جھوٹوں کو قیامت کے بعد دودانوں میں گرہ لگانے کی تکلیف دی جائے گی اور وہ کبھی  بھی نہ لگا سکیں گے اور یوں عذاب پاتے رہیں گے۔اور حدیث پاک میں ہے کہ جھوٹ ایک معنوی نجاست ہے لہٰذا جھوٹے کے منہ سے ایسی بدبو نکلتی ہے کہ حفاظت کے فرشتے اس کے پاس سے دور ہٹ جاتےہیں۔جیسا کہ حدیث میں وارد ہوا ہے کہ جب کوئی شخص جھوٹ بولتا ہے تو اس کی بد بو سے فرشتہ ایک میل کی مسافت تک اس سے دور ہوجاتا ہے۔ایک اور حدیث پاک میں اس بدبو کی نسبت رسول اللهﷺ نے خبر دی کہ یہ ان کے منہ کی سڑاند ہے جو مسلمان جھوٹ بولتے ہیں۔

جھوٹ کی تعریف :جھوٹ وہ خرابی ہے جو تمام ترمعاشرتی خرابیوں کی جڑ ہے اور ہر طرح کی دھو کے بازی اسی کے سہارے کی جاتی ہے۔ خلافِ واقع بات کرنے کو جھوٹ کہتے ہیں۔

سب سے پہلے جھوٹ کس نے بولا :سب سے پہلے جھوٹ شیطان نے بولا کہ جھوٹ بول کر حضرت آدم علیہ السّلام کو گندم کا دانہ کھلایا۔

جھوٹ کی مذمت پر پانچ فرامین ِ مصطفیٰ :

(1)جھوٹ بولنے والے کے منہ سےایسی سخت بد بو نکلتی ہے کہ فرشتہ ایک میل دور ہو جاتا ہے۔

(2) اس شخص کے لئے ہلاکت ہے اس کے لئے جو لوگوں کوہنسانے کے لئے جھوٹ بولتا ہے۔

(3) بات بات پر قسمیں کھانا بری عادت ہے کیونکہ زیادہ قسمیں کھانا جھوٹا ہونے کی علامت ہے۔

(4) جھوٹ بو لنے سے دل سیاہ ہو جاتا ہے۔ لہٰذا جھوٹ بولنے سے مکمل پرہیز کرنا چاہیے۔

جھوٹ بولنے والوں کو الله پاک اور اس کے پیارے رسول ﷺ بالکل بھی پسند نہیں فرماتے۔

احادیث مختصر آسان شرح کے ساتھ :

(1)عن ابن مسعودقال:قال رسول اللہ ﷺ:اِنَّ الصِّدْقَ بِرٌّ،وَاِنَّ الْبِرَّ يَهْدِي اِلَى الْجَنَّةِ،وَاِنَّ الْكَذِبَ فُجُورٌ،وَاِنَّ الْفُجُورَ يَهْدِي اِلَى النَّارِ ترجمہ:حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا کہ سچ بولنا نیکی ہے اور نیکی جنت میں لے جاتی ہے اور جھوٹ بولنا فسق و فجور ہے اور فسق و فجور دوزخ میں لے جاتا ہے۔ (مسلم شریف)

(2)عَنْ ابْنِ عُمَرَ،اَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: اِذَا كَذَبَ العَبْدُ تَبَاعَدَ عَنْهُ المَلَكُ مِيلًا مِنْ نَتْنِ مَا جَاءَ بِه: ترجمہ:حضرت ابن عمر رضی الله عنہما نے کہا کہ حضور ﷺ نے فرمایا : جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو اس کی بدبو سے فرشتہ ایک میل دور ہٹ جاتا ہے۔ (ترمذی)

(3)وَعَنْ أُمِّ كُلْثُومٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: لَيْسَ الْكَذَّابُ الَّذِي يُصْلِحُ بَيْنَ النَّاسِ وَيَقُولُ خَيْراً وَيَنْمِي خَيْراً۔

ترجمہ: حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا نے کہا کہ حضورﷺ نے فرمایا : وہ شخص جھوٹا نہیں ہے جو لوگوں کے درمیان صلح پیدا کرتاہے اچھی بات کہتا ہے اور اچھی بات پہنچاتا ہے۔

جھوٹ بولنے کی چند مثالیں : اگرامی جان صبح مدرسے میں جانے کے لئے اٹھاتی ہیں تو جھوٹا بہانہ کر دیتے ہیں کہ میری طبیعت صحیح نہیں۔میرے سر میں درد ہے۔میرے پیٹ میں تکلیف ہے۔اسی طرح جب انہیں مدرسے کا سبق یاد کرنے کا کہا جائے تو جھوٹا عذر پیش کر دیتے ہیں کہ مجھے نیند آرہی ہے،مجھے فلاں تکلیف ہے۔ایسے ہی جب ایک بچہ دوسرے بچے سے لڑائی جھگڑا کرے یا کسی کو مارے تو دریافت کرنے پر جھوٹ بول دیتا ہے کہ میں نے تو نہیں مارا۔ عموماً والدین اپنے بچے کو نقصان دہ چیزیں کھانے سے منع کرتے ہیں اور محلہ کے برے لڑکوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے بھی منع کرتے ہیں مگر بچے باز نہیں آتے اور والدین جب پوچھتے ہیں تو جھوٹ بول دیتے ہیں۔

جھوٹ بولنے کے چند معاشرتی نقصانات:جھوٹ بولنے کے چند نقصان یہ ہیں:جھوٹ کبیرہ گناہ ہے۔ جھوٹ منافق کی علامت ہے۔ جھوٹ سے نیکیاں ضائع ہو جاتی ہیں۔ جھوٹ جہنم میں لے جانے والا عمل ہے۔ جھوٹ سے گناہوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ الله پاک نے جھوٹوں پر لعنت فرمائی ہے۔ جھوٹ سے رزق میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ جھوٹ سے دل کالا ہو جاتا ہے اور یہ کافروں،منافقوں اور فاسقوں کا طریقہ ہے۔جھوٹ بولنے والوں کو اللہ پاک اوراس کے پیارے رسول ﷺ بالکل بھی پسند نہیں فرماتے۔