حافظ محمد حماس (درجۂ خامسہ جامعۃُ المدینہ گلزار حبیب
سبزہ زار لاہور ، پاکستان)
اللہ پاک نے انبیاء کرام علیھم السلام کو مخلوق
کی ہدایت و رہنمائی کے لیے دنیا میں معبوث فرمایا (بھیجا( ان حضرات کی زندگیوں میں ہمارے لیے بہت رشد و ہدایت ہے۔ ان میں اللہ پاک
کے ایک نبی حضرت ایوب علیہ السلام بھی ہیں آپ علیہ السلام بھی ان انبیاء کرام
علیہم السلام میں سے ہیں کہ جن کا ذکر قرآن کریم میں آیا ہے۔
نام
و نسب: آپ عَلَيْهِ السلام کا نام
پاک ایوب“ ہے اور نسب ایوب بن اموص بن زارح بن عیص بن حضرت اسحاق عَلَيْهِ السلام
بن حضرت ابراہیم عَلَيْهِ السلام۔والدہ محترمہ حضرت لوط علیہ السلام کی اولاد میں
سے تھیں۔ زوجہ کا نام ”رحمت ہے اور یہ حضرت یوسف عَلَيْهِ السلام کے بیٹے افراہیم
کی شہزادی تھیں۔
حلیہ
مبارک:آپ علیہ السلام کے بال
گھنگریالے، خوبصورت کشادہ آنکھیں، شکل و صورت بہت حسین، گردن چھوٹی،سینہ چوڑا،
پنڈلیاں اور کلائیاں مضبوط اور قد مبارک لمبا تھا۔
مال
و دولت کی فراوانی: علماء تفسیر و
تاریخ فرماتے ہیں : حضرت ایوب عَلَيْهِ السَّلام کے پاس تمام انواع و اقسام کے
کثیر اموال تھے جن میں باندی غلام، مویشی اور دیگر جانور اور ثنیہ سے لے کر حوران
تک وسیع اراضی شامل ہے۔ یو نہی آپ عَلَيْهِ السَّلام کو کثیر اولاد بھی عطا ہوئی
تھی۔ ( سيرت الانبياء
(477
اوصاف:
آپ علیہ السلام انتہائی عمدہ اوصاف
کے مالک تھے ، جیسے مصائب و آلام پر بے حد صبر کرنے والے، بہت ہی اچھے بندے اور
اللہ کی طرف بہت رجوع کرنے والے تھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : إِنَّا
وَ جَدْ لَهُ صَابِرًا نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّةَ أَوَّابٌ [ ص آیت
[44 ترجمہ: کنزالعرفان : بے شک ہم نے
اسے صبر کرنے والا پایا۔ وہ کیا ہی اچھا بندہ ہے بیشک وہ بہت
رجوع لانے والا ہے۔ خطیب بغدادی رَحْمَةُ اللهِ
عَلَيْہ فرماتے ہیں: حضرت ایوب عَلَيْهِ السلام مسکینوں پر رحم کرتے ، یتیموں کی
کفالت فرماتے ، بیواؤں کی امداد کرتے ، مہمانوں کے ساتھ عزت و تکریم اور خندہ
پیشانی سے پیش آتے، مسافروں کی خیر خواہی کیا کرتے، اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر اس
کا شکر ادا کرتے اور حقوق الہی کامل طریقے سے ادا کرتے تھے۔
قرآن
مجید میں آپ کا تذکرہ: ارشاد باری
تعالیٰ ہے۔ اِنَّاۤ
اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ كَمَاۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى نُوْحٍ وَّ النَّبِیّٖنَ مِنْۢ بَعْدِهٖۚ-وَ
اَوْحَیْنَاۤ اِلٰۤى اِبْرٰهِیْمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ
الْاَسْبَاطِ وَ عِیْسٰى وَ اَیُّوْبَ وَ یُوْنُسَ وَ هٰرُوْنَ وَ سُلَیْمٰنَۚ-وَ اٰتَیْنَا
دَاوٗدَ زَبُوْرًا( الانعام(163 ترجمہ: کنزالعرفان : بیشک اے حبیب! ہم نے تمہاری
طرف وحی بھیجی جیسے ہم نے نوح اور اس کے بعد پیغمبروں کی طرف بھیجی اور ہم نے
ابراہیم اور اسمٰعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان کے بیٹوں اور عیسیٰ اور ایوب اور
یونس اور ہارون اور سلیمان کی طرف وحی فرمائی اور ہم نے داؤد کو زبور عطا فرمائی حضرت
ایوب علیہ السلام پر آزمائش حضرت ایوب علیه السلام بہت مالدار ، صحت مند اور کثیر
اولاد والے تھے، اللہ تعالیٰ نے آپ عَلَيْهِ السلام کو آزمائش میں مبتلا کیا،
چنانچہ آپ کی اولاد مکان گرنے سے دب کر فوت ہو گئی، باندی غلام بھی ختم ہو گئے ،
تمام جانور جس میں ہزارہا اونٹ اور ہزارہا بکریاں تھیں، سب مر گئے۔ تمام کھیتیاں
اور باغات برباد ہو گئے حتی کہ کچھ بھی باقی نہ رہا۔
ان کٹھن حالات میں آپ عَلَيْهِ السلام کا مقدس
طرز عمل یہ رہا کہ جب آپ علیہ السلام کو ان چیزوں کے ہلاک اور ضائع ہونے کی خبر دی
جاتی تو آپ اللہ تعالیٰ کی حمد بجالاتے اور فرماتے تھے ”میرا کیا ہے ! جس کا تھا
اس نے لیا، جب تک اس نے مجھے دے رکھا تھا میرے پاس تھا، جب اس نے چاہا لے لیا۔ اس
کا شکر ادا ہو ہی نہیں سکتا اور میں اس کی مرضی پر راضی ہوں۔“ اس کے بعد آپ
عَلَيْهِ السَّلام جسمانی آزمائش میں مبتلا ہو گئے ، جسم کے کچھ حصہ پراور تمام بدن مبارک زخموں سے بھر گیا۔ اس حال میں سب لوگوں نے چھوڑ
دیا البتہ آپ کی زوجہ محترمہ رحمت بنت افرائیم نے نہ چھوڑا اور وہ آپ کی خدمت کرتی
رہیں۔ (قصص الانبیاء/علامہ ابن کثیر (316)
قرآن کریم میں
ہے: وَ
اَیُّوْبَ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗۤ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ
الرّٰحِمِیْنَ(83)فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ فَكَشَفْنَا مَا بِهٖ مِنْ ضُرٍّ وَّ
اٰتَیْنٰهُ اَهْلَهٗ وَ مِثْلَهُمْ مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَ ذِكْرٰى
لِلْعٰبِدِیْنَ(84) سورة الانبياء ترجمہ: کنزالعرفان :اور ایوب کو
(یاد کرو) جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ بیشک مجھے تکلیف پہنچی ہے اور تو سب رحم
کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔تو ہم نے اس کی دعا سن لی توجو اس پر تکلیف تھی
وہ ہم نے دور کردی اور ہم نے اپنی طرف سے رحمت فرماکر اور عبادت گزاروں کو نصیحت
کی خاطر ایوب کو اس کے گھر والے اور ان کے ساتھ اتنے ہی اور عطا کردئیے۔
تفسیر صراط
الجنان میں ہے:
حضرت ایوب
عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بیماری کےبارے میں علامہ عبد المصطفٰی اعظمی
رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’عام طور پر لوگوں میں مشہور ہے کہ
مَعَاذَ اللہ آپ کو کوڑھ کی بیماری ہو گئی تھی۔ چنانچہ بعض غیر معتبر کتابوں میں
آپ کے کوڑھ کے بارے میں بہت سی غیر معتبر داستانیں بھی تحریر ہیں، مگر یاد رکھو کہ
یہ سب باتیں سرتا پا بالکل غلط ہیں اور ہر گز ہرگز آپ یا کوئی نبی بھی کبھی کوڑھ
اور جذام کی بیماری میں مبتلا نہیں ہوا، اس لئے کہ یہ مسئلہ مُتَّفَق علیہ ہے کہ
اَنبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام کا تمام اُن بیماریوں سے محفوظ رہنا ضروری ہے جو
عوام کے نزدیک باعث ِنفرت و حقارت ہیں ۔ کیونکہ انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام کا یہ
فرضِ منصبی ہے کہ وہ تبلیغ و ہدایت کرتے رہیں تو ظاہر ہے کہ جب عوام ان کی
بیماریوں سے نفرت کر کے ان سے دور بھاگیں گے تو بھلا تبلیغ کا فریضہ کیونکر ادا ہو
سکے گا؟ الغرض حضرت ایوب عَلَیْہِ السَّلَام ہرگز کبھی کوڑھ اور جذام کی بیماری
میں مبتلا نہیں ہوئے بلکہ آپ کے بدن پر کچھ آبلے اور پھوڑے پھنسیاں نکل آئی تھیں
جن سے آپ برسوں تکلیف اور مشقت جھیلتے رہے اور برابر صابر و شاکر رہے۔
یونہی بعض
کتابوں میں جو یہ واقعہ مذکور ہے کہ بیماری کے دوران حضرت ایوب عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے جسم مبارک میں کیڑے پیدا ہو گئے تھے جو آپ کا جسم شریف
کھاتے تھے، یہ بھی درست نہیں کیونکہ ظاہری جسم میں کیڑوں کا پیدا ہونا بھی عوام کے
لئے نفرت و حقارت کا باعث ہے اور لوگ ایسی چیز سے گھن کھاتے ہیں ۔لہٰذا خطباء اور
واعظین کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے پیارے نبی حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام کی طرف ایسی چیزوں کو منسوب نہ کریں جن سے لوگ نفرت کرتے ہوں اور وہ
منصبِ نبوت کے تقاضوں کے خلاف ہو۔
آپ
علیہ السلام پر احسانات الٰہی: آپ
علیہ السلام کو ہدایت ،صلاح اور ان کے زمانے کے تمام جہان والوں پر فضیلت
بخشی،مقام نبوت پر فائز فرمایا اور صراط مستقیم کی طرف ہدایت بخشی ۔ ارشاد باری
تعالی ہے : وَ
وَهَبْنَا لَهٗۤ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَؕ-كُلًّا هَدَیْنَاۚ-وَ نُوْحًا هَدَیْنَا
مِنْ قَبْلُ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِهٖ دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ وَ اَیُّوْبَ وَ یُوْسُفَ
وَ مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَؕ-وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ(84)وَ زَكَرِیَّا وَ
یَحْیٰى وَ عِیْسٰى وَ اِلْیَاسَؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِیْن(85)َ
وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ یُوْنُسَ وَ
لُوْطًاؕ-وَ كُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعٰلَمِیْنَ(86)وَ مِنْ اٰبَآىٕهِمْ وَ ذُرِّیّٰتِهِمْ
وَ اِخْوَانِهِمْۚ-وَ اجْتَبَیْنٰهُمْ وَ هَدَیْنٰهُمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْم(87)ٍ
ترجمہ:
کنزالعرفان اور ہم نے انہیں اسحاق اور یعقوب عطا کیے۔ ان سب کو ہم نے ہدایت دی اور
ان سے پہلے نوح کو ہدایت دی اور اس کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان اور ایوب اور
یوسف اور موسیٰ اور ہارون کو(ہدایت عطا فرمائی) اور ایسا ہی ہم نیک لوگوں کو بدلہ
دیتے ہیں ۔ اور زکریا اور یحییٰ اور عیسیٰ اور الیاس کو (ہدایت یافتہ بنایا) یہ سب
ہمارے خاص بندوں میں سے ہیں ۔ اور اسماعیل اور یَسَع اور یونس اور لوط کو (ہدایت
دی)اور ہم نے سب کو تمام جہان والوں پر فضیلت عطا فرمائی۔ اور ان کے باپ دادا اور
ان کی اولاد اور ان کے بھائیوں میں سے (بھی) بعض کو (ہدایت دی) اور ہم نے انہیں چن
لیا اور ہم نے انہیں سیدھے راستے کی طرف ہدایت دی۔( سورة
الانعام/آیت84تا87)
حضرت
ایوب علیہ السلام کی دعا:آزمائش و
امتحان کی گھڑی میں اور ایام بیماری کے دوران جب آپ نے دعا کی تو اللہ تعالیٰ اپنی
رحمت سے اسے قبول فرمایا، آپ کی تکلیف دور کر دی اور پہلے سے بھی زیادہ مال و دولت
اور اولاد کی نعمت سے نوازا۔ارشاد باری تعالی ہے : فَاسْتَجَبْنَا
لَهٗ فَكَشَفْنَا مَا بِهٖ مِنْ ضُرٍّ وَّ اٰتَیْنٰهُ اَهْلَهٗ وَ مِثْلَهُمْ
مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَ ذِكْرٰى لِلْعٰبِدِیْن(85)َ ترجمہ کنزالعرفان: تو ہم نے اس کی دعا سن لی
توجو اس پر تکلیف تھی وہ ہم نے دور کردی اور ہم نے اپنی طرف سے رحمت فرماکر اور
عبادت گزاروں کو نصیحت کی خاطر ایوب کو اس کے گھر والے اور ان کے ساتھ اتنے ہی اور
عطا کردئیے۔ (سورة الانبياء آیت 85)
بیماری
سے شفاء یابی: اللہ تعالیٰ نے حضرت
ایوب علیہ السلام کی دعا قبول فرمالی اور انہیں جو تکلیف تھی وہ اس طرح دور کر دی
کہ آپ علیہ السلام سے فرمایا: زمین پر پاؤں مارو۔ انہوں نے پاؤں مارا تو ایک چشمہ
ظاہر ہوا۔ حکم دیا گیا کہ اس سے غسل کریں۔ آپ نے غسل کیا تو بدن کے ظاہری حصے کی
تمام بیماریاں دور ہو گئیں، پھر آپ چالیس قدم چلے تو دوبارہ زمین پر پاؤں مارنے کا
حکم ہوا۔ آپ نے پھر پاؤں مارا تواس سے بھی ایک چشمہ ظاہر ہوا جس کا پانی بہت ٹھنڈا
تھا۔ حکم الہی سے آپ علیہ السلام نے یہ پانی پیا تو اس سے بدن کے اندر کی تمام
بیماریاں دور ہو گئیں اور آپ علیہ السلام کو اعلی درجے کی صحت و تندرستی حاصل ہوئی۔ ارشاد باری تعالی ہے : اُرْكُضْ بِرِجْلِكَۚ-هٰذَا
مُغْتَسَلٌۢ بَارِدٌ وَّ شَرَاب(42)ٌ ترجمہ: کنزالعرفان۔ (ہم نے فرمایا:) زمین پر اپنا پاؤں مارو۔یہ نہانے اور
پینے کیلئے پانی کا ٹھنڈا چشمہ ہے۔ (سورة ص آیت 42)
یہاں یہ بھی
یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی بارگاہ کے مقرب بندوں کو آزمائش و امتحان میں مبتلا
فرماتا ہے اور ان کی آزمائش اس بات کی دلیل نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سے ناراض ہے
بلکہ یہ ان کی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عزت و قرب کی دلیل ہے۔ حضرت سعد رَضِیَ
اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : میں نے عرض کی: یا رسولَ اللہ!صَلَّی اللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، لوگوں میں سب سے زیادہ آزمائش کس پر ہوتی
ہے؟ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا
’’انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی، پھر درجہ بدرجہ مُقَرَّبِین
کی۔ آدمی کی آزمائش اس کے دین کے مطابق ہوتی ہے، اگر وہ دین میں مضبوط ہو تو سخت
آزمائش ہوتی ہے اور اگر وہ دین میں کمزور ہو تو دین کے حساب سے آزمائش کی جاتی
ہے۔ بندے کے ساتھ یہ آزمائشیں ہمیشہ رہتی ہیں یہاں تک کہ وہ زمین پر ا س طرح چلتا
ہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔ (ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی الصبر علی
البلاء، 4 / 179، الحدیث: 2406)
حضرت انس
رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بڑا ثواب بڑی مصیبت کے ساتھ ہے،اور
جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کے ساتھ محبت فرماتا ہے تو انہیں آزماتا ہے،پس جو اس پر
راضی ہو اس کے لئے(اللہ تعالیٰ کی )رضا ہے اور جو ناراض ہو اس کے لئے ناراضی
ہے۔(ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی الصبر علی البلاء، 4 / 178، الحدیث 2404)