اصلاح کے معنی غلطی کو  درست کرنا ہے ۔منقول ہے کہ سمجھا ؤکہ سمجھانا مسلمانوں کو فائدہ دیتا ہے۔سوال یہ ہے کہ اصلاح کا درست طریقہ کیا ہے ؟ اللہ پاک فرماتا ہے: اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُؕ- ترجمہ کنز لایمان : اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ پکّی تدبیر اور اچھی نصیحت سے اور ان سے اس طریقہ پر بحث کرو جو سب سے بہتر ہو ۔(سورۃ النحل ، ۱۲۵)

اصلاح کرنے کے اصول :

۱۔نرمی و خوش اخلاقی اختیار کرلےکہ جب گُڑ سے مرے تو زہر کیوں دوں؟ اللہ پاک فرماتاہے:

فَبِمَا  رَحْمَةٍ  مِّنَ  اللّٰهِ  لِنْتَ  لَهُمْۚ- َ  لَوْ  كُنْتَ  فَظًّا  غَلِیْظَ  الْقَلْبِ  لَا  نْفَضُّوْا  مِنْ  حَوْلِكَ۪- ترجمہ کنز العرفان : تو اے حبیب!اللہ کی کتنی بڑی مہربانی ہے کہ آپ ان کے لیے نرم دل ہیں۔اور اگر آپ ترش مزاج ،سخت دل ہوتے تو یہ لوگ ضرور آپ کے پاس سے بھاگ جاتے۔ (سورۃآل عمران آیات نمبر ۱۵۹)

۲۔جس کو سمجھایا جائے اس کی عمر ،رتبہ ،مزاج،فہم اور موقع محل کے مطابق کلام کرے محمدعربی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے:ہم گروہ انبیاء کو حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے ان کی عقلوں کے مطابق کلام کریں ۔(تفسیر السلمی ج۱ ،ص۳۷۷)

۳۔جس کو سمجھایا جا ئے اس کی عزتِ نفس اور وقار کا خیال رکھے دیگر لوگوں کے سامنےسمجھانے سے بچے منقول ہے :کہ جس نے اکیلے میں اصلاح کی اس نے اسے سنوارا اور جس نے سب کے سامنے اصلاح کی اس نے بگاڑ دیا۔اگر کچھ لوگوں کے سامنے سمجھانے کی ضرورت ہو تو نام نہ لےبلکہ یوں کہےبعض لوگ ایسا کرتے ہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے ۔ یہی سیدالمعلمین صلی اللہ علیہ وسلم کا انداز ہے ۔

۴۔ دلائل،علمی نکات اور مثالوں کے ذریعےسمجھائے یہ نہایت دلنشین انداز ہے۔

۵۔جس غلطی کی نشاندہی کرنی ہےاس سے بچنے کے فوائد ،نہ بچنے کے نقصانات اور نہ بچنے والوں کا انجام بیان کرے۔قرآن کریم میں انہیں اسلوب کے تحت انسانیت کی اصلاح کی گئ ہے۔

۶۔ ہر وقت ہر بات پر نہ سمجھائےکہ اس سے لوگ کتراتے ہیں۔

۷۔صرف غلطی کی اصلاح کرنے کی بجائے اس کے سبب کو دور کرنےکی طرف تو جہ دلائے۔

۸۔ جس غلطی کی اصلاح کر لے پہلے خود اس سے بچنے کی ترغیب دلانے کیلئے سراپا ترغیب بننا پڑتا ہے۔نیز باعمل کا کلام تاثیر کا تیر بن کر دل پر اثر کرتا ہے۔

۹۔ غلطی کی اصلاح اس انداز میں کی جائے جس انداز میں ہم چاہتے ہیں کی ہمیں سمجھایا جائے سیدالواعظین صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : کوئی بھی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے بھی اس چیز کو پسند نہ کرے جو وہ اپنے لئے پسند کرتا ہے(بخاری شریف ج ۱ص۱۶ حدیث۱۳)

نفسیاتی تجزیہ :

ماہر نفسیات کہتے ہیں اگر کسی کی کسی غلطی پر اصلاح کرنی ہے تو پہلےاس شخص کی کوئی خوبی بیان کرے پھر غلطی کی اصلاح کرے اور آ خر میں بھی کسی خوبی کی تعریف کرے ۔

اصلاح کا انوکھاانداز:

ایک عالم صاحب کسی جگہ و عظ فرمارہے تھے کہ ایک شخص آیا جس کی شلوار ٹخنوں سے نیچے تھی وہ شخص بھی بیان سننے کے لیے بیٹھ گیا ۔ جب وعظ ختم ہوا تو لو گ اٹھ کر جانے لگے ۔وہ شخص بھی جانے لگا تو عالم صاحب نے اس شخص کے سامنے کھڑے ہو کر فرمایا :مجھے ایک ایسی بیماری ہے کہ میری شلوار ٹخنوں سے نیچے ہوجاتی ہے ۔ذرا دیکھیے میری شلوار ٹخنوں سے نیچے ہےیا اوپر اس شخص نے عرض کی :حضوریہ بیماری آپ میں نہیں مجھ میں ہے ۔پہلے کوئی آپ سا سمجھانے والا نہیں ملا ان شا ءاللہ میں آئندہ اپنی شلوار ٹخنوں سے اوپر ہی رکھوں گا ۔

مسئلہ:

مرد کا شلوار ٹخنوں سے اوپر رکھنا سنت ہے