سید ثقلین عطّاری (درجۂ دورۂ حدیث،جامعۃُ المدینہ
فیضان مہر علی اسلام ،اسلام آباد، پاکستان)
جان لو کہ ایک عادل شخص کے لیے یہ بات مناسب
ہے کہ ہر قسم کی گفتگو سےاپنی زبان کی حفاظت کرے اور صرف وہ کلام کرے جس میں مصلحت
ظاہر ہو، جب کسی کلام کے کرنے اور نہ کرنے والوں میں مصلحت برابر ہو تو پھر طریقہ
یہ ہے کہ اس گفتگو سےباز رہے کیونکہ بعض اوقات جائز باتیں انسان کو مکروہ یا حرام
تک لے جاتی ہیں بلکہ یہ معاملہ غالب ہے کہ زیادہ بولنے والا جھوٹ جیسے مہلک مرض
میں مبتلا ہوجاتا ہے، اور جھوٹ ایسی بری چیز ہے کہ ہر مذہب والے اس کی برائی کر تے
ہیں، تمام ادیان میں یہ حر ام ہے اسلام نے اس سے بچنے کی بہت تاکید کی ، قرآن مجید
میں بہت مواقع پر اس کی مذمت فرمائی اور جھوٹ بولنے والوں پر خدا کی لعنت آئی ہے۔
جھوٹ کی تعریف:کسی کے بارے میں حقیقت کے خلاف خبر دینا۔
جھوٹ کی ابتدا:سب سے پہلے جھوٹ شیطان لعین نے بولا تھا جب
اس نے حضرت آدم و حوا علیہما السلام کو لغزش کرانے کا ارادہ کیا تو ان سے جھوٹی
قسم کھا کر کہا کہ میں تمہار اخیر خواہ ہوں۔
جھوٹ کی مذمت پر فرامین مصطفی صلی
اللہ علیہ وسلم :
جھوٹ کی نحوست:حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ
عنہما سے مر وی ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب بندہ جھوٹ بولتا ہے
تو اس کی بدبو کی وجہ سے فرشتہ اس سے ایک میل دور ہوجاتا ہے۔(جامع ترمذی، کتاب
نیکی اور صلح رحمی،باب حج کی فضیلت اور جھوٹ کی برائی ، حدیث: 1972)
اللہ تعالیٰ کے ہاں بڑا جھوٹا :عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ
سے روایت ہے کہ فرمایا:آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ
کے ہاں کذاب ( بڑا جھوٹا) لکھ دیا جاتا ہے۔(صحیح مسلم ،کتاب حسن سلوک صلہ رحمی اور
ادب ، باب جھوٹ کی قباحت اور سچ کی خوبصورتی و فضیلت ، حدیث :2607)
جھوٹے کی سزا:نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے
فرمایا: رات کو میرے پاس دو شخص آئے انہوں نے مجھے اٹھایا اور کہا: ہمارے سا تھ چلو
میں ان کے ساتھ چل دیا، ہم ایک ایسے شخص کے پاس پہنچے جو پیٹھ کے بل لیٹا ہوا تھا
اور دوسرا شخص اس کے پاس آنکڑا لیے کھڑا تھا یہ اس کے چہرے کی طرف آتا اور اس
کےایک جبڑے کو گدی تک چیرتا پھر دوسری جانب جاتا ادھر بھی اس طرح چیرتا جس طرح پہلی
جانب کیا تھا وہ ابھی دو سری جانب سے فارغ بھی نہ ہوتا تھا کہ پہلی جانب اپنی صحیح
حالت کی طرف لوٹ آتی اور پھر وہ اسی طرح کرتا جس طرح پہلی مر تبہ کیا تھا، فرمایا
: میں نے کہا یہ دونوں کون ہیں ؟انہوں نے عرض کی یہ وہ شخص ہے جو صبح اپنے گھر سے
نکلتا اور جھوٹی خبر تراشتا جو دنیا میں پھیل جاتی۔(صحیح بخاری ، کتاب خوابوں کی
تعبیر، باب صبح کی نماز کے بعد خواب کی تعبیر بیان کرنا ،حدیث: 7047)
منافقت کی علامات :حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی
پاک صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا :منافق کی تین علامات ہیں: جب بات کرے جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے اس
کے خلاف کرے اور جب امین بنایا جائے خیانت کرے (صحیح بخار ی، کتاب الایمان، علامات
المنافق، حدیث :33)
اے انسان ! مذکورہ بالا احادیث مبار کہ سے یہ
بات روزِ روشن کی طرح واضح ہوگئی کہ جھوٹ سے معاشرت اور آخرت دونوں تباہ ہو جاتے
ہیں بعض اوقات ایک جھوٹ چھپانے کے لیے اور کئی جھوٹ بولنے پڑتے ہیں اس کے باوجود
بھی حقیقت سامنے آکر ہی رہتی ہے ۔لہذا جاننا چاہیے کہ جھوٹ اس باعث حرام کیا گیا
ہے کہ اس کا عکس دل پر پڑا ہے اور دل کو سیاہ کردیتا ہے اور دل سیاہ ہوجائے تو یہ
کسی کی کوئی نصیحت قبول نہیں کرتا، ہم اللہ عزوجل سے عافیت کا سوال کرتے ہیں۔