سود کی مذمت پر 5 فرامینِ مصطفیٰ از بنت امجد، فیضان ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ
مسلمانوں پر سود کو حرام قرار دیا ہے اور جو بد نصیب یہ جاننے کے بعد بھی سودی
لین دین جاری رکھے تو گویا وہ اللہ پاک اور اس کے رسول سے جنگ کرنے والا ہے،سود
قطعی حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے،اس کی حرمت کا منکر (یعنی اس کے حرام
ہونے کا انکار کرنے والا) کافر اور جو حرام سمجھ کر اس بیماری میں مبتلا ہو وہ
فاسق اور مردود الشہادہ ہے (یعنی اس کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی)۔ (بہار شریعت)
سود کی تعریف:سود اس اضافہ کو
کہتے ہیں جو دو فریق میں سے ایک فریق کو مشروط طور پر اس طرح ملے کہ وہ اضافہ عوض
سے خالی ہو۔(ہدایہ)
سود کی اقسام:قرض کے بدلے حاصل
ہونے والا اضافہ یا ادھار کی بعض صورتوں میں پایا جانے والا سود۔مخصوص اشیا کے
تبادلے پر چند صورتوں میں پایا جانے والا سود۔
سود کی مثال:ایک شخص ایک لاکھ
روپے قرض دے اور واپس ایک لاکھ دس ہزار وصول کرے تو یہ اضافی دس ہزار روپے کسی بھی
عوض سے خالی ہیں یہ سود ہیں۔
فرامینِ مصطفیٰ:
1۔جس نے سود کھایا اگر چہ ایک ہی درہم ہو تو گویا اس نے اسلام میں اپنی ماں سے
زنا کیا۔(نیکیوں کی جزائیں،ص 46)
2۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:شب معراج میرا گزر ایک ایسی قوم سے ہوا جس کے پیٹ گھر
کی طرح بڑے بڑے تھے ان پیٹوں میں سانپ موجود تھے جو باہر سے دکھائی دیتے تھے۔میں
نے پوچھا:اے جبرائیل یہ کون ہیں؟ انہوں نے کہا:یہ سود خور ہیں۔(سیرت مصطفیٰ،ص 103)
3۔جس قوم میں سود پھیلتا ہے تو گویا اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے۔
4۔سود اگرچہ ظاہری طور پر زیادہ ہی ہو آخر کار اس کا انجام کمی پر ہوتا
ہے۔(مسلم،ص 64،حدیث:284)
5۔قرض سے جو فائدہ حاصل کیا جائے وہ سود ہے۔
سود کے چند معاشرتی نقصانات:محشر کے دن جب سود خور اپنی قبروں سے اٹھیں گے تو مخبوط الحواس ہوں گے اور ان
کی کیفیت ایسی ہی ہوگی جیسے اس آسیب زدہ شخص کی ہوتی ہے جس کو شیطان نے چھو کر
مجنون اور خبطی بنا دیا ہو۔اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:سود خور لوگ
نہیں کھڑے ہوں گے (اپنی قبروں سے یا میدان محشر میں) مگر اس طرح جس طرح وہ کھڑا
ہوتا ہے جسے شیطان چھو کر خبطی (بد حواس) بنا دے یہ اس لیے کہ یہ کہا کرتے تھے کہ
تجارت بھی سود کی طرح ہے،حالانکہ اللہ پاک نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام کیا
ہے۔(البقرۃ:275)
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:تم ایسے گناہوں سے بچو جس کی قیامت کے دن بخشش نہیں ہوگی
ان میں سے ایک سود ہے،کیونکہ جو سود خوری کرے گا وہ روز قیامت مجنون بنا کر اٹھایا
جائے گا،پھر آپ ﷺ نے مذکورہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی: اَلَّذِیْنَ
یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ
یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّؕ-ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْۤا اِنَّمَا
الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰواۘ-(پ
3،البقرۃ:275)ترجمہ کنز الایمان:وہ جو سود کھاتے ہیں قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے
مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط کر دیا ہو یہ اس لیے کہ انہوں
نے کہا بیع بھی تو سود ہی کی مانند ہے۔ (طبرانی،2/747)
سود سے بچنے کی ترغیب:آج ہم دیوانہ وار مال و دولت کی ہوس میں اندھے ہو گئے ہیں اپنے بیوی بچوں کا
پیٹ پالنے کے لیے طرح طرح کے حیلے بہانے بناتے ہیں کہ میں بیوی بچوں کا پیٹ پال
رہا ہوں،ان کے لیے کما رہا ہوں ،کیا کروں حرام روزی کمانے کے سوا کوئی چارہ بھی
نہیں،لوگوں کو کیا ہو گیا کہ بیوی بچوں کا پیٹ پالنے اور ان کو عیش و عشرت کی
زندگی دینے کے لیے حرام روزی کمانے میں مصروف ہو گئے اور ان کی دین اسلام کے سنہری
اصولوں کے مطابق تربیت کرنے اور انہیں حلال لقمے کھلانے سے غافل ہو گئے،انہیں کیا
معلوم کہ قیامت کے دن اپنے بیوی بچوں کو علم دین نہ سکھانے اور حرام روزی کھلانے
کا کیسا وبال سامنے آئے گا،چنانچہ دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی
مطبوعہ 146 صفحات پر مشتمل کتاب "قرۃ العیون" صفحہ 93 پر ہے کہ مرد سے
تعلق رکھنے والوں میں پہلے اس کی زوجہ اور اولاد ہے،یہ سب قیامت کے دن کھڑے ہو کر
عرض کریں گے "اے ہمارے رب ہمیں اس شخص سے ہمارا حق لے کر دے،کیونکہ اس نے
کبھی بھی ہمیں دینی امور کی ترغیب نہیں دی اور یہ ہمیں حرام کھلاتا تھا جس کا ہمیں
علم نہ تھا" پھر اس شخص کو حرام کھلانے پر اس قدر مارا جائے گا کہ گویا اس کا
گوشت جھڑ جائے گا اس کو میزان کے پاس لایا جائے گا ایک شخص بڑھ کر آئے گا اور کہے
گا اس نے مجھے سود کھلایا تھا اس کی نیکیاں لے کر اس شخص کو دے دی جائیں گی پھر
فرشتے اس سے کہیں گے:یہ وہ بد نصیب ہے جس کی نیکیاں اس کے گھر والے لے گئے اور یہ
ان کی وجہ سے جہنم میں چلا گیا۔
اللہ کریم سے دعا ہے کہ ہمیں سود جیسے مہلک مرض سے محفوظ فرمائے اور حلال روزی
کمانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین