حاکم کی ضرورت: اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو مٹی سے پیدا فرمایا ،اس کے بعد آپ کی اولاد کو ،دنیا کو آخرت کی تیاری کے لیے پیدا فرمایا تاکہ دنیا میں وہ عمل کیا جائے جو سفر آخرت کے لیے زاد راہ بن سکے لہذا اگر لوگ عدل وانصاف کے ساتھ دنیا میں رہتے تو نہ جھگڑوں کی نوبت آتی لیکن انھوں نے اس میں خواہشات کے مطابق عمل کیے جس سے جھگڑوں نے جنم لیا تو حاکم کی ضرورت پیش آئی جو ان کے معاملات کو سنبھالے ۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰهِ شُهَدَآءَ بِالْقِسْطِ٘-وَ لَا یَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰۤى اَلَّا تَعْدِلُوْاؕ-اِعْدِلُوْا-هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى٘-وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ المائدہ :5 آیت (8) ترجمہ کنزالایمان: اے ایمان والو اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ انصاف کے ساتھ گواہی دیتے اور تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ انصاف نہ کرو، انصاف کرو، وہ پرہیزگاری سے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو، بیشک اللہ کو تمہارے کامو ں کی خبر ہے۔

حدیث مبارکہ

ترجمہ : حضرتِ سَیِّدُنا ابو سعید حسن بصریرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ سے روایت ہے کہ حضرتِ سَیِّدُنا عائذ بن عَمْرورَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ُعُبَیْدُاللہ بن زیاد کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا : ’’اے لڑکے! میں نے حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو یہ فرماتے سناہے کہ : بدترین حاکم وہ ہیں جو ظلم و زیادتی کرتے ہیں۔ لہذا تو اس بات سے بچنا کہ تیرا شمار ان بدترین حاکموں میں ہو۔ ‘‘ابنِ زیاد نے( گستاخانہ لہجے میں)کہا : ’’بیٹھ جاؤ !تم تورسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے صحابہ میں بھوسے کی طرح ہو۔ ‘‘ حضرتِ سَیِّدُنا عائذ بن عَمْرورَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا : ’’کیارسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اصحاب میں بھی بھوسہ ہے؟ بیشک بھوسہ تو ان کے بعد یا ان کے غیر میں ہوگا۔ ‘‘ (کتاب:فیضان ریاض الصالحین جلد:3 , حدیث نمبر:192) حاکم کے حقوق مختلف ہوتے ہیں،جو اس کے عہدے اور ذمہ داری کے متعلق ہوتے ہیں جن میں یہ حقوق شامل ہیں:

(1) قانونی حقوق: حاکم کا قانونی حق اسے اپنے عہدے اور ملک کے قانون کا خیال رکھنے میں مدد فراہم کرتا ہے ۔

(2) ملک کی حفاظت: حاکم کا ایک حق ملک کی حفاظت کرنا بھی ہوتا ہے اور یہ حاکم پر اولین فریضہ ہے ۔

(3) نظامی اور حکومتی امور میں اہتمام: حاکم کو ملک کے نظامی اور حکومتی امور کا اہتمام کرنا ہوتا ہے تاکہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو اور اس میں بہتری آ سکے۔

(4) انسانی حقوق کا احترام: حاکم پر انسانی حقوق کا احترام لازم ہوتا ہے ان حقوق کا اس کی رئایا کو فائدہ حاصل ہوتا ہے ۔

(5) مساوات اور انصاف: حاکم کو مساوات اور انصاف کا لحاظ رکھنا چاہیے تاکہ ہر شہری کو برابر حقوق ملیں۔

(6) علم اور تعلیم میں حاکم کا کردار: حاکم کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ معاشرتی ترقی کے لئے علم اور تعلیم کے فراہم کرنے میں مدد فراہم کرے کیونکہ علم ہی کسی قوم کی ترقی کا باعث بنتا ہے ۔

(7) شوریٰ کا نظام: اسلامی اور حکومتی نظام کا ایک اہم کردار ہوتا ہے حاکم کو چاہیے کہ شوریٰ (یعنی مشاورت) کے نظام کو ترتیب دے جس کے تحت حاکم عوام کی رائے سنے اور ان سے مشورہ لے ۔

(8) معاشرتی ترقی: معاشرتی ترقی میں حاکم اسلام کا ایک اہم کردار ہوتا ہے حاکم اسلام کو معاشرتی ترقی اور فقر کا مقابلہ کرنے کا ذمہ دار ہونا چاہئے تاکہ معاشرہ ترقی کر سکے۔

(9) فیصلوں میں حاکم کا کردار: حاکم پر فیصلہ کرنا بھی ان حقوق میں سے ہے حاکم کو چاہیے کہ دونوں اطراف سے سنے بغیر فیصلہ نہ کرے اور اسلام کے مطابق جو حدیں قرآن و حدیث میں بیان کی گئی ہیں ان کے مطابق فیصلہ کرے اور حد لگائے ۔

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔