جھوٹ ایسی بری چیز ہے کہ ہر مذہب والے اس کی برائی کرتے ہیں تمام ادیان میں یہ حرام ہے اسلام نے اس سے بچنے کی بہت تاکید کی قرآن مجید میں بہت مواقع پر اس کی مذمت فرمائی اور جھوٹ بولنے والوں پر خدا کی لعنت آئی۔(بہار شریعت، حصہ 16،جلد3 ، مکتبہ المدینہ دعوت اسلامی) چنانچہ اللہ تعالیٰ عزوجل قرآن مجید میں فرماتا ہے: لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَى الْكٰذِبِیْنَ(۶۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: تو جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ۔(پ3،اٰل عمرٰن:61)حدیث مبارکہ میں بھی جھوٹ کی مذمت کی گئی ہے: فرمانِ آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: تم ایمان کی حقیقت کو نہیں پہنچ سکتے یہاں تک کہ تم مزاح میں بھی جھوٹ بولنا چھوڑ دو۔( مصنف ابن ابی شیبہ ، جلد7،حدیث 26119) جھوٹ تمام برائیوں کی جڑ اور جہنم کا راستہ ہے۔(فیضانِ ر یاض الصالحین، صفحہ 486 ، مکتبہ المدینہ دعوت اسلامی)

جھوٹ کی تعریف: جھوٹ کے معنی ہیں سچ کا الٹ ،سچ کے الٹ بات کو جھوٹ کہتے ہیں، ( ماہنامہ فیضانِ مدینہ ) دعوتِ اسلامی جلد6، شمار ہ3، صفحہ 35) خلافِ واقعہ بات کرنے کو جھوٹ کہتے ہیں۔(حدیقہ ندیہ، جلد2، ص 200)

سب سے پہلے جھوٹ کس نے بولا ؟:حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے شیطان مردود ہوا تھا، اس لیے اس نے اپنے دل میں کینہ و حسد پال لیا ۔انتقال کے متعلق سوچتا ر ہا اور آپ علیہ السلام کو نقصان پہنچانے کی تاک میں رہا، چنانچہ موقع ملنے پر اس نے حضرت آدم علیہ السلام کو وسوسہ ڈالا اور کہنے لگا،۔ اے آدم علیہ السلام کیا میں تمہیں ایک ایسے درخت کے بارے میں بتاؤں جس کا پھل کھانے والے کو دائمی زندگی حاصل ہوجاتی ہے اور کیا میں تمہیں ایسی بادشاہت کے متعلق بتادوں جو کبھی فنا نہ ہوگی او راس میں زوال نہ آئے گا، یہ کہہ کر شیطان نے اللہ تعالیٰ کی جھوٹی قسم کھا تے ہوئے ، حضرت آدم علیہ السلام سے کہا:اس درخت میں یہ تاثیر ہے کہ اس کا پھل کھانے والا فرشتہ بن جاتا ہے یا ہمیشہ کی زندگی حاصل کرلیتا ہے اور یوں وسوسوں کے ذر یعے دونوں کو اس درخت سے کھانے کی طرف لے آیا، حضرت آدم علیہ السلام کے دل میں چونکہ اللہ تعالیٰ کے نام کی عظمت انتہا درجے کی تھی اس لیے آپ علیہ السلام کو گمان بھی نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کوئی جھوٹ بھی بول سکتا ہے نیز جنت قربِ الہی کا مقام تھا اور حضرت آدم علیہ السلام کو بھی اس مقامِ قرب میں رہنے کا اشتیاق تھا اور فرشتہ بننے یا ہمیشہ کی زندگی مل جانے سے یہ مقام حاصل ہوسکتا تھا اس لیے آپ نے شیطان کی ( جھوٹی) قسم کا اعتبار کرلیا، پھر حضرت حوا رضی اللہ عنہا اور حضرت آدم علیہ السلام نے اس درخت کا پھل کھالیا۔(سیرت الانبیاء ، صفحہ100، مکتبۃ المدینہ العلمیہ ، دعوت اسلامی)

نیز ممنوعہ درخت کا پھل کھانے میں اللہ تعالیٰ کی کچھ تکوینی حکمتیں بھی تھیں، چنانچہ علامہ صاوی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:د رخت کا پھل کھانے میں متعدد حکمتیں تھیں جیسے مخلوق کا وجود میں آنا اور دنیا کا آباد ہونا وغیرہ او راس عظیم حکمت کے لیے اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنا حکم بھلا دیا۔ ( صاوی الاعراف تحت الایہ،23،جلد2،ص664)

جھوٹ کے متعلق مختلف احکام :۱۔ جھوٹ بولنا گناہ ا ور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔۲۔ جھوٹ کا معصیت ( گناہ) ہونا ضروریاتِ دین میں سے ہے۔لہذا جو اس کے گناہ ہونے کا مطلقاً انکار کرے دائرہ اسلام سے خارج ہو کر کافر و مرتد ہوجائے گا۔ نوٹ : تین صورتوں میں جھوٹ بولنا جائز ہے یعنی اس میں گناہ نہیں ایک جنگ کی صورت میں کہ یہاں اپنے مقابل کو دھوکا دینا جائز ہے۔دوسری صورت یہ ہے کہ دو مسلمانوں میں اختلاف ہے اور یہ ان دونوں میں صلح کرانا چاہتا ہے۔تیسری صورت یہ ہے کہ بی بی ( زوجہ) کو خوش کرنے کے لیے کوئی بات خلاف ِ واقعہ کہہ دے ۔(باطنی گناہوں کی معلومات، صفحہ27، پیشکش المدینہ العلمیہ،دعوتِ اسلامی)

جھوٹ کی مذمت پر پانچ فرامین مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم :

(1) جھوٹا شخص اللہ تعالیٰ کے نزدیک کذّاب لکھ دیا جاتا ہے:رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:سچائی کو ( اپنے اوپر) لازم کرلو، کیونکہ سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے اور نیکی جنت کا راستہ دکھاتی ہے آدمی برابر سچ بولتا ر ہتا ہے اور سچ بولنے کی کوشش کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک صدیق لکھ دیا جاتاہے اور جھوٹ سے بچوکیونکہ جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ جہنم کا راستہ دکھاتا ہے اور آدمی برابر جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ بولنے کی کوشش کرتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے کے نزدیک کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔(مسلم ، صفحہ 1405، حدیث: 105)

(2) جھوٹ بولنا منافق کی علامت ہے:اللہ عزوجل کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:منافق کی تین علامتیں ہیں:(۱) جب بات کرے تو جھوٹ بولے (۲) جب وعدہ کرے تو پورا نہ کرے اور (۳) جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے۔ ( مسلم ، صفحہ 50، حدیث: 107)

(3) جھوٹا شخص جہنم میں داخل ہوجاتا ہے:رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ار شاد فرمایا: جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو گناہ کرتا ہے اور جب گناہ کرتا ہے تو ناشکری کرتا ہے اور جب ناشکری کرتا ہے تو جہنم میں داخل ہوجاتا ہے۔( مسند امام احمد،جلد2، صفحہ589، حدیث: 6652)

(4) لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولنا ہلاکت ہے:ہمارے پیارے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:ہلاکت ہے اس کے لیے جو بات کرتا ہے اور لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولتا ہے اس کے لیے ہلاکت ہے ، اس کے لیے ہلاکت ہے۔(ترمذی ، جلد4، صفحہ 142، حدیث: 2322)

(5) لوگوں کو ہنسانے کی وجہ سے جہنم میں گرنا:ہمارے پیارے آقا حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: بندہ بات کرتا ہے اور محض اس لئے کرتا ہے کہ لوگوں کو ہنسائے اس کی وجہ سے جہنم کی اتنی گہرائی میں گرتا ہے جو آسمان و زمین کے درمیان کے فاصلہ سے زیادہ ہے اور زبان کی وجہ سے جتنی لغزش ہوتی ہے، وہ اس سے کہیں زیادہ ہے جتنے قدم سے لغزش ہوتی ہے۔

(شعب الایمان ، جلد،4 ص213، حدیث:4832)حکایت :جھوٹ سے بچنے کی برکت :ایک مرتبہ ایک شخص نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر کہنے لگا: میں آپ پر ایمان لانا چاہتا ہوں مگر مجھے شیراب نوشی، بدکاری چوری اور جھوٹ سے محبت ہے ، لوگوں نے مجھے بنایا ہے کہ آپ ان چیزوں کو حرام قر اردیتے ہیں،مجھ میں ان سب چیزوں کو چھوڑنے کی طاقت نہیں ہے۔ اگر آپ مجھے ان میں سے کسی ایک سے منع فرمادیں تو میں اسلام قبول کرلوں گا۔نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم جھوٹ بولنا چھوڑ دو، اس نے یہ بات قبول کرلی اور مسلمان ہوگیا۔ دربار ِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے جانے کے بعد جب اسے لوگوں نے شراب پیش کی تو اس نے کہا میں شراب پیوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے شراب پینے کے متعلق پوچھ لیں تو اگر میں جھوٹ بولوں گا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کیے ہوئے وعدے کو توڑنے والا ہوجاؤں گا، اور اگر اقرار کیا تو مجھ پر حد (شرعی سزا) قائم کی جائے گی۔ لہذا اس نے شراب نوشی چھوڑ دی، اسی طرح بدکاری اور چوری کا معاملہ درپیش ہوتے وقت بھی اسے یہی خیال آیا، چنانچہ وہ ان برائیوں سے باز رہا، جب بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں اس کی دوبارہ حاضری ہوئی تو کہنے لگا آپ نے بہت اچھا کام کیا۔آپ نے مجھے جھوٹ بولنے سے روکا تو مجھ پر دیگر گناہوں کے دروازے بھی بند ہوگئے اور یوں اس شخص نے اپنے تمام گناہوں سے تو بہ کرلی۔(تفسیر کبیر ، پار ہ11، التوبہ، تحت الایۃ:119، جلد6، صفحہ167)

جھوٹ سے بچنے کا درس:پیارے پیارے اسلامی بھائیو! جھوٹ بولنا حرام ہے اور اس پر دردناک عذاب کی وعید ہے لہذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس سے بچنے کی خوب کوشش کرے۔

چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ پارہ 17 سورہ حج، آیت نمبر:30 میں ارشاد فرماتا ہے: وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِۙ(۳۰) ترجَمۂ کنزُالایمان:اور بچو جھوٹی بات سے۔حدیث مبارکہ میں فرمایا :مؤمن جھوٹا نہیں ہوتا۔ چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کیا مؤمن بزدل ہوتا ہے؟ فرمایا ہاں۔پھر عرض کی گئی کیا مؤمن بخیل ( کنجوس) ہوتا ہے؟ فرمایا ہاں پھر کہا گیا کیا مؤمن کذاب ( جھوٹا) ہوتا ہے، فرمایا: نہیں۔ (المؤطا ، جلد2، حدیث 1913)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیوں! معلوم ہوا جھوٹ تمام برائیوں کی جڑ اور جہنم کا راستہ ہے۔مفسر شہیر، حکیم الامت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:جھوٹا آدمی آگے چل کرپکا فاسق وفاجر بن جاتا ہے، جھوٹ ہزار ہا گناہوں تک پہنچادیتا ہے، تجربہ بھی اسی پرشاہد ہے ۔سب سے پہلا جھوٹ شیطان نے بولا کہ حضرت آدم علیہ السلام سے کہا میں تمہارا خیر خواہ ہوں۔مزید فرماتے ہیں:(جھوٹا) شخص ہر قسم کے گناہوں میں پھنس جاتا ہے اور قدرتی طور پر لوگوں کو اس کا اعتبار نہیں رہتا، لوگ اس سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔(مراة المناجیح ، جلد6، ص 453)

اللہ پاک ہم سب کو سچ بولنے کی اور جھوٹ بولنے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔امین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم