مزمل علی عطّاری(درجۂ رابعہ جامعۃُ المدینہ گلزار
مدینہ عارف والا،پاکستان)
جھوٹ کے معنی ہیں: سچ کا الٹ۔
جھوٹ بولنا ایک بہت بری عادت ہے جھوٹ بولنے
کی مذمت پر اللہ پاک
نے قرآن پاک ، احادیث مبارکہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بزرگانِ دین کے اقوال وعیدات
بیان ہوتی ہیں، کچھ وعیدات پڑھتے ہیں:چنانچہ جھوٹ کے بارے میں اللہ تعالیٰ
قر آن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:ترجَمۂ کنزُالایمان: جھوٹوں پر اللہ کی لعنت۔ (پارہ3، اٰل عمرٰن، آیت:61)
(1) جھوٹ سے بچو، کیونکہ جھوٹ گناہ کی طرف لے
جاتا ہے، اور گناہ جہنم کا راستہ دکھاتا ہے اور آدمی برابر جھوٹ بولنے کی کوشش
کرتا ہے یہاں تک کہ اللہ پاک کے نزدیک کذاب (یعنی بہت بڑا جھوٹا ) لکھ
دیا جاتا ہے۔(مسلم، کتاب البروالصلۃ والا داب ، ص 1000)
(2) مجھ پر جھوٹ باندھنا کسی اور پر جھوٹ باندھنے
جیسا نہیں لہذا جس نے مجھ پر جھوٹ باندھا وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنالے۔( مسلم ،
ص 12)
(3) اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان
ہے، جو شخص قسم کھائے او راس میں مچھر کے پر کے برابر جھوٹ ملا دے تو وہ قسم تا
یومِ قیامت ( یعنی قیامت کے دن تک اس کے دل پر سیاہ ) نکتہ بن جائے گی( ابن حبان،
کتاب الحظر )
(4) منافق کی تین نشانیاں ہیں:۱۔ جب بات کرے جھوٹ کہے۔۲۔ جب وعدہ کرے خلاف کرے۔۳۔ اور جب اس کے پاس امانت رکھی
جائے تو خیانت کرے۔( بخار ی، باب علامۃ المنافق،ص 79)
(5) سچ نیکی تک پہنچاتا ہے اور نیکی جنت تک لے
جاتی ہے:ایک شخص سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ صدیق ہوجاتا ہے اور جھوٹ بدکار ی تک
پہنچاتا ہے اور بدکار ی جہنم تک لے جاتی ہے اور ایک شخص جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں
تک کہ اللہ کے
یہاں کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔(نزہۃ القاری شرح صحیح البخار ی، کتاب الادب، ص428)
اللہ پاک
تمام لوگوں کو جھوٹ جیسی بیماری سے محفوظ فرمائے اور سچ پر قائم رہنے والا بنائے،
امین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم