سود کی مذمت پر 5 فرامینِ مصطفیٰ از بنت بشیر احمد،جامعۃ المدینہ صابری کالونی
اوکاڑہ
اسلام دین کامل ہے زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی کرتا
ہے اسلام نہیں چاہتا کہ کسی انسان کو دینی یا دنیاوی معاملے میں کوئی نقصان ہو اس
لیے اسلام نے ہر معاملے میں کچھ حدیں مقرر کر دی ہیں،زمانہ جاہلیت میں جہاں اور
بہت سی معاشرتی برائیاں تھیں وہاں تجارت میں اور آپس کے معاملے میں ایک بڑی
معاشرتی برائی سود بھی عام تھی،اللہ پاک نے سود کو حرام کیا کیونکہ اس میں بہت سی
خرابیاں ہیں۔
اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:ترجمہ کنز العرفان:اللہ پاک نے خرید و فروخت کو حلال
کیا اور سود کو حرام کیا۔(البقرۃ:275)
سود حرام قطعی ہے اس کا منکر یعنی انکار کرنے والا کافر ہے۔(بہار
شریعت،2/768،حصہ:11)
جس طرح سود لینا حرام ہے اس طرح سود دینا بھی حرام ہے۔(بہار
شریعت،2/768،حصہ:11)
سود کی تعریف:لین دین کے کسی
معاملے میں جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف زیادتی ہو کہ اس کے مقابل (یعنی بدلے
میں) دوسری طرف کچھ نہ ہو یہ سود ہے۔(بہار شریعت،2/7،حصہ:11)
قرض دینے والے کو قرض پر جو نفع یا فائدہ حاصل ہو وہ بھی سود ہے۔(فتاویٰ
رضویہ،17/713)
فرامین مصطفیٰ:
1۔سود کا ایک درہم جو آدمی کو ملتا ہے اس کے 36 بار زنا کرنے سے زیادہ برا
ہے۔(شعب الایمان، 4/395،حدیث:5523)
2۔سود کا گناہ 73 درجے ہے ان میں سے سب سے چھوٹا یہ
ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زنا کرے۔(مستدرک، 2/338،حدیث: 2306)
3۔رسول اللہ ﷺ نے سود کھانے والے،کھلانے والے،لکھنے والے اور زکوٰۃ نہ دینے
والے پر لعنت فرمائی۔(مراٰۃ المناجیح،جلد 4)
4۔سود اگرچہ بہت ہو مگر انجام کمی کی طرف لوٹتا ہے۔(مراٰۃ المناجیح،جلد 4)
5۔ سود 70 گناہوں کا مجموعہ ہے ان میں سے سب سے چھوٹا یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں
سے زنا کرے۔(ابن ماجہ،حدیث:2274)
سود کے معاشرتی نقصان:سود کے بہت سے معاشرتی اور معاشی نقصانات ہیں جن میں چند درج ذیل ہیں؛
1)سود کا رواج تجارتوں کو خراب کرتا ہے،تجارت کی کمی انسانی معاشرے کو نقصان
دیتی ہے،سود خور کو بغیر محنت کیے مال کا حامل ہونا تجارت کی مشقت سے آسان معلوم
ہوتا ہے۔
2)سود سے باہمی محبت کو نقصان پہنچتا ہے جب آدمی سود کا عادی ہو جاتا ہے تو
وہ غریبوں،رشتہ داروں کو قرض حسن نہیں دیتا۔
3)سود خور اپنے مقروض کی بربادی کا خواہش مند رہتا ہے۔
4)سود میں جو بغیر کسی عوض کے زیادتی لی جاتی ہے یہ صریح نا انصافی ہے۔
5)سود کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ قرآن پاک میں سود
کھانے والے سے فرمایا گیا کہ وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے جنگ کا یقین کر لے یہ
شدید ترین وعید ہے کسی کی کیا مجال کہ وہ اللہ سے جنگ کا تصور بھی کر سکے۔
انسان کو چاہیے کہ ہر حال میں سود سے بچے اگرچہ تھوڑا سا ہی ہو کہ اس میں خدا
اور رسول کی ناراضگی ہے،انسان کو چاہیے کہ قناعت اختیار کرے تھوڑے مال پر راضی رہے
سود کے ذریعے اپنے مال کو زیادہ بڑھانے کی کوشش ہرگز نہ کرے،ہمیں چاہیے کہ لمبی
امیدوں سے کنارہ کشی کر لیں اس سے دل سے دنیا کی محبت نکلے گی اور گناہوں سے بچتے
ہوئے آخرت کی تیاری کا ذہن بنے گا۔