محمد طلحٰہ خان عطّاری (درجۂ رابعہ جامعۃُ المدینہ
فیضانِ خلفائے راشدین راولپنڈی پاکستان)
سود (Interest)سے مراد عقدِ معاوضہ (یعنی لین دین کے کسی معاملے) میں جب دونوں
طرف مال ہو اور ایک طرف اضافہ مشروط ہو کہ اس کے مقابل (یعنی بدلے) میں دوسری طرف
کچھ نہ ہو یہ سود ہے۔ اسی طرح قرض دینے والے کو قرض پر جو نفع، جو فائدہ حاصل ہو
وہ سب بھی سود ہے۔(گناہوں کے عذابات،حصہ اول،ص36)ربا یعنی سود حرامِ قطعی ہے اس
کی حرمت کا منکر کافر ہے اور حرام سمجھ کر جو اس کا مرتکب ہے فاسق مَرْدودُ الشَّہادۃ
ہے۔(بہار شریعت،2/268)
ہمارے معاشرے میں سود بہت تیزی کے ساتھ عام ہوتا چلا جا رہا
ہے اور اس کی بہت ساری وجوہات ہیں: اس کی سب سے بڑی وجہ لاعلمی ہے کہ بہت سے لوگ
سود کے متعلق شرعی راہ نمائی نہ لینے کی وجہ سے لین دین میں سودی معاملات کر رہے
ہوتے ہیں اور حرام کے مرتکب ہو جاتے ہیں اور اگر معلوم ہو بھی جائےکہ ایسا کرنا
سودی لین دین ہے تو دوسری بڑی وجہ سود کے بڑھنے کی، مال و دولت کی لالچ و حرص ہے
جو بندے کو اللہ و رسول کی فرمانبرداری سے بے پروا کر کے، پیسے کی محبت دل میں
بسا دیتی ہے اور حلال و حرام کی تمیز بُھلا دیتی ہے۔ جبکہ قراٰن و حدیث میں سود
کھانے اور سودی لین دین کی بہت سخت مذمت بیان کی گئی ہے جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ
ہے: ﴿ اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ
اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّؕ-﴾ ترجمۂ کنزالایمان: وہ جو سُود کھاتے ہیں قیامت کے دن نہ
کھڑے ہوں گے مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط بنا دیا ہو۔
(پ3،البقرۃ:275) سود کی مذمت پر احادیثِ کریمہ بھی ملاحظہ فرمائیں:
(1) نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:
سات تباہ کرنے والی چیزوں سے بچو، صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان نے عرض کی کہ وہ
کیا ہیں؟ ارشاد فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، جادو کرنا، جسے اللہ تعالیٰ نے
حرام فرما دیا ہو اس جان کو ناحق قتل کرنا، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا، جنگ کے
دن پیٹھ دکھا کر بھاگنا، پاکدامن مؤمنہ شادی شدہ عورتوں پر تہمت لگانا۔( بخاری،2/242،حدیث:
2766)
(2)حضرتِ جابر رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ نبیِّ کریمصلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود کھانے ،کھلانے ، لکھنے اور اس کےدونوں گواہوں پر
لعنت فرمائی اور فرمایا کہ سب برابر ہیں۔ (مسلم،ص663، حدیث: 4093)
(3)رسول ُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں:
شبِ معراج میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے پیٹ گھروں کی طرح تھے، جن میں
سانپ تھے جو ان کے پیٹوں کے باہر سے نظر آرہے تھے، میں نے کہا :اے جبریل! یہ کون
ہیں ؟ عرض کی:یہ وہ ہیں جو سود کھاتے تھے۔ (ابن ماجہ،3/71،حدیث:2273)
(4)فرمانِ آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: سود (کے
گناہ کے) ستر درجے ہیں، ان میں سب سے کم درجہ گناہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی ماں
سے زنا کرے۔(ابن ماجہ،3/72،حدیث: 2274)
(5)حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے:
جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پَن پھیلتا ہے۔(سود اور اُس کا
علاج،ص16)
دورِ حاضر میں سود کی چند مختلف صورتیں یہ ہیں : کسی چیز کی
خرید و فروخت انسٹالمنٹ کی صورت میں ہو اور ہر ماہ کی قسط مقررہ تاریخ پر ادا نہ
کرنے میں جرمانہ لگانا،انسٹالمنٹ کی صورت میں چیز کی قیمت علیحدہ اور زائد منافع
علیحدہ بیان کرنا۔ (اگر زائد منافع کو چیز کی قیمت ہی بیان کرے تو سود نہیں بلکہ
وہ مکمل قیمت ہی ہوگی اورجائزہے۔) ان صورتوں یا ان کے علاوہ کسی بھی سودی صورت کو
اگر راضی نامہ پرچہ وغیرہ پر لکھا گیا تو ان پر دستخط کرنا بھی ناجائز ہے اگرچہ
قرضہ دینے والا کہہ دے کہ صرف کاغذی کاروائی ہے زائد کچھ نہ لیا جائے گا۔ کیونکہ
سودی لین دین اگرچہ نہیں ہو رہا لیکن دستخط کرنا سودی شرط پر رضا مندی کا اظہار
کرنا ہے اور یہ بھی ناجائز و گناہ ہے۔بہرحال اس طرح کے تمام معاملات میں مفتیانِ
کرام سے شرعی راہنمائی ضرور حاصل کرلینی چاہئے تاکہ سود کی نحوست سے یقینی طور پر
بچا جاسکے۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ہر طرح کے سودی لین دین سے
محفوظ فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم