اللہ پاک نے ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معلم بنا کر مبعوث فرمایا۔ آپ علیہ الصلوٰۃ  والسلام کی دیگر صفات جس طرح بے مثل و بے مثال ہیں اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اندازِ تعلیم و تربیت بھی بے شمار خوبیوں کا جامع ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابہ کرام علیہم الرضوان کی تربیت فرماتے ہوئے مختلف انداز اختیار فرمایا کرتے جن میں سے ایک جامع انداز چیزوں کی تعداد بیان کر کے سمجھانا بھی ہے۔اس میں طویل بیان کی بجائے چند پوائنٹس بیان کر کے اپنا مقصد بیان کر دیا جاتا ہے جس سے سننے والوں کے لیے اسے یاد رکھنا آسان ہو جاتا ہے۔یہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تین چیزوں کے بیان سے تربیت فرمانے سے متعلق چند روایات پیش کی جا رہی ہیں:

حلاوتِ ایمان پانے کے لیے تین کام:ایمان کی لذت و حلاوت نصیب ہو جانا بہت بڑی نعمت ہے۔ اس کے حصول کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین چیزیں ارشاد فرمائیں:حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تین خصلتیں ایسی ہیں جس میں ہوں گی وہ ان کے سبب ایمان کی حلاوت پالے گا: (۱)جس کے نزدیک اللہ عزوجل اوراس کے رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم دوسروں سے زیادہ محبوب ہوں(۲)جو کسی بندے سے محبت کرے اور اس کی محبت صرف اللہ عزوجل کے لئے ہو اور (۳)وہ جو کفر میں لوٹنے کو اسی طرح ناپسند کرے جس طرح آگ میں ڈالے جانے کو ناپسند کرتا ہے۔(صحیح البخاری،کتاب الایمان،باب حلاوۃالایمان،الحدیث16،ج1،ص17)

مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث شریف کی شرح میں لکھتے ہیں:جیسےجسمانی غذاؤں میں مختلف لذتیں ہیں،ایسے ہی روحانی غذاؤں،ایمان و اعمال میں بھی مختلف مزے ہیں،اور جیسے ان غذاؤں کی لذتیں وہی محسوس کرسکتا ہےجس کے حواس ظاہری درست ہوں،ایسے ہی ان ایمانی غذاؤں کی لذتیں وہ ہی محسوس کرسکتا ہے جس کی روح درست ہو اور جیسے ظاہری حواس درست کرنے کی مختلف دوائیں ہیں،ایسے ہی ان حواس کے درست کرنے والی روحانی دوائیں ہیں۔اس حدیث میں ان ہی دواؤں کا ذکر ہے۔حضور جسمانی و روحانی حکیم مطلق ہیں۔جو ایمان کی حلاوت پالیتا ہے وہ بڑی بڑی مشقتیں خوشی سے جھیل لیتا ہے۔جاڑوں کی نماز،جہاد خنداں پیشانی سے ادا کرتا ہے،کربلا کا میدان اس حدیث کی زندہ جاوید تفسیر ہے،یہ لذت ہی ہر مشکل کو آسان کردیتی ہے،اسی سے رضا بالقضاء نصیب ہوتی ہے۔

” اس کی محبت صرف اللہ عزوجل کے لئے ہو “کے تحت لکھتے ہیں:یعنی بندوں سےمحض اس لیےمحبت کرے کہ رب راضی ہوجاوے،دنیاوی غرض اس میں شامل نہ ہو۔استاذ،شیخ،حتی کہ ماں باپ اولاد سے اس لئے محبت کرے کہ رضائے الٰہی کا ذریعہ ہیں اور سنت اسلام۔یہ محبت دائمی ہے،دنیاوی محبتیں جلد ٹوٹ جانے والی ہیں۔رب فرماتا ہے:"اَلْاَخِلَّآءُ یَوْمَئِذٍۭ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیۡنَ "۔(مرآۃ المناجیح ، ج1،ص30،ضیاءالقرآن پبلیکیشنز)

جنت میں داخلہ دلانے والے تین کام:ہر مسلمان چاہتا ہے کہ اسے جنت میں ابتداءً ہی داخلہ نصیب ہو جائے،آئے دیکھتے ہیں کہ اس حوالے سے کون سے تین کام ارشاد فرمائے گئے ہیں:نبی مکرم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا، ''تین خصلتیں جس میں ہوں گی اللہ عزوجل اس پر اپنی رحمت فرمائے گا اور اسے اپنی جنت میں داخل فرمائے گا (۱)کمزور پر نرمی کرنا (۲)والدین کے ساتھ شفقت (۳)مملوک(غلاموں/جانوروں )کے ساتھ احسان۔ (ترمذی ،کتا ب صفۃ القیامۃ، رقم 2494 ،ص 561)

”اسے اپنی جنت میں داخل فرمائے گا “ کے تحت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:شروع سے ہی بغیر سزا دیئے،ورنہ ہر مؤمن خواہ کتنا ہی گنہگار ہو آخر جنت میں ضرور جائے گا۔مزید فرماتے ہیں: کمزور خواہ جسمانی حیثیت سے کمزور ہو یا مالی حیثیت سے یا عقل سے کمزور جیسے بچے اور دیوانے بے وقوف ان پر مہربانی کرو، یوں ہی ماں باپ کی خدمت بھی کرو اور ان کی ناراضی سے خوف بھی۔ شفقت شفق سے بنا بمعنی خوف و ڈر،شفقت اور محبت یا مہربانی کو کہتے ہیں جس میں ڈر بھی ہو،مملوک میں لونڈی غلام جانور وغیرہ سب داخل ہیں یہ الفاظ بہت ہی جامع ہیں،احسان سے مراد حقوق سے زیادہ ان پر مہربانی کرنا۔ (مرآۃ المناجیح ، ج5،ص169،ضیاءالقرآن پبلیکیشنز)

حِلم (بُردباری)،تقو یٰ اورحسنِ اخلاق ضروری ہیں:رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :جس آدمی میں تین خصلتیں نہ ہوں وہ مجھ سے نہیں اوراللہ پاک کاایسے آدمی سے کوئی تعلق نہیں،عرض کی گئی :وہ کیا خصلتیں ہیں؟ارشاد فرمایا:(۱) ایسا حِلم جس کے ذریعے جاہل کی جہالت کو دور کیاجائے(۲) حسنِ اخلاق جس کے ذریعے لوگوں میں اچھے طریقے سے زندگی بسر کی جائے(۳) ایسا تقویٰ جو آدمی کو گناہوں سے بچائے ۔ (المعجم الأوسط،3/ 362،حدیث:4848)

پیارے اسلامی بھائیو!معلوم ہوا حِلم (بُردباری)،تقو یٰ اورحسنِ اخلاق اللہ تبارک وتعالیٰ اور اس کے رسول صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پسندیدہ عادتیں ہیں، ہمیں ان کے حصول کی کوشش کرنی چاہئے ، ہمارے مَدَنی آقاصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ہمیں اس کی دعا مانگنا بھی سکھائی ہے چنانچہ

حضورصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بارگاہ الٰہی میں دعاکرتے ہوئے عرض کی:اَللّٰھُمَّ اَغْنِنِیْ بِالْعِلْمِ وَزَیِّنِّیْ بِالْحِلْمِ وَاَکْرِمْنِیْ بِالتَّقْوٰی وَجَمِّلْنِیْ بِالْعَافِیَۃِ ترجمہ:اے اللہ پاک!مجھے علم کے ساتھ غنا،بُردبادی کے ساتھ زینت ،تقوی کے ساتھ عزت اور عافیت کے ساتھ زینت عطا فرما۔(کنز العمال،کتاب الاذکار، قسم الاقوال،۱/۸۱،جزء:۲،حدیث:۳۶۶۰)

صلہ رحمی اور معاف کر دینے کی فضیلت:حضرتِ سیِّدُنا ابو ہُریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے ،رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :تین باتیں جس شخص میں ہوں گی اللہ پاک (قیامت کے دن) اُس کا حساب بَہُت آسان طریقے سے لے گا اور اُس کو اپنی رَحمت سے جنّت میں داخِل فرمائے گا۔ صحابہ کرام عَلَیہِمُ الرِّضْوان نے عرض کی: یا رسولَ اللہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! وہ کون سی باتیں ہیں ؟فرمایا: {۱}جو تمہیں محروم کرے تم اُسے عطا کر واور{۲} جو تم سے قَطْعِ تعلُّق کرے(یعنی تعلُّق توڑے) تم اُس سے مِلاپ کرو (تعلق جوڑو)اور {۳} جو تم پر ظُلْم کرے تم اُس کومُعاف کردو۔ (اَلْمُعْجَمُ الْاَ وْسَط لِلطّبَرانی ج4ص18حدیث 5064دارالفکربیروت)

منافق کی علامات:

جھوٹ بولنا، وعدہ خلافی کرنا اور امانت میں خیانت کرنا ایسی بری عادات ہیں کہ ایسی عادات والے کو منافق فرمایا گیا ہے، چنانچہ پیارے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کاارشادِ پاک ہے : تین باتیں ایسی ہیں کہ جس میں ہوں گی وہ منافق ہوگا اگرچہ نماز،رو زہ کا پابند ہی ہو: (۱)جب بات کرے تو جھوٹ بولے(۲)جب وہ وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے (۳)جب امانت اس کے سپر د کی جائے تو خیانت کرے ۔ (صحیح مسلم،کتاب الایمان ،باب بیان خصال المنافق ،رقم 59، ص 50)