: کسی کے بارے میں خلافِ حقیقت خبر دینا۔ (الحدیقۃ الندیۃ، القسم الثانی، المبحث الاول،4/10) یعنی بلا حاجتِ شرعی کوئی بھی ایسے بات کرنا جو خلافِ واقع(حقیقت کے برعکس) ہو تو یہ جھوٹ ہے اور یہ جھوٹا شخص حرام کا مرتکب اور عذابِ نار کا حقدار ہے۔احادیثِ مبارکہ میں سے جھوٹ کی مذمت پر 5 احادیثِ مندرجہ ذیل ہیں:

(1) ایمان کے خلاف عمل: رسولﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے فرمایا: جھوٹ سے بچو، کیونکہ جھوٹ ایمان کے مخالف ہے۔ (المسند الامام احمد بن حنبل، مسند ابی بکر الصدیق، الحدیث:16، ج1، ص 22)

(2) چہرے کا بگڑنا:رسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جھوٹ سے منہ کالا ہوتا ہے اور چغلی سے قبر میں عذاب ہوتا ہے۔ (شعب الایمان، باب فی حفظ اللسان، الحدیث:4813، ج 4، ص 208)

(3) مؤمن کی خصلت نہیں : رسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مؤمن کی طبع میں تمام خصلتیں ہوسکتی ہیں مگر خیانت اور جھوٹ نہیں ۔ (المسند الامام احمد بن حنبل، حدیث ابی امامۃ الباھلی، الحدیث:22232،ج8،ص276)

(4) ہلاکت کا سبب : رسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:ہلاکت ہے اس کے لیے جو بات کرتا ہے اور لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولتا ہے، اس کے لیے ہلاکت ہے، اس کے لیے ہلاکت ہے۔ (سنن الترمذی، کتاب الزھد، باب ماجاء من تکلم بالکلمۃ لیضحک الناس، الحدیث: 2322، ج 4،ص142)

(5) جہنم کی گہرائی میں گرنا: رسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بندہ بات کرتا ہے اور محض اس لیے کرتا ہے کہ لوگوں کو ہنسائے اس کی وجہ سے جہنم کی اتنی گہرائی میں گرتا ہے جو آسمان و زمین کے درمیان کے فاصلہ سے زیادہ ہے۔ (شعب الایمان، باب فی حفظ اللسان، الحدیث:4832،ج4،ص213)

جھوٹ باطنی امراض میں سے ایک ایسا مرض ہے کہ اگر اس سے انسان بچ جائے تو باقی تمام حرام کاریوں سے بچ سکتا اور اگر جھوٹ کی عادت لگ جائے تو ہر حرام کام میں یہی جھوٹ سہارہ بن جاتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جھوٹ کا کوئی منہ نہیں اسی لیے کبھی نہ کبھی پکڑا جاتا ہے اور پھر دوگنی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑھتا ہے ایک جھوٹ بولنے پر اور دوسرا اس کام پر جس کے لیے جھوٹ بولا۔ گویا کہ یہ تمام برائیوں کی جڑ کی مانند ہے۔ بحیثیتِ مسلمان ،روز مرّہ زندگی کے کسی بھی معاملے میں جھوٹ کا سہارہ نہیں لینا چاہیے، کیونکہ کلمہ گو کبھی جھوٹا نہیں ہو سکتا جیسا کہ، رسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پوچھا گیا کہ کیا مؤمن بزدل ہوسکتا ہے؟ فرمایا: ہاں۔ پھر عرض کی گئی، کیا مؤمن بخیل ہوسکتا ہے؟ فرمایا: ہاں۔ پھر کہا گیا، کیا مومن جھوٹا ہوسکتا ہے؟ فرمایا: نہیں، مؤمن جھوٹا نہیں ہو سکتا۔(المؤطا، کتاب الکلام، باب ماجاء فی الصدق والکذب، الحدیث:1913، ج2، ص268 )

اسی لیے ہر مسلمان کو غور کرنا چاہئے کہ وہ کس معاملے میں کتنا سچا یا جھوٹا ہے اور اگر جھوٹ کا مرتکِب ہے تو اس سے بچنا چاہیے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہی جھوٹ اپنی قبر و آخرت تباہ کرنے کا سبب بن جائے ۔

اللہ پاک ہمیں جھوٹ اور تمام حرام کاموں سے بچنے کی توفیق مرحمت فرمائے ۔آمین