میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! وعظ ونصیحت حضرات انبیاء کرام ومرسلین عظام عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عظیم سنت ہے جس کوتمام نبیوں کے سَرْوَر ، سلطانِ بَحرو بَرصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے کمال کی بلندیوں پر پہنچایااورکیوں نہ ہوکہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام عالمین کے لیے رہبر و ہادی اور کتاب و حکمت سکھانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تمام اجزائے عالم اور جمیع اقسام موجودات کے لئے ہے خواہ وہ جمادات ونباتات ہوں یا حیوانات، آپ موجودات کے تمام ذرّوں اور کل کائنات کی تکمیل وتربیت فرمانے والے ہیں۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کیونکہ کل کائنات کی تکمیل و تربیت فرمانے والے ہیں ان تربیتی فرمودات میں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تین چیزوں کے بیان کے ساتھ تربیت فرمانا بھی ہے۔

(1) وہ تین چیزیں جن کا ثواب مرنے کے بعد بھی پہنچتا رہتا ہے:وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ -رَضِيَ اللهُ عَنْهُ- قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ -صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِذَا مَاتَ الإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أو عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهٖ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُوْا لَهٗ

ترجمہ:روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسولﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جب آدمی مرجاتا ہے تو اس کے عمل بھی ختم ہوجاتے ہیں سوائےتین اعمال کے (1) ایک دائمی خیرات (2) یا وہ علم جس سے نفع پہنچتا رہے (3) یا وہ نیک بچہ جو اس کے لیے دعائے خیر کرتا رہے۔ (کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:203)

(2) جس میں تین خصلتیں ہوں وہ ایمان کی لذت پالے گا:عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيْهِ وَجَدَ بِهِنَّ حَلَاوَةَ الْإِيمَانِ: مَنْ كَانَ اللّٰهُ وَرَسُولُهٗ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا وَمَنْ أَحَبَّ عَبْدًا لَا يُحِبُّهٗ إِلَّا لِلّٰهِ وَمَنْ يَكْرَهُ أَنْ يَعُودَ فِي الْكُفْرِ بَعْدَ أَنْ أَنْقَذَهُ اللّٰهُ مِنْهُ كَمَا يُكْرَهُ أَنْ يُلْقٰى فِي النَّارِ۔ترجمہ:حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جس میں تین خصلتیں ہوں وہ ایمان کی لذت پالے گا (1) الله و رسول تمام ماسوا سے زیادہ پیارے ہوں (2) جوبندے سےصرف الله کے لیے محبت کرے (3) جو کفر میں لوٹ جانا جب کہ رب نے اس سے بچالیا ایسا بُرا جانے جیسے آگ میں ڈالا جانا۔ (کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:8)

(3) منافق کی تین علامات: عَنْ اَبِيْ هُرَيْرَةَ اَنَّ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ اٰيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ اِذَا حَدَّثَ كَذَبَ وَاِذَا وَعَدَ اَخْلَفَ وَاِذَا اُؤْتُمِنَ خَانَ. ترجمہ: حضرتِ سَیِّدُنا ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : ’’منافق کی تین علامات(نشانیاں) ہیں : (1) جب بات کرے تو جھوٹ بولے (2)جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے اور(3) جب اسے امانت دی جائے تو خیانت کرے۔ (کتاب:فیضان ریاض الصالحین جلد:3 , حدیث نمبر:199)

(4) کسی مسلمان شخص کا خون حلال نہیں سوائے یہ کہ تین میں سے کوئی ایک وجہ پائی جائے: عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رَضيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ’’لَا یَحِلُّ دَمُ امْرِیٍٔ مُّسْلِـمٍ اِلَّا بِاِحْدٰی ثَلَاثٍ اَلثَّیِّبِ الزَّانِی وَالنَّفْسِ بِالنَّفْسِ وَالتَّارِکِ لِدِیْنِہِ الْمُفَارِقِ لِلْجَمَاعَۃ. ‘‘ترجمہ:حضرت سیِّدُنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسولِ پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا: کسی مسلمان شخص کا خون حلال نہیں سوائے یہ کہ تین میں سے کوئی ایک وجہ پائی جائے: (1)…شادی شدہ زانی، (2)… جان کے بدلے جان (قصاص) اور (3)… اپنے دین کو چھوڑ کر جماعت سے الگ ہونے والا۔‘‘ (بخاری، كتاب الديات، باب قول اللہ تعالٰى: ان النفس بالنفس...الخ، 4/ 361، حدیث:6878 ۔ مسلم، کتاب القسامة، باب ما یباح بہ دم المسلم، صفحہ710، حدیث:4375)

(5) چیزیں تین طرح کی ہیں: وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :الْأَمْرُ ثَلَاثَةٌ: أَمْرٌ بَيِّنٌ رُشْدُهُ فَاتَّبِعْهُ وَأَمْرٌ بَيِّنٌ غَيُّهُ فَاجْتَنِبْهُ وَأَمْرٌ اخْتُلِفَ فِيهِ فَكِلْهُ إِلَى اللهِ عَزَّ وَجَلَّ)ترجمہ: حضرت ابن عباس سے روایت ہے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چیزیں تین طرح کی ہیں ایک وہ جس کا ہدایت ہونا ظاہر اس کی تو پیروی کرو ایک وہ جس کا گمراہی ہونا ظاہر اس سے بچو ایک وہ جو مختلف ہے اسے اللہ کے حوالے کرو۔

حدیث کی مختصر شرح : مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کی شرح میں فرماتے ہیں یعنی احکام شرعیہ تین طرح کے ہیں:بعض یقینی اچھے جیسے روزہ،نماز وغیرہ۔بعض یقینًا بُرے جیسے اہل کتاب کے میلوں، ٹھیلوں میں جانا،ان سے میل جول کرنا۔اور بعض وہ ہیں جو ایک اعتبار سے اچھے معلوم ہوتے ہیں اور ایک اعتبار سے برے۔مثلًا وہ جن کے حلال و حرام ہونے کے دلائل موجود ہیں جیسے گدھے کا جوٹھا پانی جسے شریعت میں مشکوک کہا جاتا ہے یا جیسے قیامت کے دن کا تقرر اور کفار کے بچوں کا حکم وغیرہ ۔چاہیئے یہ کہ حلال پر بے دھڑک عمل کرے حرام سے ضرور بچے اور مشتبہات سے احتیاط کرے۔اس حدیث کا مطلب یہ نہیں کہ ایک حلال چیز کو کوئی شخص اپنی رائے سے حرام کہہ دے تو وہ شے مشتبہ بن جائے گی۔تمام مسلمان میلادوعرس وغیرہ کو حلال جانیں اور ایک آدمی اسے حرام جانے تو یہ چیزیں مشتبہ نہ ہوں گی بلکہ بلا دلیل حرام کہنے والے کا قول ردّہوگا۔ (کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:183)

یا رب العالمین ہمیں حضور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرما اور ہمیں برائی سے روکنے کی اور نیکی کی دعوت دینے کی توفیق عطا فرما اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے تمام عالم اسلام کے اوپر لطف و کرم فرما۔

امین ثم امین یا رب العالمین۔