اللہ پاک نے اس کائنات کو پیدا فرمایا اور اس میں بنی نوع انسان کو پیدا فرمایا ۔ اور انسانوں کیلئے طرح طرح کی نعمتیں عطا فرمائیں ۔ جن سے وہ شب و روز میں لطف اندوز ہوتا ہے۔ لیکن ان نعمتوں میں انتہا تک کھو جانا اور رضائے الہٰی کے کاموں کو چھوڑ دینا ، اور اپنی مرضی سے ان میں تصرف کرنا، اور ایسے اقوال و افعال بجا لانا کہ جو انسان کو ھدایت سے گمراہی کی طرف، فرمانبرداری سے نافرمانی کی طرف لے گئے۔ اور ایسا مختلف ادوار میں مختلف انداز میں ہوتا رہا یعنی انسان اپنی من مانیوں اور رب کی نافرمانیوں کو کرتا رہا۔ ایسے میں اللہ پاک نے انسانوں کی رشدوہدایت ہدایت، اصلاح و نصیحت کیلئے انبیاء کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا۔ اور راہ نمائی کا یہ سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا اور چلتا رہا ۔ مختلف قوموں میں مختلف ادوار میں کئ انبیاء کرام علیہم السلام لوگوں کی ھدایت کیلئے تشریف لائے انھی میں سے ایک حضرت ایوب علیہ السلام بھی ہیں ۔

مختصر تعارف: آپ علیہ السلام حضرت اسحاق علیہ السلام کے بیٹے 'عیص' کی نسل سے ہیں۔آپ علیہ السلام کا نام پاک "ایوب" ہے۔ اور نسب نامہ کے متعلق مختلف اقوال ہیں جن میں سے ایک یہ ہے۔ ایوب بن اموص بن زارح بن عیص بن اسحاق علیہ السلام بن ابرھیم علیہ السلام ۔ اور والدہ ماجدہ کا تعلق حضرت لوط علیہ السلام کے خاندان سے ہے ۔ زوجہ کا نام ''رحمت'' ہے اور یہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بیٹے فرائیم کی شہزادی تھیں۔

اللہ تعالی نے آپ علیہ السلام کو ہر قسم کے اموال، مویشی ، چوپائے ، باندی، غلام ، کھیت، باغات ، اور وسیع و عریض زمین کے علاوہ کئ بیویوں اور کثیر اولاد سے نوازا تھا۔مال و دولت، راحت و آرام، صحت و تندرستی کے ان ایام میں بھی آپ علیہ السلام تقوی اور پرہیز گاری کے اعلیٰ درجے پر فائز ، ذکر الہٰی میں مشغول اور متوجہ الی اللہ رہے۔نعمتوں پر شکر الٰہی ادا کرتے رہے۔(سیرت الانبیاء، 476)

قرآن کریم میں جہاں دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کا ذکر مبارک ہے ، وہیں حضرت ایوب علیہ السلام کا بھی ذکر مبارک، ان کے کمالات اور اوصاف کا بھی تذکرہ ملتا ہے۔

حضرت ایوب علیہ السلام کی قرآنی صفات کا تذکرہ: آپ علیہ السلام انتہائ عمدہ صفات کے مالک تھے۔ جیسے (1تا3) آپ علیہ السلام مصائب و آلام پر بے حد صبر کرنے والے، بہت ہی اچھے بندے اور اللہ کی طرف رجوع کرنے والے تھے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اِنَّا وَجَدْنٰهُ صَابِرًا ط نِعْمَ الْعَبْدُ ط اِنَّهٗۤ اَوَّابٌ (44) (ترجمہ کنزالایمان):

بے شک ہم نے اسے صابر پایا کیا اچھا بندہ بے شک وہ بہت رجوع لانے والا ہے۔ ( پارہ 23 ، سورۃ ص :44 )

تفسیر روح المعانی میں ہے۔:{اِنَّا وَجَدْنٰهُ صَابِرًا: بے شک ہم نے اسے صبر کرنے والا پایا۔} یعنی بے شک ہم نے حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جان، اولاد اور مال میں آزمائش پر صبر کرنے والا پایا اور اس آزمائش نے انہیں اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے نکل جانے اور کسی مَعصِیَت میں مبتلا ہو جانے پر نہیں ابھارا۔ وہ کیا ہی اچھا بندہ ہے بیشک وہ اللہ تعالیٰ کی طرف بہت رجوع لانے والا ہے۔( تفسیرطبری، ص، تحت الآیۃ: ۴۴، ۱۰ / ۵۹۱، بیضاوی، ص، تحت الآیۃ: ۴۴، ۵ / ۴۹، ملتقطاً)

حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام قیامت کے دن صبر کرنے والوں کے سردار ہوں گے۔( ابن عساکر، ذکر من اسمہ: ایوب، ایوب نبیّ اللہ، ۱۰ / ۶۶)

آپ علیہ السلام کو اللہ پاک نے ہدایت، صلاح ، اور ان کے زمانے میں تمام جہان والوں پر فضیلت بخشی، نیک لوگوں میں شمار کیا ، بطور خاص نبوت کیلئے منتخب فرمایا اور صراط مستقیم کی طرف ہدایت بخشی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَ وَهَبْنَا لَهٗۤ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ ط كُلًّا هَدَیْنَا ج وَ نُوْحًا هَدَیْنَا مِنْ قَبْلُ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِهٖ دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ وَ اَیُّوْبَ وَ یُوْسُفَ وَ مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَ ط وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ(84)وَ زَكَرِیَّا وَ یَحْیٰى وَ عِیْسٰى وَ اِلْیَاسَ ط كُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(85) وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ یُوْنُسَ وَ لُوْطًا ط وَ كُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعٰلَمِیْنَ(86)وَ مِنْ اٰبَآىٕهِمْ وَ ذُرِّیّٰتِهِمْ وَ اِخْوَانِهِمْ ج وَ اجْتَبَیْنٰهُمْ وَ هَدَیْنٰهُمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ(87) (ترجمہ کنزالایمان): اور ہم نے انہیں اسحق اور یعقوب عطا کیے ان سب کو ہم نے راہ دکھائی اور ان سے پہلے نوح کو راہ دکھائی اور اس کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسیٰ اور ہارون کو اور ہم ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں نیکوکاروں کو۔اور زکریا اور یحییٰ اور عیسیٰ اور الیاس کو یہ سب ہمارے قرب کے لائق ہیں۔اور اسمٰعیل اور یسع اور یونس اور لوط کو اور ہم نے ہر ایک کو اس کے وقت میں سب پر فضیلت دی۔اور کچھ ان کے باپ دادا اور اولاد اور بھائیوں میں سے بعض کو اور ہم نے انہیں چن لیا اور سیدھی راہ دکھائی۔ (پارہ 7 ، سورۃ الانعام : 84-87)

حضرت ایوب علیہ السلام کی دعائیں: قرآن کریم میں آپ علیہ السلام کی دعاؤں کا بھی ذکر ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں سورۃ الانبیاء میں ہے؛ وَ اَیُّوْبَ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗۤ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ(83) (ترجمہ کنزالایمان): اور ایوب کو جب اس نے ا پنے رب کو پکارا کہ مجھے تکلیف پہنچی اور تو سب مِہر والوں سے بڑھ کر مِہر والا ہے۔ (سورۃ الانبیاء، پارہ 27 ، آیت: 83)

اور ایک اور جگہ قرآن کریم میں ہے۔ وَ اذْكُرْ عَبْدَنَاۤ اَیُّوْبَ م اِذْ نَادٰى رَبَّهٗۤ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الشَّیْطٰنُ بِنُصْبٍ وَّ عَذَابٍ ط (41) (ترجمہ کنزالایمان): اور یاد کرو ہمارے بندہ ایوب کو جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے شیطان نے تکلیف اور ایذا لگادی۔ ( سورۃ ص، پارہ 23، آیت :41)

ایک قول یہ ہے کہ تکلیف اور ایذا سے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بیماری اور اس کے شَدائد مراد ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد بیماری کے دوران شیطان کی طرف سے ڈالے جانے والے وسوسے ہیں جو کہ ناکام ہی ثابت ہوئے۔

حضرت ایوب علیہ السلام کی پہلی دعا سے معلوم ہوا کہ اللہ عزوجل کی بارگاہ میں اپنی حاجت پیش کرنا بھی دعا ہے، اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بھی دعا ہے۔ دعا کے وقت اللہ تعالیٰ کی حمد کرنا انبیاء کرام عَلَيْهِمُ السَّلام کی سنت ہے۔ دعا میں اللہ تعالیٰ کی ایسی حمد کرنی چاہیے جو دعا کے موافق ہو، جیسے رحمت طلب کرتے وقت رحمن و رحیم کہہ کر پکارے۔(از سیرت الانبیاء، 481 )

حضرت ایوب علیہ السلام کی سیرت مبارکہ کے بہت سے خوبصورت پہلو ہیں ، جو قرآن کریم کی تفاسیر کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہونگے اور اس حوالے سے مزید ، عصر جدید کے تقاضوں کے مطابق لکھی جانے والی تفسیر '' تفسیر صراط الجنان'' اور کتاب "سیرت الانبیاء" کا مطالعہ نہایت مفید ہے۔

اللہ کریم سے دعا ہے ہمیں سیرت انبیاء علیہم السلام کا مطالعہ کرنے، اسے سمجھنے اور عمل پیرا یونے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔