جھوٹ  بولنا کبیرہ گناہوں میں سےایک گناہ ہے اس کی مذمت پر قرآنِ کریم اور احادیثِ مبارکہ میں بہت سی وعیدیں آئی ہیں۔

جھوٹ کی تعریف : خلافِ واقعہ بات کرنے کو جھوٹ کہتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں جھوٹ اتنا عام ہو چکا ہے۔اسے معاذ اللہ برائی ہی تصورنہیں کیا جاتا حالانکہ قرآنِ کریم میں جھوٹ کے متعلق ارشاد فرمایا گیا۔فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَى الْكٰذِبِیْنَ0 ترجمہ:الله کی لعنت ہے جھوٹ بولنے والوں والوں پر(اٰل عمران:61) قرآنِ کریم میں ایک اور جگہ ارشاد فرمایا گیا۔ اِنَّمَا یَفْتَرِی الْكَذِبَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ0 ترجمہ:جھوٹ بہتان وہی باندھتے ہیں جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتےاور وہی جھوٹے ہیں۔(النحل: 105)

ا حادیث مبارکہ میں بھی جھوٹ بولنے کی مذمت بیان فرمائی گئی ہے۔

1۔ ہلاکت ہے اُس شخص کیلئے جو اس غرض سے جھوٹ بولے کہ لوگ ہنسیں،ہلاکت ہے اس کیلئے،ہلاکت ہے اس کیلئے۔(سنن ابی داؤد،ص 743،حدیث: 4990)اس کی وضاحت میں بیان کیا گیا ہے کہ اپنی طرف سے لطیفے بنانا اور خوش طبعی کیلئے جھوٹ بولنا کہ لوگ ہنسیں،صاحب ایمان کوقطعاً زیب نہیں دیتا البتہ ایسا مزاح اور خوش طبعی جو مبنی بر حقیقت ہونے کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور شرعی حدود و قیود کے اندر ہو جائز اور مباح ہے۔

2۔حضرت عبد الله بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن میری والدہ نے مجھے بلایا ادھر آؤ چیز دوں گی۔ اور رسول الله ﷺہمارے گھر تشریف فرما تھے تو آپ ﷺ نے میری والدہ سے دریافت فرمایا: تم اسے کیا دینا چاہتی ہو؟ انہوں نے بتایا کہ میں اسے کھجور دینا چاہتی ہوں۔ پھر آقا ﷺ نے ان سے کہا: اگر تم اسے کچھ نہ دیتی تو تم پر ایک جھوٹ لکھ دیا جاتا۔ (سنن ابی داؤد،ص 743،حدیث: 4991)

شرح :سچ اور جھوٹ بولنے کا تعلق بڑے ہی آدمیوں سے چھوٹے بچوں کے ساتھ بھی ہے،بلکہ بعض صالحین نے تو اسے جانوروں تک وسیع کیا ہے،جیسے کسی جانور کو ایسی آواز دے یا جھولی بنا کر اسے بلائے اور ایسا تاثر دے کہ اس میں گھاس دانہ وغیر ہے حالانکہ اس میں کچھ نہ ہو،تو وہ اسے جھوٹ قرار دیتے ہیں،بہرحال جھوٹ ایک قبیح خصلت ہے،اس سے بچنا چاہئے۔

3۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبی کریم ﷺ نے فرمایا :کسی آدمی کے گناہ گار ہونے کے لئے یہی بات کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات بیان کرتا رہے۔(سنن ابی داؤد،ص 744،حدیث: 4992)

سب سے پہلا جھوٹ شیطان لعین نے بولا۔

جھوٹ کی چند مثالیں: جیسے اُستانی صاحبہ نے پو چھا کہ سبق یاد کر کے آئی ہیں؟ اور طالبہ نے سبق یا دنہ کیا ہو اور منہ سے کچھ نہ کہا لیکن ہاں میں سر ہلا دیا تو یہ بھی جھوٹ میں شمار ہوتا ہے،اسی طرح Boss نے کوئی کام دیا اور صبح تک پورا کرنے کے لئے کہا،مگر کسی عذر کی وجہ سے کام پورا نہ ہو سکا۔ اور کام کا کچھ حصہ ہی کیا۔ جب boss نے پوچھا کہ کام مکمل کر لیا اور خوف کی وجہ سے کہہ دیا کہ کر لیا تو یہ بھی جھوٹ میں شمار ہوگا کیونکہBoss نے کام پورا کرنے کو کہا مگر اس نے آدھا کیا مکمل نہ کیا۔

جھوٹ کے چند معاشرتی نقصانات :جھوٹ بولنے سے معاشرے میں فساد برپا ہوتا،بداعتمادی پیدا ہوتی ہے،نفرتوں کا بازار گرم ہوتا اور انسان لوگوں کے نزدیک اسی کی وجہ سے جھوٹا شمار ہونے لگتا ہے۔

بہر حال ہمیں ہر صورت میں سچ ہی کو اپنانا چاہیے اور اپنے بچوں کو بھی اس کی تلقین کرنی چاہیے،ہمیں چاہیے کہ اپنے بچوں کے ذہن میں بچپن میں سے ہی جھوٹ کے خلاف نفرت بٹھا دیں تاکہ وہ بڑے ہونے کے بعد بھی سچ بولنے کی عادت کو ہر حال میں بنا کر رکھیں۔