خدائے رحمن کا بہت بڑا احسان ہے کہ اُس نے ہمیں ماہِ رمضان جیسی عظیم الشان نعمت سے نوازا۔اس کی تو ہر گھڑی ہی رحمت بھری ہے ۔ماہِ رمضان میں انسان دن بھر اپنے نفس کو کھانے پینے اور خواہشات سے روک دیتا ہے۔ اللہ پاک باطنی عبادت کو پسند فرماتا ہے۔روزہ بھی باطنی عبادت ہے کیونکہ ہمارے بتائے بغیر کسی کو یہ علم نہیں ہوسکتا کہ ہمارا روزہ ہے۔اس ماہ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں اللہ پاک نے قرآنِ پاک نازل فرمایا۔چنانچہ پارہ 2 سورۂ بقرہ آیت نمبر 185 میں رمضان اور نزولِ قرآن کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا:شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَ الْفُرْقَانِۚ-فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُؕ-وَ مَنْ كَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَؕ-یُرِیْدُ اللّٰهُ بِكُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِكُمُ الْعُسْرَ٘-وَ لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰىكُمْ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ(۱۸۵)ترجمہ:رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اترا لوگوں کے لیے ہدایت اور رہنمائی اور فیصلہ کی روشن باتیں تو تم میں جو کوئی یہ مہینہ پائے ضرور اس کے روزے رکھے اور جو بیمار یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں اللہ تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر دشواری نہیں چاہتا اور اس لیے کہ تم گنتی پوری کرواور اللہ کی بڑائی بولو اس پر کہ اس نے تمہیں ہدایت کی اور کہیں تم حق گزار ہو۔

یہ وہی ماہِ مبارک ہے جس میں جنت کے دروازے کُھل جاتے ہیں۔نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ثواب ستر گنا کر دیا جاتا ہے۔ضبطِ نفس اور حرام سے بچنے پر قوت حاصل ہوتی ہے اور یہی وہ بنیادی چیز ہے کہ جس سے آدمی گناہوں سے رُکتا ہے۔(کتاب اے ایمان والو!،ص97)

حدیثِ پاک میں ہے: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:حضور ﷺ کا فرمان ہے:پانچوں نمازیں اور جمعہ اگلے جمعے تک اور ماہِ رَمضان اگلے ماہِ رَمضان تک گناہوں کا کفارہ ہیں جب تک کہ کبیرہ گناہوں سے بچا جائے۔(مسلِم،ص144،حدیث:233)

ماہِ رمضان کے فضائل سے کتبِ احادیث مالا مال ہیں ۔اس ماہ میں اس قدر برکتیں اور رحمتیں ہیں کہ ہمارے کریم آقا ﷺ نے یہاں تک ارشاد فرمایا کہ اگر بندوں کو معلوم ہوتا کہ رمضان کیا ہے تو میری اُمت تمنا کرتی کاش پورا سال رمضان ہی ہو ۔ (ابنِ خُزَیمہ،3/190،حدیث:1886)

رمضان میں پانچ حروف ہیں:ر،م،ض،ا، ن۔ ر سے مُراد رحمتِ الٰہی،م سے مُراد محبتِ الٰہی،ض سے مُراد ضمانِ الٰہی،الف سے مُراد امانِ الٰہی،ن سے مُراد نورِ الٰہی۔رمضان میں پانچ عبادات خصوصی ہوتیں ہیں: روزہ،تراویح،تلاوتِ قرآن،اِعتکاف اور شبِ قدر میں عبادت ۔تو جو کوئی سچے دل سے یہ پانچ عبادات کرے وہ ان پانچ انعاموں کا مستحق ہے ۔ (تفسیر نعیمی،2/208)

ماہِ رمضان میں ہمیں چاہیے کہ اللہ پاک کی عبادت اور اُس کی رضا والے کام کرکے مغفرت کی بھیک مانگیں اور ہر وہ عمل کریں جس میں ہمارے آقا ﷺ کی رضا ہو۔اگر اس مبارک مہینے میں بھی کوئی اپنی بخشش نہ کروا سکی تو کب کروائے گی! ہمارا جو معمول سارا سال ہوتا ہے وہی رمضان میں ہوتا ہے۔ بعض تو ایسی بھی ہیں جو روزہ تو رکھ لیتی ہیں مگر اُن کا ٹائم پاس نہیں ہوتا ۔لہٰذاوہ احترامِ رمضان اور اس کی رحمتوں اور برکتوں کو نظر انداز کرکے حرام و ناجائز کاموں کا سہارا لے کر وقت پاس کرتی ہیں۔ آئیے!ہمارے سردار محمد مصطفےٰ ﷺ کے رمضان گزرنے کے انداز کے متعلق پڑھتی ہیں:

آقا ﷺ عبادت پر کمر بستہ ہوجاتے:آخری نبی،محمد مصطفےٰ ﷺ اس ماہِ مبارک کی آمد کے ساتھ ہی عبادتِ خدا میں بہت زیادہ مگن ہوجاتے تھے۔چنانچہ مومنوں کی ماں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: جب ماہِ رمضان آتا تو میرے سرتاج،صاحبِ معراج ﷺ اللہ پاک کی عبادت کے لیے کمر بستہ ہوجاتے اور سارا مہینا اپنے بستر ِمُنَوَّر پر تشریف نہ لاتے ۔( تفسیر در منثور،1/449)

آقا ﷺ رمضان میں خوب دعائیں مانگتے تھے:حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا مزید فرماتی ہیں کہ جب رمضان کا مہینا تشریف لاتا تو حضورِ اکرم ﷺ کا رنگ مبارک متغیر( بدل) جاتا۔ آپ نماز کی کثرت فرماتے، خُوب گِڑگڑا کر دعائیں مانگتے اور اللہ پاک کا خوف آپ پر طاری رہتا۔

(شعب الایمان،2/210،حدیث: 2625)

لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ سحری اور بالخصوص افطار میں لازمی رب کی بارگاہ میں دعائيں مانگیں کہ اس وقت دعا رد نہیں کی جاتی ۔

آقا ﷺ رمضان میں خوب صدقہ خیرات کرتے:حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:جب ماہِ رمضان آتا تو غمگساروں کے آقا،سرکارِ مدینہ ﷺ ہر قیدی کو چھوڑ دیتے تھے اور ہر مانگتے کو دیتے تھے۔

(شعب الایمان،3/311، حدیث: 3629 )

یوں تو ہمیشہ آپ ہر ایک کو عطا فرماتے مگر ماہِ رمضان میں آپ کی سخاوت کا سمندر موجیں مارتا۔ اِس ماہِ مبارک میں صدقہ و خیرات کرنا بھی سنتِ مبارکہ ہے۔چنانچہ

سب سے بڑھ کر سخی: عبداللہ ابنِ عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:رسول اللہ ﷺ لوگوں میں سب سے بڑھ کر سخی ہیں اور سخاوت کا دریا اُس وقت جوش پر ہوتا جب رمضان میں آپ سے ملاقات کے لیے جبرائیل امین علیہ السلام حاضر ہوتے۔جبرائیل علیہ السلام ہر رات میں ملاقات کے لیے حاضر ہوتے اور رسولِ کریم ﷺ اُن کے ساتھ قرانِ عظیم کا دَور فرماتے۔پس رسول اللہ ﷺ تیز چلنے والی ہوا سے بھی زیادہ خیر کے معاملے میں سخاوت فرماتے ۔ ( بُخاری،1/ حدیث:6)

اللہ پاک کی عظیم نعمتوں میں روزہ جیسی نعمت بھی ہے،نیز سید المرسلین ﷺ کا ارشادِ پاک ہے:روزہ رکھو صحت یاب ہو جاو گے۔(معجم اوسط،6/146،حدیث:8312)

معلوم ہوا !روزہ رکھنا اجروثواب کے ساتھ ساتھ تندرستی کا بھی زریعہ ہے۔لہٰذا جہاں ہمیں روزے جیسی نعمت ملی تو ساتھ ہی قوت کے لیے سحری کی اجازت ہی نہیں بلکہ اس میں بھی ہمارے لیے ڈھیروں ثواب رکھ دیا ۔ہمارے آقا ﷺ اگرچہ کھانے پینے کے ہماری طرح محتاج نہیں،تاہم ہمارے پیارے آقا ﷺ ہم غلاموں کی خاطر سحری فرمایا کرتے اور سحری کے بغیر روزہ رکھنے والوں کو جان لینا چاہیے کہ سحری سنتِ مبارکہ ہے ۔چنانچہ نبیِ کریم ﷺ اپنے ساتھ جب کسی صحابی رضی اللہ عنہ کو سحری کھانے کے لیے بُلاتے تو ارشاد فرماتے: آؤ! برکت کا کھانا کھا لو۔(ابوداود،2/242،حدیث:2344)

اس کے علاوہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ پاک کے حبیب ﷺ نماز سے پہلے تر کھجوروں سے روزہ افطار فرماتے،تر کھجوریں نہ ہوتیں تو چند خشک کھجوریں یعنی چھوہاروں سے اور یہ بھی نہ ہوتیں تو چند چُلُّو پانی پیتے۔ ( ابوداود،2/447،حدیث:2365)لہٰذاہماری بھی پہلی کوشش یہ ہونی چاہیے کہ افطار میں کباب سموسوں اور بازاری چیزوں کے بجائے میٹھی تر کھجوریں مل جائیں کہ یہ ہمارے میٹھے آقا ﷺ کی میٹھی سنتِ مبارکہ ہے ۔

نوافل و اعتکاف:جب رمضان المبارک کے آخری دس دن آتے تو سرکارِ مدینہ ﷺ عبادت پر کمر باندھ لیتے،اِن میں راتوں کو جاگا کرتے اور اپنے اہل (یعنی گھر والوں) کو جگایا کرتے۔رمضان المبارک کے ماہِ محترم میں شبِ قدر سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے،اسے پانے کے لیے ہمارے آقا ﷺ نے ماہِ رمضان کا پورا مہینا بھی اعتکاف فرمایا اور آخری دس دن کا بہت اہتمام فرمایا،یہاں تک کہ ایک بار کسی عذر کے سبب اعتکاف نہ کر سکے تو شوال المکرم کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرمایا۔(بُخاری،1/671،حدیث:2041)اسی طرح ایک مرتبہ سفر کی وجہ سے آپ کا اعتکاف رہ گیا تو اگلے رمضان 20 دن کا اعتکاف فرمایا۔(تِرمذِی،2/ 212،حدیث:803 ملخصاً)آپ کی اسی سنتِ کریمہ کو زندہ رکھتے ہوئے اُمہات المومنین رضی اللہ عنہن بھی اعتکاف فرمایا کرتیں۔ہمیں بھی اگر ہر سال نہیں تو کم از کم زندگی میں ایک بار اس سنتِ مبارکہ پر عمل کی نیت سے اعتکاف کر لینا چاہیے کہ اعتکاف کرنے کا مقصد شبِ قدر کی تلاش بھی ہے ۔اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں اخلاص و آداب کے ساتھ فرض روزے رکھنے کی توفیق عطا فرمائے،پیارے آقا کریم ﷺ اور آپ کی سنتوں سے محبت عطا فرمائے اور مدینے میں جلد ہی رمضان دکھا ئے۔اللھم اٰمین