اىک صحت مند معاشرے کے لىے اصلاح اہم کردار کرتى ہے، قرآن حکىم ارشاد بارى
تعالى ہے:
وَّ
ذَكِّرْ فَاِنَّ الذِّكْرٰى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ(۵۵)
تَرجَمۂ کنز
الایمان : اور سمجھاؤ کہ سمجھانا اىمان والوں کو فائدہ دىتا ہے۔ (پارہ 27 ،
الذارىات: 55)
ہر شخص کو زندگى کے کسى نہ کسى موڑ پر
اصلاح کرنى کى ضرورت پىش آتى ہے، معاشرے مىں بہت سے لوگ اصلاح کرتے بھى دکھائى د
ىتے ہىں، البتہ اگر چند باتوں کو ملحوظ خاطر رکھ کر اصلاح کى جائے تو اس سے زائدہ
فوائد حاصل ہونے کے امکانات ہىں
حکمت عملى :
سىد دوعالم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرماىا: الحکمۃ ضالۃ المؤمن، فمن حیث وجدھا
فھو احق بھا یعنی کہ حکمت مومن
کا گمشدہ خزانہ ہے لہذا مومن اسے جہاں پائے وہى اس کا زىادہ حقدار ہے۔
(ترمذى ، ۴/۲۱۴ حدىث ۲۶۹۶)
لہذا صلاح کرنے کے معاملے مىں بھى مناسب حکمتِ عملى کو اختىار کرنے سے مثبت
نتائج حاصل ہوسکتے ہىں، جىسا کہ حضرت سىدنا زبىرىامى رحمۃ اللہ
تعالٰی علیہ جو اپنے محلے کى
مسجد مىں امام تھے آپ بچوں کو کہا کرتے
بچو ، چلو نمازپڑھتے ہىں مىں تمہىں اخروٹ دوں گا، بچے آکر نماز پڑھتے پوچھا گىا کہ
آپ ا ىسا کىوں کرتے ہىں تو فرماىا اس مىں مىرا کىا جاتا ہے کہ مىں ان کے لىے پانچ
درہم کے اخروٹ خرىدوں اور وہ نماز کے عادى
بن جائىں۔(حىلتہ الاولىا ۵/۳۵۔ رقم ۶۲۲۰)
اسى طرح کى حکمتِ عملىوں خو اختىار کرکے نىکى اور اصلاح کى طرف لاىا جاسکتا
ہے۔
حفظ مراتب:
جس کى اصلاح مقصود ہو اس کے مقام اور مرتبے کا بھى لحاظ رکھنا چاہىے اور اىسا
طرىقہ کار اختىار کرنا چاہىے جس سے بات سامنے والے کے دل مىں گھر کرجائے اور نرمى
کے ساتھ سمجھاىا جائے۔
اىسے الفاظ کا انتخاب نہ کىا جائے جس سے کوئى اپنى توہىن سمجھتے اور اصلاح
قبول کرنے کى بجائے دل مىں کىنہ پىدا کر بىٹھے، لہذا نرمى صبر و تحمل کے ساتھ
اصلاح کرنا زائد مفىد ثابت ہوتا ہے۔
موقع و محل :
بات بات پر ٹوکنے اور اور ہر وقت ڈانٹ ڈپٹ کرنے سے پرہىز کرنا چاہىے اس سے
اصلاح کى بجائے منفى اثرات پڑتے ہىں اور بعض اوقات ردعمل کا باعث بھى بن جاتا ہے۔ لہذا
اصلاح کرنے مىں موقع و محل کا بھى لحاظ رکھنا چاہىے، چنانچہ حضرت سىدنا عبداللہ
ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ ہرجمعرات کووعظ فرماتے تھے، آپ
سےروزانہ وعظ کرنے کى خواہش کى گئى تو ارشاد فرماىا، مىں تمہىں اکتاہٹ مىں مبتلا
کرنے کو ناپسند کرتا ہوں اور بس اسى طرح تمہارى رعاىت کرتا ہون جس طرح نبی کریم اکتاہٹ کے خدشے کے باعث ہماری
رعایت فرماتے تھے۔(بخاری،ج۱،ص۴۰، حدیث:۷۰)
اسی طرح مجمع میں سمجھانے کے بجائے اکیلے میں اصلاح کرنا فائدہ دیتا ہے۔
اگر مذکورہ چند اصول و ضوابط کا خیال رکھا جائے تو بہتر انداز میں اعتقادی ، علمی
اور عملی اصلاح کی جاسکتی ہے۔ اللہ پاک اخلاص کے ساتھ اصلاح کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی
علیہ واٰلہٖ وسلَّم