دل اگر کسی کی جانب مائل ہوجائے تو اسےمحبّت کہا
جاتا ہے اور یہی محبت اگر شدّت اختیار کرلےتو عشق کہلاتی ہے۔
عشق حقیقی سے مراداللہ و رسول ﷺ کی محبت کامل ہے، یہ
دولت بے بہا جس کے خزانہ دل میں جمع ہوجاتی ہے اسے فانی کائنات سے بیگانہ کردیتی
ہے، وہ ہمہ وقت محبوب کے تصوروجلوؤں میں گم رہتا ہے اور محبت و معرفت کی لذت میں
کھو کردنیا سے کنارہ کش ہوجاتا ہے،پھر وہ محبوب کی سنتا، محبوب کی مانتا اور اسی
کی چاہت پر چلتا ہے حتی کہ محبوب کے نام پر جان تک قربان کردیتا ہے۔
عشق الٰہی کے بعد سب سے بڑی نعمت عشق رسول ہے اور
حقیقت یہ ہے کہ عشق رسول کے بغیر بندۂ مومن کا گزارا ہوہی نہیں سکتا۔مومن تبھی
کامل مومن ہوتا ہے جب وہ ساری کائنات سے بڑھ کر سرور کائنات ﷺ سے محبت کرے۔
اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى
بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ (پ 21، الاحزاب: 6) ترجمہ
کنزالایمان:یہ نبی مسلمانوں کے ان کی جانوں سے زیادہ مالک ہیں۔
حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: اس وقت تک تم میں سے کوئی
مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنی اولاد اپنے ماں باپ بلکہ تمام جہان کے انسانوں سے
بڑھ کر مجھ سے محبت نہ کرے۔ (مسلم، ص 47، حدیث: 169)
محمد کی محبت دین کی شرط اول ہے اسی میں ہو اگر خامی تو سب
کچھ نا مکمل ہے
اعلی حضرت فرماتے ہیں: محبت بمعنی لغوی جب پختہ اور
موکدہ ہو جائے تو اسی کو عشق کہتے ہیں کیوں کہ محبت کا دوسرا نام عشق ہے۔ (فتاویٰ
رضویہ، 21/ 115)
پیارے آقا ﷺ سے عشق کے متعلق چند باتیں:
عشق
و محبت رسول وہ شفا ہے جس سے محروم شخص کا دل بیماریوں گھر بن جاتا ہے، عشق و محبت
رسول سے محروم شخص مردوں میں شمار ہوتا ہے، عشق و محبت رسول کی لذت سے جو آشنا
نہیں اس کی زندگی غموں اور تکالیف کا شکار رہتی ہے۔
ام المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے والد ابو سفیان جو کہ ابھی کفر کی حالت
میں تھے صلح حدیبیہ کے زمانے میں مکہ سے مدینہ شریف آئے اور اپنی بیٹی سے ملنے ان
کے گھر گئے اور اس بستر پر بیٹھنے لگے جس پر محبوب خدا بیٹھتے تھے حضرت ام حبیبہ
نے بستر فورا لپیٹ دیا اور فرمایا یہ اللہ کے محبوب پاک کا بستر ہے تم ناپاک ہو
کیونکہ تم مشرک ہو اس لئے تم اس پاک بستر پر نہیں بیٹھ سکتے یہ سن کر ابو سفیان کو
بے حد رنج ہوا اور اٹھ کر چلا گیا ام حبیبہ نے فرمایا باپ جاتا ہے تو جائے لیکن
دامن مصطفیٰ ہاتھ سے نہ جائے۔ (خطبات صمدانی، 2/325)
حضور ﷺ کی اونٹنی آپ کے ظاہری وصال کے بعد بے قرار
رہنے لگی اونٹنی نے کھانا پینا چھوڑ دیا اور اس طرح اس نے اپنی جان دے دی۔ (خطبات
صمدانی،2/333)