حرمین طیبین کے حقوق از بنت محمد خلیل، فیضان
ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ
یقینا حرمین طیبین کی حاضری ہر مسلمان کی خواہش ہوتی
ہے اور کئی خوش نصیب اس سعادت سے بہرہ مند ہوتے ہیں لیکن جس مسلمان کو یہاں حاضری کی
سعادت ملے تو اسے غافل نہیں ہونا چاہئے کہ کہیں اس کی کوئی غلطی زندگی بھر کے لئے محرومی
کا سبب نہ بن جائے بلکہ اسے چاہیے کہ وہ حرمین طیبین کے حقوق کو ملحوظ رکھے۔ حرمین
طیبین کے کئی حقوق ہیں۔ ان حقوق میں سے چند درج ذیل ہیں:
صبر کرنا: مکہ معظمہ میں
گرمی بہت زیادہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے آزمائش کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے لیکن وہاں کی
گرمی بھی بڑی برکت والی ہے اس پر صبر کرنے کے حوالے سے حضور ﷺ نے فرمایا: جو شخص دن
کے کچھ وقت مکے کی گرمی پر صبر کرے جہنم ک آگ اس سے دور ہو جاتی ہے۔ (اخبار مکہ، 2/311،
حدیث: 1565)
یونہی مدینۂ منورہ جس طرح اتنی برکتوں رحمتوں والا
مقدس شہر ہے اس میں انسان قلبی سکون و اطمینان محسوس کرتا ہے وہیں اگر کوئی آزمائش
و پریشانی نیکیوں میں اضافہ کرنے کے لئے تشریف لے آئے تو اس پر صبر کرنے والے کے لئے
بہت بڑی بشارت ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا جو کوئی میرا امتی مدینے کی تکلیف اور سختی پر
صبر کرے گا میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں گا۔ (مسلم، ص548، حدیث: 3339)
درخت کاٹنے کی ممانعت: حرم مکہ و مدینہ کے حقوق میں سے
یہ بھی ہے کہ ان میں موجود درخت نہ کاٹے جائیں چنانچہ نبیّ کریم ﷺ نے فرمایا: وہاں
کے درخت نہ کاٹے جائیں۔ (مراة المناجیح،4/201)
حرم مدینہ کے بارے میں حضور ﷺ نے فرمایا: مدینہ یہاں
سے وہاں تک حرم ہے لہٰذا اس کے درخت نہ کاٹے جائیں۔
گناہوں سے بچنا: جس طرح ہر جگہ
گناہوں سے بچنا ضروری ہے اسی طرح حرمین طیبین میں گناہوں سے بچنا انتہائی ضروری ہے
جس طرح کہ ملفوظات اعلی حضرت میں ہے مکہ معظمہ میں جس طرح ایک نیکی لاکھ نیکیوں کے
برابر ہے اسی طرح ایک گناہ ایک لاکھ گناہ کے برابر ہے بلکہ وہاں پر تو گناہ کے ارادے
پر بھی گرفت ہے۔ (ملفوظات اعلی حضرت، ص 236)
عیب جوئی نہ کرنا: مکہ
مکرمہ و مدینہ منورہ کی ہر چیز نفیس و عمدہ و اعلیٰ ہے اس میں کسی عیب و نقص کا شبہ
تک نہیں، اگر بالفرض طبعی طور پر کوئی چیز پسند نہ آئے تو اس میں عیب جوئی کی بجائے
اپنی آنکھوں کا دھوکا وعقل کی کمی سمجھے وگرنہ اس کی بڑی سخت سزا ہے۔ حضرت امام مالک
رضی اللہ عنہ نے مدینۂ پاک کی مبارک مٹی کو خراب کہنے والے کے لئے 30 کوڑےلگانے اور
قید میں ڈالے جانے کا فتویٰ دیا۔ (الشفاء، 2/57)
جس خاک پہ رکھتے تھے قدم سید عالم اس خاک پہ قرباں دل شیدا
ہے ہمارا
حرم میں بے دینی نہ پھیلائی جائے: حضرت
ابن عباس سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا الله کی بارگاہ میں تین
شخص ناپسند ترین ہیں: حرم میں بے دینی کرنے والا اسلام میں جاہلیت کے طریقے کا متلاشی
مسلمان کے خون ناحق کا جویاں تاکہ اس کی خونریزی کرے۔ (مراۃ المناجیح، 1/140)
شرح حدیث: بدعقیدہ اور گنہگار
دونوں ملحد ہیں، یعنی حدود مکہ مکرمہ میں گناہ کرنے والا یا گناہ پھیلانے والا یا بدعقیدگی
اختیار کرنے والا یا رائج کرنے والا کہ اگرچہ یہ حرکتیں ہر جگہ ہی بری ہیں مگر حرم
شریف میں بہت زیادہ بری کہ اس مقام کی عظمت کے بھی خلاف ہے اور جیسے حرم میں ایک نیکی
کا ثواب ایک لاکھ ایسے ہی ایک گناہ کا عذاب بھی ایک لاکھ ہے اسی لیئے حضرت ابن عباس
نے مکہ چھوڑکر طائف میں قیام کیا۔ (مراۃ المناجیح، 1/142)
اس کے علاوہ بھی حرمین طیبین کے کئی حقوق ہیں مثلا وہاں
کے لوگوں سے حسن سلوک کرنا، وہاں کے تبرکات کو نقصان نہ پہنچانا، ہر وقت زبان کو ذکر
و درود سے تر رکھنا،خشوع و خضوع قائم رکھنا۔