ہمارى روزمرہ کى زندگى مىں کہىں اىسے مواقع آتے ہىں کہ ہمىں دوسرے کى اصلاح
کرنے کى حاجت پڑتى ہے استاد اپنے شاگرد کى اصلاح کرتا ہے ، والدىن اپنے بچوں کى
اصلاح کى طرف توجہ دىتے ہىں، افسر کو اپنے ماتحت کى اصلاح کرنے کى ضرورت پڑتى
ہے،المختصر ہر کسى کو کسى کى اصلاح کرنے کے مواقع ملتے ہىں۔
اب سوال ىہ اٹھتا ہے کہ اصلاح کا کون سا درست انداز اختىار کىا جائے؟ اسلام ہمىں نرمى کا درس دىتا
ہے، دنىاوى طور پر ہمىں کسى کى اصلاح کرنے
کى حاجت پڑجائے ىا دینی طور پر ہمىشہ نرمى نرمى اور نرمى کو اخىتار کىجئے۔ امام
زىن العابدىن رضی اللہ تعالٰی عنہ کا بہت ہى پىارا واقعہ ہے کہ اىک شخص نے کسى کو کچھ پیسے دىئے اور کہا کہ
جاؤ اور امام زىن العابدىن کو برا بھلا کہہ کر آؤ، وہ شخص جب آپ کى بارگاہ مىں مىں حاضر ہوا تو آپ کو بہت برا بھلا کہنا شروع
کردىا اور جب اس کے سب الفاظ ختم ہوگئے تو حضرت زىن العابدىن رضی
اللہ تعالٰی عنہ نے بڑى ہى نرمى اختىار کرتے ہوئے اس سے بات کى
کہ سنو اگر جو تم نے کہىں اگر وہ باتىں
مجھ مىں موجود ہىں تو مىں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ ىہ برائىاں مجھ سے نکل جائىں، اور اگر ىہ باتىں جوتم نے کہىں سب غلط ہىں تو مىں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تجھے معاف کردے، اس شخص نے جب اپنى جلى کٹى باتوں کا جواب
اتنى نرمى والے انداز سے سنا تواس کے دل کو چوٹ پہنچى اور اسکى آنکھوں سے آنسو جارى ہوگئے ۔
دىکھاآ پ نے کہ انہوں نے اپنے مخالف
کے ساتھ کىسا نرمى والا انداز اختىار کىا۔سچ ہے کہ
ہے فلاں و کامرانى نرمى و آسانى مىں
ہر بنا کام بگڑ جاتا ہى نادانى مىں
آئىے! ترغىب کے لىے ملاحظہ کىجئے کہ
حضر ت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہىں کہ مىں آپ صلَّی
اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کى غلامى مىں دس ۱۰ سال رہا لىکن آپ نے کبھى مجھ
پر سختى نہ فرمائى اور جب بھى مىرى اصلاح
کرنى ہوتى نرمى اختىار کرتے، آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ خوشبودار
ہے کہ نرمى جس چىز مىں ہوتى ہے اسے زىنت بخشتى ہے اور جس چىز سے نرمى اٹھالى جاتى
ہے اسے بدنما کردىتى ہے۔
تو ہر کسى کى اصلاح کرتے ہوئے نرمى ہى اختىار کىجئے، ہر اصلاح کے کئى اور
انداز بھى ہىں کہ جب آپ کوکوئی برا بھلا کہے تو خاموش ہوجانا چاہىے ىا پھر وہاں سے چلے جانا چاہىے کہ ىہ بہت موثر ہوتا ہے
اور اصلاح کا باعث بنتا ہے۔ اللہ پاک نرمى کو بے حد پسند فرماتا ہے، اللہ پاک نے جب حضرت موسىٰ علیہ
السَّلام کو اپنى قوم کى
اصلاح کرنے کے لىے بھىجا تو نرمى کے ساتھ اصلاح کرنے کا حکم ارشاد فرماىا۔
اس سے معلوم ہوا کہ جب کسى کى اصلاح نىکى کى دعوت مىں پىش آجائے تو نرمى سے
سمجھاىا جائے اگر سختى کرىں گے تو اس کى برائى پر اس کى اصلاح نہىں بلکہ اىک ضد پىدا ہوجائے گى، جو اس کے لىے نقصان کا باعث بنے
گى، اپنى زندگى مىں نرمى لائىے۔