ہمارے معاشرے میں کم وبیش سبھی کو اصلاح کی حاجت رہتی ہے جس طرح غلطیاں کرنے والوں میں کمی نہیں اسی طرح اصلاح کرنے والوں کی تعداد بھی کم نہیں،اگرچہ انداز ہر ایک کا جداگانہ ہوتا ہے کچھ افراد تو ایسے بھی ہیں جو غلطیوں کے مُرتکب(غلطیاں کرنے والے) کو سمجھانا بے فائدہ سمجھتے ہیں اور  یوں کہتےہوئے سنائی دیتے ہیں کہ بھائی! اسے سمجھانے سے کوئی فائدہ نہیں"،جبکہ یہ قول واضح طور پر قرآن پاک کےخلاف ہے اللہ پاک کا پیار کلام تو یوں فرماتا ہے:

وَّ ذَكِّرْ فَاِنَّ الذِّكْرٰى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ ترجمۂ کنزالایمان: اور سمجھاؤ کہ سمجھانا مسلمانوں کو فائدہ دیتا ہے۔" (پارہ 27،الذاریٰت55)

لہٰذا یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ سمجھانا فائدہ نہیں دیتا،ہاں انداز تفہیم واصلاح درست کرنا ہوگا،عمومی طور پر سمجھانے والے سمجھانے کےبجائے صرف منع کرنے کو ہی سمجھانا سمجھتے ہیں مثلاً کسی نے کوئی ایسا کام کردیا جو نقصان دہ تو ہو لیکن کرنے والے کو اس کے نقصان کا علم نہ ہو ،تو اسے سمجھاتے ہوئے یوں کہہ دیا جاتا ہے" آئندہ ایسا نہ کرنا "۔اب اگر وہ پوچھ لے کہ ایسا کیوں نہیں کرنا توسامنے سے یوں جواب ملتا ہے:" بس میں نے کہہ دیانا کہ ایسا نہیں کرنا تو نہیں کرنا "یقینا ً ایسے بہت سے کام ہوتے ہیں جن سے منع کرنے کی حکمت بیان نہیں کی جاسکتی لیکن منع کرنے والے کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ اس طرح منع کرنے سے کچھ لمحات کے لیے تو روکا جاسکتا ہے لیکن مستقل طور پر روکنا بہت مشکل ہے کیونکہ انسان ان کاموں کے کرنے کا حریص ہوتا ہے جن سے اسے منع کیا جائے چنانچہ"کَنْزُالْعُمَّال" کی حدیث پا ک میں فرمایا گیا:

إنّ ابنَ آدمَ لَحَريصٌ على ما مُنِعَ

بیشک آدمی اس کام کے کرنے کا حریص ہے جس سے اُسے منع کیا جائے۔( كنز العمّال : ۴۴۰۹۵)

لہٰذا سمجھانے والا اگرکسی کام کے فوائد اور نقصانات بیان کرکے سمجھائے گا تو اس کے اثرات دیرپا ہونگے۔

اکیلے میں سمجھائیں:

بہتر یہ ہے کہ جس کی غَلَطی ہو اس کی الگ سے اِصلاح کی جائے یوں اس کو اچھا بھی لگے گا اورندامت بھی نہیں ہوگی اور بات بھی جلدی سمجھ آئے گی ۔ اگر عَلَی الْاِعْلَان اِصلاح کی کوشش کریں گے تو شیطان اس کو ضد میں مبتلا کر سکتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی غَلَطی کو دُرُست ثابت کرنے کے لیے مزید 10غَلَطیاں اور کرے گا ۔

حضرتِ سَیِّدَتُنااُمِّ دَرداء رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا فرماتی ہیں : جس نے کسی کے عیب کی الگ سے اِصلاح کی اس نے اسے سُدھار دیا اور جس نے کسی کے عیب کی سب کے سامنے اِصلاح کی اس نے اسے بگاڑ دیا ۔( شعب الایمان، باب فی التعاون علی البر و التقوی، ۶ / ۱۱۲، حدیث : ۷۶۴۱ دار الکتب العلمیة بیروت ۔)

حضرتِ سَیِّدُنا امام شافعی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : جس نے کسی کی اکیلے میں اِصلاح کی گویا اس نے اسے زینت دی اور جس نے کسی کی سب کے سامنے اِصلاح کی اس نے اسے داغدار کر دیا ۔( حلیة الاولیاء، الامام الشافعی، ۹ / ۱۴۹، حدیث : ۱۳۴۶۴ دار الکتب العلمیة بیروت ۔ )

مسلمان کی عزت کا خیال رکھیں:

سمجھاتے ہوئے مسلمان کی عزت کا خیال رکھیں اور اچھے الفاظ کےساتھ سمجھائیں تاکہ سمجھنے والے کو آپ سے وحشت نہ ہو اور وہ آئندہ بھی آپ سے تربیت لینے میں کسی بھی ہچکچاہٹ کا شکار نہ ہو۔اللہ پاک ہمیں اچھے انداز کے ساتھ اصلاح کرنے کا جذبہ نصیب فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم