قرآن پاک میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا
اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنْ كُنْتُمْ
مُّؤْمِنِیْنَ(۲۷۸) فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ
وَ رَسُوْلِهٖۚ-وَ اِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْۚ-لَا
تَظْلِمُوْنَ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ(۲۷۹) (پ 3، البقرۃ: 278- 279)ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان
والو! اللہ سے ڈرو اور چھوڑ دو جو باقی رہ گیا ہے سود اگر مسلمان ہو پھر اگر ایسا
نہ کرو تو یقین کر لو اللہ اور اللہ کے رسول سے لڑائی کا اور اگر تم توبہ کرو تو
اپنا اصل مال لے لو نہ تم کسی کو نقصان پہنچاؤ نہ تمہیں نقصان ہو۔تفسیر خزائن
العرفان میں ہے:معنیٰ یہ ہے کہ جس طرح آسیب ردہ سیدھا کھڑا نہیں ہو سکتا گرتا
پڑتا چلتا ہے، قیامت کے روز سود خوار کا ایسا ہی حال ہوگا کہ سود سے اس کا پیٹ
بوجھل ہو جائے گا اور وہ اس کے بوجھ سے گر پڑے گا۔
سود کی تعریف: حدیث پاک میں ہے
رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:کل قرض جر منفعۃ فھو ربا قرض سے جو فائدہ حاصل کیا جائے وہ سود ہے۔سود قطعی حرام اور
جہنم میں لے جانے والا کام ہے اس کی حرمت کا منکر کافر اور جو حرام سمجھ کر اس
بیماری میں مبتلا ہو وہ فاسق اور مردود الشہادہ ہے۔(سود اور اس کا علاج) ذیل میں
سود کی مذمت پر 5 فرامین مصطفیٰ درج ہیں۔
فرامین مصطفیٰ:
1۔ رسول اللہ ﷺ نے سود لینے والے اور سود دینے والے اور سود لکھنے والے اور اس
کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ وہ سب برابر ہیں۔
2۔سود کا ایک درہم جس کو جان کر کوئی کھائے وہ 36 مرتبہ زنا سے بھی سخت ہے۔
3۔سود سے بظاہر اگرچہ مال زیادہ ہو مگر نتیجہ یہ ہے کہ مال کم ہوگا۔(اسلاف کا
انداز تجارت)
4۔سرکار مدینہ ﷺ نے فرمایا: شب معراج میرا گزر ایک قوم پر ہوا جس کے پیٹ گھر
کی طرح بڑے بڑے ہیں، ان پیٹوں میں سانپ ہیں جو باہر سے دکھائی دیتے ہیں، میں نے
پوچھا: اے جبرائیل! یہ کون لوگ ہیں؟کہا: یہ سود خور ہیں۔
5۔جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے۔
سود کے چند معاشرتی نقصانات: سود ایک ایسی برائی ہے جس نے ہمیشہ معیشت کو تباہ
کیا ہے، سود کا رواج تجارتوں کو خراب کرتا ہے کہ سود خوار کو بے محنت مال کا حاصل
ہونا تجارت کی مشقتوں اور خطروں سے کہیں زیادہ آسان معلوم ہوتا ہے اور تجارتوں کی
کمی انسانی معاشرت کو ضرر یعنی نقصان پہنچاتی ہے، سود کے رواج سے باہمی مؤدت
(محبت) کے سلوک کو نقصان پہنچتا ہے کہ جب آدمی سود کا عادی ہو تو وہ کسی کو قرض
حسن سے امداد پہنچانا گوارا نہیں کرتا، سود سے انسان کی طبیعت میں درندوں سے زیادہ
بے رحمی پیدا ہوتی ہے اور سود خور اپنے مدیون (مقروض) کی تباہی و بربادی کا خواہش
مند رہتا ہے، اس کے علاوہ بھی سود میں اور بڑے بڑے نقصان ہیں اور شریعت کی ممانعت
عین حکمت ہے۔
سود سے بچنے کی صورتیں: سود کی نحوست سے محفوظ رہنے کے لیے سب سے پہلے لمبی
امیدوں سے اپنے دامن کو پاک رکھنے کی ضرورت ہے۔یاد رکھیے! لمبی امیدوں کا بنیادی
سبب دنیا کی محبت ہے اور یہ مال اور دنیا کی محبت ہی بندے کو موت سے غافل کر دیتی
ہے جس کے سبب وہ دنیا کا عیش و آرام حاصل کرنے کے لیے ہر دم مصروف رہتا ہے۔ سرکار
والا تبار ﷺ کے کثیر ارشادات میں سبب اور علاج دونوں موجود ہیں، چنانچہ حضرت حسن
بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام سے دریافت فرمایا:
کیا تم سب جنت میں جانا چاہتے ہو؟ انہوں نے عرض کی: جی ہاں یا رسول اللہ ﷺ تو آپ
نے فرمایا: امیدیں کم رکھو اپنی موت کو آنکھوں کے سامنے رکھو اور اللہ سے اس طرح
حیا کرو جس طرح حیا کرنے کا حق ہے۔
سود سے بچنے کا دوسرا علاج قناعت ہے، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ
فرماتے ہیں کہ سرکار ﷺ نے ارشاد فرمایا: کامیاب ہو گیا جو مسلمان ہوا اور بقدر
کفایت رزق دیا گیا اور اللہ نے اسے دیئے ہوئے پر قناعت دی اور حضرت مولائے کائنات
علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں کہ جس نے قناعت اختیار کی اس نے عزت
پائی اور جس نے لالچ کیا ذلیل ہوا۔
اللہ پاک ہمیں سود اور دیگر گناہوں سے
بچنے کی توفیق دے۔