اصلاح کرنے کا مطلب ہے صحیح کرنا،درست کرنا۔یوں
کہیے کہ کسی کو توجہ دلاتے ہوئے یہ کہنا کہ آپ اس معاملے میں غلطی پر ہیں، اسے
درست کر لیں۔
یہ بات سو فیصد درست ہے کہ "بشر غلطی کا پتلا ہے یہ اکثر ہو ہی جاتی ہے"۔ آپ کا
بھی مشاہدہ ہوگا کہ بارہا ہم سے
غلطی ہو جاتی ہے مگر اس کی طرف ہماری توجہ نہیں ہوتی، بعض اوقات غلطی کا ادراک
ہونے کے باوجودبھی ہم اپنی عزت کے چکر میں
رجوع کرنے سے کتراتے اور اسے پسِ پشت ڈالتے رہتے ہیں یوں غلطیاں ہماری عادت کا حصہ
بن جاتی ہیں اور پھر ہمیں ان کا احساس تک نہیں ہوتا،لیکن اگر کوئی توجہ دلائے تو
احساس بھی ہو جاتا ہے اور اس غلطی کو دور کرنے کا ذہن بھی بنتا ہے۔
معاملہ خواہ دینی ہو یا دنیوی،اصلاح کی حاجت ہر
جگہ پیش آتی ہے۔اس عظیم کام کو سرانجام دینے کے لیے اللہ پاک نے امت کی اصلاح کے لیے انبیاے کرام
علیہم السلام بھیجے،پھر علما کو انبیا کا وارث بنا کر یہ فریضہ ان کے سپرد
کیا،یونہی ہمیں بھی خیر خواہی کرتے ہوئے
ایک دوسرے کی اصلاح کرنی چاہیے،اس سے فائدہ حاصل ہوتا ہے؛
چنانچہ اللہ پاک فرماتا ہے:وَّ
ذَكِّرْ فَاِنَّ الذِّكْرٰى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ(۵۵) ترجمہ:اور سمجھاؤ کہ سمجھانا مسلمانوں کو فائدہ
دیتا ہے۔(سورۃ الذاریات آیت 55)
اصلاح کرنا انتہائی نازک اور اہم کام ہے،اصلاح
کرنے کا انداز اگر اچھا ہو تو کسی کی نسلیں سنور سکتی ہیں، ورنہ نسلیں برباد بھی ہو سکتی
ہیں۔ ہر جگہ اصلاح کرنا ضروری نہیں ہوتا،کسی کو گناہ کرتا دیکھا اگر غالب گمان ہو
کہ منع کرنے سے باز آ جائے گا تو منع کرنا واجب،اگر یہ گمان ہو کہ گالیاں دے گا ،
فساد پیدا ہوگا تو منع نہ کرنا افضل(ملخص صراط الجنان ج 5 ص 402)
اصلاح زبان سے بھی ہو سکتی ہے اور لکھ کر بھی،لکھ
کر اصلاح کرنا زیادہ موثر ہے،پھر جیسی غلطی ویسا انداز۔
اصلاح کرنے کے لیے نیچے دیے گئی باتوں پر عمل کرنا
موثر ثابت ہو گا:
(1)اللہ
پا ک سے دعا کریں ، جیسے سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے فرعون اور اس کی قوم
کی اصلاح کے لیے دعا کی " رَبِّ اشْرَحْ لِیْ
صَدْرِیْۙ(۲۵)وَ یَسِّرْ لِیْۤ اَمْرِیْۙ(۲۶)وَ احْلُلْ عُقْدَةً مِّنْ لِّسَانِیْۙ(۲۷)یَفْقَهُوْا
قَوْلِیْ۪ (سورۃ طٰہ آیت 25,26,27,28)
ترجمہ:اے میرے رب میرے لیے میرا سینہ کھول دے ۔
اور میرے لیے میرا کام آسان کر۔ اور میری زبان کی گرہ کھول دے۔ کہ وہ میری بات
سمجھیں ۔
(2)جس کی اصلاح کرنی ہے اسے باور کرائیں کہ آپ
اس کے خیر خواہ ہیں۔
(3) اس کے دل میں نرم گوشہ پیدا کریں۔
(4) مزاج
کے مطابق بات کریں۔
(5)موقع کی مناسبت کا خیال کریں۔
(6)اصلاح کرتے ہوئے سامنے والے کی عزت
مجروح نہ کریں۔
(7)حکمت عملی اور نرم انداز سے اصلاح کریں۔ اللہ
پاک فرماتا ہے:اُدْعُ
اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ترجمہ:اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ پکی تدبیر اور
اچھی نصیحت سے۔(سورۃ النحل آیت 125
(8)خوبصورت انداز کیساتھ تنہائی میں اصلاح کریں کہ امام شافعی فرماتے ہیں:
"جو آدمی اپنے بھائی کو پوشیدہ طور پر سمجھاتا ہے وہ اسے نصیحت کرتا اور زینت
دیتا ہے اور جو اس کی لوگوں کے سامنے
اصلاح کرتا ہے اسے ذلیل کرتا اور عیب دار بناتا ہے۔"(احیاء العلوم ج 2 ص 660
مکتبۃ المدینہ)
اگر ان باتو ں کا خلاف کریں گے جیسا کہ آج کل
میڈیا وغیرہ کا سہارا لیا جاتا ہے اس سے سامنے والے کے دل میں نفرت اور ضد پیدا
ہوگی نتیجے میں بجائے اصلاح کے بگاڑ پیدا ہوگا۔ جس کی اصلاح کی جائے اسے یہ کام
کرنے چاہییں:
(1) اصلاح
کرنے والے کو اپنا محسن سمجھے کہ وہ تو اس کی ذات سے بری صفات اور بری عادات دور
کرنا چاہتا ہے۔
(2)اس کی بات کو توجہ سے سنے۔
(3)اس پر غور کرے اور اگر غلطی ہو تو تسلیم کرتے ہوئے اسے درست کرے۔
(4) اس
سے نہ الجھے کہ تم بھی تو فلاں فلاں غلطیاں کرتے ہو۔
(5)اصلاح
کرنے والے کا بہر صورت شکریہ ہی ادا کرنا چاہیے،بالفرض آج اگر اس کے درست بات کو
غلط سمجھ کر اصلاح کرنے پر ہم اس کا شکریہ ادا کریں گے تو کل اگر ہم غلطی کریں گے
تو وہ ہمیں ہماری غلطی بتائے گا، جس کا فائدہ بہرحال ہمیں ہی ہونا ہے،اس کے بر عکس
اگر اس کی غلط، غلطی نکالنے پر ہم اس کو غلط ثابت کرنے لگیں اور سامنے سے دلائل
دینا شروع کر دیں گے تو وہ خاموش تو ہو
جائے گا مگر آئندہ ہماری غلطی پر بھی ہمیں
مطلع نہیں کرے گا اور یوں نقصان ہمارا ہی ہوگا۔
اللہ پاک ہمیں حق بات قبول کرنے کی توفیق دے اور دین و دنیا کی بھلائیاں نصیب
فرمائے۔آمین