اللہ پاک نے اس زمین پر بعض پر بعض کو حا کم اور بعض کو بعض کی رعایا بنایا ہے۔ لیکن دونوں طرح کے لوگوں کے ایک دوسرے پر حقوق بھی مقرر فرمائے ہیں۔اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من أطاعني فقد أطاع الله ومن عصاني فقد عصى الله ، ومن يطع الأمير فقد أطاعني ومن يعص الأمير فقد عصاني ( صحيح البخاري : 7137 ، الأنعام / صحيح مسلم : 1835 ، الإمارة )

ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ تعالی کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ تعالی کی نافرمانی کی ، اور جس نے امیر و حاکم کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر و حاکم کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی ۔

کسی بھی معاشرہ میں زندگی کےمعاملات کو صحیح طور پر چلانے کیلئےایک حاکم یا امیر کا ہونا ضروری ہے ، شہری زندگی ہو یا دیہاتی بغیر امیر کے کسی بھی جگہ کا نظام درست نہیں رہ سکتا ، اور کوئی بھی حاکم معاشرے میں امن و امان اس وقت تک قائم نہیں کرسکتا جب تک کہ اسے رعایا کا تعاون حاصل نہ ہو اگر غور کیا جائے تو یہ معلوم ہوگا کہ کسی بھی معاشرے کے اندر بدامنی کے پھیلنے میں سب سے بڑا دخل حاکم اور محکوم کی اپنی اپنی ذمہ داری اور اپنے اوپر واجبی حقوق کو ادا کرنے میں کوتاہی ہے ، اس لئے اس امر کی معرفت ضروری ہیکہ حاکم و محکوم اپنے فرائض و واجبات کو پہچانیں ۔

سننا اور ماننا : جو شخص کسی بھی طرح سے حاکم بن چکا ہے ، اسکی اطاعت و فرمانبرداری ہر فرد پرواجب ہے ، بشرطیکہ وہ حاکم جائز اور استطاعت کی حدود میں ہے : ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو ! اللہ اور اسکے رسول کی اطاعت کرو اور انکی جو امیر و حاکم ہیں ۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : مسلمان مرد پر اپنے مسلمان حکمران کی بات سننا اور ماننا فرض ہے (ہر کام میں ) خواہ وہ بات اسے پسند ہو یا نا پسند ، مگر یہ کہ اسے گناہ کرنے کا حکم دیا جائے ، پس جب اسے اللہ کی نافرمانی کا حکم دیا جائے تو پھر اس کا سننا اور ماننا فرض نہیں ہے ۔

خیر خواہی اور نصیحت : انکے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ کیا جائے ، اگر کوئی کوتاہی نظر آئے تو احسن طریقے سے انہیں متنبہ کیا جائے ، انہیں صحیح اور سچا مشورہ دیا جائے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : دین خیرخواہی کا نام ہے ، پوچھا گیا کس کی خیرخواہی ؟ آپ نے فرمایا : اللہ کی ، اللہ کے رسول کی ، اللہ کے کتاب کی ، مسلمانوں کے حاکموں کی اور عام مسلمانوں کی۔ ( صحیح مسلم ، بروایت تمیم داری )

انکے ساتھ تعاون : اس معنی میں کہ انکے جو حقوق واجبات اپنے اوپر ہیں انہیں ادا کرنے کی کوشش کریں اور اگر اپنے کچھ حقوق یا مال ہو رہے ہوں تو انکی وجہ سے اپنا دست تعاون نہ کھینچیں ۔ ایک بار اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ اگر ہم پر کچھ ایسے حاکم مسلط ہوجائیں کہ وہ ہم سے اپنا حق تو مانگیں لیکن ہمیں ہمارا حق نہ دیں تو ہمارے لئے کیا حکم ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اولا جواب سے خاموش رہے لیکن دوبارہ یا سہ بارہ سوال پر آپ نے فرمایا : تم انکی بات سنو اور مانو ، انکی جو ذمہ داری ہے وہ ان پر ہے اور جو تمہاری ذمہ داری ہے وہ تم پر ہے ۔ ( صحیح مسلم : 1846 ، بروایت وائل بن حجر )

عدم بغاوت اور انکے لئے دعا : اگر حاکم اسلام سے باغی نہیں ہے تو اس سے بغاوت جائز نہیں ہے ، بلکہ حتی الامکان اسکے اصلاح کی کوشش کی جائے اور انکے اصلاح و حق پر ثبات کیلئے دعا کی جائے ۔

فرمان نبوی : تمہارے اچھے حاکم وہ ہیں کہ تم ان سے محبت رکھتے ہو اور وہ تم سے محبت رکھتے ہیں اور وہ تمہارے لئے دعا کرتے ہیں اور تم انکے لئے دعا کرتے ہو ، اور تمہارے حاکموں میں سے میرے حاکم وہ ہیں کہ تم ان سے بغض رکھتے رکھتے ہو اور وہ تم سے بغض رکھتے ہیں اور تم ان پر لعنت بھیجتے ہو اور وہ تم پر لعنت بھیجتے ہیں ، آپ کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول ! ہم ایسے حاکموں کو تلوار لیکر انکے خلاف علم بغاوت نہ بلند کریں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : نہیں ، جب تک وہ تمہارے درمیان نماز قائم کرتے رہیں (ان کے خلاف بغاوت نہ کرنا ) اور جب تم اپنے حاکموں سے کوئی ایسی شے دیکھو جسے تم ناپسند کرتے ہو تو ان کے عمل کو برا سمجھ مگر انکی اطاعت سے ہاتھ نہ کھینچنا ۔( مسلم : 1855 ، بروایت عوف بن مالک )

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔